مجھ کو تو کچھ اور دِکھا ہے آنکھوں کے اُس پار

فوزیہ ربابؔ

مجھ کو تو کچھ اور دِکھا ہے آنکھوں کے اُس پار

تم بتلاؤ آخر کیا ہے آنکھوں کے اُس پار

سپنا کوئی بکھر چکا ہے آنکھوں کے اُس پار

دریا جیسے ٹوٹ پڑا ہے آنکھوں کے اُس پار

لکھّوں تیرا نام، پڑھوں تو سانول تیرا نام

تیرا ہی بس نام لکھا ہے آنکھوں کے اُس پار

بینائی تیرے رستوں کو تھام کے بیٹھی ہے

تیرے گھر کا دَر بھی وا ہے آنکھوں کے اُس پار

آنکھوں کے اِس پار تو جیسے دریا ٹھہر گیا

لیکن صحرا بکھر گیا ہے آنکھوں کے اُس پار

دن تعبیر مری چوکھٹ پر لا کر رکھ دے گا

رات نے تیرا خواب بُنا ہے آنکھوں کے اُس پار

رکھ دیتا ہے ہاتھ آنکھوں پر غیر کو جب بھی دیکھوں

جانے ایسا کون چھپا ہے آنکھوں کے اُس پار

اُس کو جاتا دیکھ رہی ہیں ہنس ہنس کر یہ آنکھیں

جانے کیا کچھ بیٖت رہا ہے آنکھوں کے اُس پار

اب توٗ آ کر دیکھے گا تو روتا جائے گا

ہم نے ایسا بَین کیا ہے آنکھوں کے اُس پار

بس اک خواب کی میّت ہے اور ماتم داری ہے

ہم نے جا کر دیکھ لیا ہے آنکھوں کے اُس پار

ہم نے تیری آنکھوں میں رہ کر محسوس کیا

کتنا درد چھپا رکھا ہے آنکھوں کے اُس پار

اب دنیا کے چہروں میں تجھ کو میں کیا دیکھوں

دل نے تجھ کو دیکھ لیا ہے آنکھوں کے اُس پار

لاکھ زمانہ بیچ آئے، توٗ لاکھ ہو مجھ سے دور

لیکن بالکل پاس کھڑا ہے آنکھون کے اُس پار

کیوں نہ ہر اک جانب اب شہزادے کی صورت ہو

ہم نے اُس کو نقش کیا ہے آنکھوں کے اُس پار

تجھ کو تو آباد لگا کرتی ہیں یہ آنکھیں

ویرانی کا شہر بسا ہے آنکھوں کے اُس پار

اوجھل اوجھل رہنے والا میری آنکھوں سے

مجھ سے کتنی بار ملا ہے آنکھوں کے اُس پار

آنکھوں سے تو نکل پڑا ہے پل بھر میں لیکن

آنسو کا سامان بچا ہے آنکھوں کے اُس پار

حیرانی اِس پار سے آخر کر بیٹھی ہے کوچ

وہ کتنا حیران کھڑا ہے آنکھوں کے اُس پار

تجھ کو بھی سرشار نہ کر دیں آنکھیں تو کہنا

ایک طلسمِ ہوش رُبا ہے آنکھوں کے اُس پار

پتھّر ہو کر رہ جائیں گی آنکھیں موند ربابؔ

اب بھی اس کا خواب پڑا ہے آنکھوں کے اُس پار

تبصرے بند ہیں۔