اردو کی یک رکنی فوج: ڈاکٹر عبدالقیوم

ڈاکٹر سیدہ گوہر

(لکچرر پرنسس شاہکار ویمنس ڈگری کالج، حیدرآباد)

 بین الاقوامیت اور عالمیانہ کے اس دور میں اردو کی بقاء پر سوالیہ نشان کئی ہیں دنیا میں بولی جانے والی 6,800 زبانوں میں سے ہر ماہ ایک زبان دنیا سے ناپید ہورہی ہے۔ عالمیانہ کی گہماگہمی میں مقامی یا علاقائی زبانوں کے لئے مواقع کم ہوتے جارہے ہیں اور تکنیکی طور پر ترقی یافتہ زبانوں خصوصاً انگریزی، فرانسیسی، جرمنی، جاپانی، زبانیں ، عالمی منظر پر اپنا مقام بناتی جارہی ہیں ۔ اس تناظر میں اردو زبان کو دوسری زبانوں سے مسابقت درپیش ہے۔ اردو کا ادب ادبی اعتبار سے دنیا کی کسی بھی زبان کے ادب کے ہم پلہ ہے۔ میر، غالب، اقبال اور فیض، انتظار حسین، کرشن چندرا منٹو وغیرہ عالمی سطح پر اردو ادب کے روشن مینار ہیں جو عالمی زبانوں میں اردو کی نمائندگی کرتے ہیں ۔ لیکن تکنیکی زبان کے طور پر اسے بہت کچھ ترقی کرنی ہے۔ گزشتہ پانچ دہوں کے دوران ایک طرف اپنے ثقافتی ورثہ سے دور ہوئی ہے تو دوسری طرف اس کے پڑھنے والوں ، خصوصاً ذریعہ تعلیم کے طلبہ میں کمی آتی گئی ہے۔ سائینس، سماجی علوم، کمپیوٹر، انجنیئرنگ، جدید طب، ٹکنالوجی میں اعلیٰ درجہ کی کتابوں کا فقدان ہے۔ جس کی وجہ سے یہ عالمی تناظر میں اپنے آپ کو نہیں منواسکی ہے۔ ہیری پوٹر کی لاکھوں کتابیں راتوں رات انگریزی، فرانسیسی، جاپانی و چینی زبانوں میں فروخت ہوسکتی ہیں ۔ لیکن اردو میں اس شہرہ آفاق کتاب کا کوئی ترجمہ دیکھنے کو نہیں ملا۔ اردو میں صرف مذہبی کتابوں کی عوامی سرپرستی بڑی حد تک ہے۔ ادبی، سائینسی و دیگر علمی کتابوں کی مانگ گھٹ کر نہیں کے برابر ہوگئی ہے۔

  اُردو زبان اور اس کا سماج آج جس حالت سے گزررہا ہے وہ افراتفری کا ایک ایسا عالم ہے جسمیں اردو کے متعلق سوچنے اور فکر کرنے اور اس کے متعلق کچھ کرنے کی کسی کو فکر نہیں ۔ ایسے میں کوئی فرد اردو زبان کے لئے اپنے آپ کو وقف کرتا ہے اور اُس کے لئے اپنی طبعی اور مالی توانائیاں صرف کرتا ہے تو وہ فرد لائق ستائش ہی نہیں بلکہ لائق تعظیم بھی ہے۔ یوں تو جامعات کی سطح پر اُردو درس و تدریس سے ہزاروں اساتذہ وابستہ ہیں لیکن کسی نے بھی اُردو ذریعہ تعلیم کے طلبہ کی نصابی ضرورتوں پر توجہ دینا ضروری نہیں سمجھا ایسے میں اگر ایک استاد اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرتے ہوئے سماجی علوم میں نصابی ضرورتوں کو پورا کرنے کا بیڑا اٹھاتا ہے تو اس فرد کو ہم اردو کی ایک رکنی فوج کا نام نہ دیں تو پھر کیا کہیں ۔ یہاں میری مراد ڈاکٹر عبدالقیوم صاحب سے ہے۔ اردو کے متعلق ان کی دردمندی کا اظہار ان کی متعدد کتابوں میں لکھی گئی ان کی تحریر ’’اپنی بات‘‘ سے ہوتا ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ ’’مادری زبان میں معیاری درسی مواد کی عدم موجودگی سے طلبہ کا معیار متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا …… اردو کی ترقی کے لئے کام کررہے اداروں اور انجمنوں کی کوئی کمی نہیں ہے بلکہ اس کا شمار کرنا بھی مشکل ہے۔

اداروں پر افراد کو اہمیت حاصل ہوگئی ہے۔ اس لئے وہ جمود کا شکار ہیں ۔ جمہوری عمل اور مسلسل تبدیلی و نئے خون کے بغیر کسی ادارہ کی ترقی کا خیال عموماً آج کے دور کی عملی حقیقتوں سے بہت دور ہے۔ ہر ادارہ اور انجمن اُردو کی ترقی کے کسی ایک پہلوکو اپناکر اس پر کام کئے ہوتے تو اُردو ذریعہ تعلیم کی جودگرگوں حالت آج ہے وہ کبھی نہیں ہوتی۔ چنانچہ اردو والوں کو اپنی زبان اور ترقی کے لئے حکومت کی پالیسیوں ، امداد اور نظر کرم پر انحصار کرنا پڑا۔ جب تک اردو ذریعہ تعلیم کے اساتدہ خود آگے بڑھ کر اپنے اپنے مضمون کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی سعی نہیں کرتے۔ حکومت کی جانب سے کی جانے والی کوئی بھی سعی اُردو والوں کی ضرورتوں کے لئے کافی نہیں ہوگی۔ اُردو کی ترقی کا ایک افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اُردو کی ترقی کے لئے کام کرنے والی انجمنیں سالانہ کانفرنسوں میں محض ’’اردو ذریعہ تعلیم کے مسائل‘‘ پر بڑے بڑے مقالے پڑھوانے اور مشاعرہ کے انعقاد پر ہی اکتفاء کرتی ہیں ۔ اُردو ذریعہ تعلیم کے طلبہ اور اساتذہ کے لئے معیاری نصابی مواد کی پیشکشی کے لئے کسی انجمن نے اب تک کوئی قابل قدر مثال نہیں چھوڑی ہے‘‘۔ ۱؎

’’اردو زبان میں گزشتہ بارہ برسوں کے دوران یہ میری پندرہویں نصابی کتاب ہے۔ گزرتے وقت کے ساتھ یہ احساس بھی شدت اختیار کرتا جارہا ہے کہ اردو زبان میں اعلیٰ سطح پر تعلیم حاصل کرنے والے طلباء میں مایوسی بڑھتی جائے گی اور وہ اردو ذریعہ تعلیم سے دور ہوتے جائیں گے  اب بھی میں یہ امید کرتا ہوں کہ مزید کچھ اساتذہ آگے آئیں گے اور اپنے مضمون کی معیاری اردو ضرورتوں کو پورا کرتے ہوئے اردو زبان کو ایک علمی اور عالمی زبان کی صف میں لاکھڑا کریں گے ‘‘۔ ۲؎

عبدالقیوم مزید افسوس کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ’’  اردو زبان میں نصابی کتابوں کی ضرورتوں کی تکمیل کے لئے نہ تو کسی یونیورسٹی نے کوئی بیڑہ اٹھایا ہے اور نہ ہی اردو ذریعہ تعلیم کے اساتدہ نے اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرتے ہوئے اس جانب کما حقہ توجہ دی ہے۔ میرا یہ مضبوط ایقان ہے کہ اردو زبان میں معیاری مواد یا نصابی کتب کے بغیر اردو ذریعہ تعلیم کی کوئی بھی کوشش نیم دلانہ اور طلبہ کے مستقبل سے کھلواڑ کے برابر ہوگی۔ ۳؎  اور چراغ جلاؤ کہ روشنی کم ہے ‘‘کے مصداق اردو ذریعہ تعلیم کے اداروں ‘ اساتذہ ‘ انجمنوں اور مخلصین کو آگے آکر نصابی کتابوں کی ضرورت کو پورا کرنے پر اپنی انفرادی و اجتماعی توانائیوں کو لگانا پڑے گا۔ جس کے بغیر اردو کی ترقی ناممکن ہوگی۔ اردو کی ترقی و اشاعت کے لئے بلند بانگ دعوؤں کی نہیں بلکہ ٹھوس لائحہ عمل اور اقدامات کی ضرورت ہے۔ خصوصاً ایسی جامعات ‘ جن کا ذریعہ تعلیم اردو ہے یا جہاں اردو میں امتحانات لکھنے کی اجازت ہے ‘ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ہاں شعبہ تصنیف و تالیف کا قیام عمل میں لائیں اور اردو کی نصابی کتابوں کی فراہمی کو اولین ترجیح دیں ‘‘۔۳؎

عبدالقیوم اسوسی ایٹ پروفیسر ڈپارٹمنٹ آف ایڈمنسٹریشن نے اپنے درس و تدریس کے سفر میں 1982 ء سے وابستہ ہیں ۔ 1982 ء میں سیاسیات سے ایم۔ اے کی تکمیل کے بعد اسی سال پیشہ تدریس سے وابستہ ہوئے اور 1990 ء میں آپ نے ’’علاقائی تصادم اور عظیم طاقتیں ۔ ایران عراق جنگ ایک مطالعہ‘‘کے موضوع پر ایم فل اور 2000ء میں ’’امریکی خلیج فارس پالیسی میں سعودی عرب کا مقام ‘‘ کے موضوع پر عثمانیہ یونیورسٹی سے پی۔ ایچ۔ ڈی کیا۔ آپ کا ذریعہ تعلیم پی۔ جی تک اُردو تھا۔ طالب علمی کے زمانے سے ہی آپ نے اُردو میں مضمون کی معیاری کتابوں کی کمی شدت سے محسوس کی اور انگریزی زبان کی کتابوں سے ہی اپنی ضرورت کو بمشکل پورا کیا۔ تب سے ہی آپ ہمیشہ اُردو میں معیاری کتابوں کی برسوں سے عدم موجودگی سے بے چین رہتے تھے۔ اور اُردو ذریعہ تعلیم کے طلبہ کی ذہنی احساس کم تری کو کم کرنے کے لئے اور انہیں بھی اُردو میں مضمون کی معیاری کتابوں کو فراہم کرنے کے لئے انہوں نے اُردو میں مضمون کی کتابوں کو تحریر کرنے کا بیڑا اٹھایا اور سال 2002 ء میں اُردو میں پولیٹیکل سائینس کی کتاب بین الاقوامی تعلقات سے اپنے سفر کا آغاز کیا جو کمرہ جماعت میں ان کی تذلیل کے نتیجہ میں لکھی گئی تھی۔ اور سال 2002 ء سے اب تک آپ نے 23 کتابیں اُردو میں تحریر کی ہیں اور ان کی بعض کتابوں کا دوسرا، تیسرا اور چوتھا ایڈیشن بھی آچکا ہے۔ سال 2002 ء میں آپ نے علم سیاسیات کے مضمون بین الاقوامی تعلقات، 2003 ء میں ہندوستان کی حکومت اور سیاست اور 2004 ء میں سیاسی فلسفہ 2005 ء میں علم سیاسیاست، تصورات، نظریات و ادارے، بین الاقوامی تعلقات کا دوسرا ایڈیشن۔ 2006 ء میں نظم و نسق عامہ اور اسی سال 2006 ء میں ماحولیاتی سائینس 2007 ء میں ہندوستان کا نظم و نسق، 2008 ء میں تاریخ ہندوستان (1526 ء تک ) 2009 ء میں سیاسی فلسفہ کا دوسرا توسیعی ایڈیشن اور اُسی سال 2009 ء میں عوامی پالیسی، 2010 ء میں سماجی تحقیق کے طریقے۔ 2011 ء میں تنظیمی رویہ 2012 ء میں تقابلی سیاست و 2014 ء میں تقابلی حکومتیں 2015 ء میں بین الاقوامی قانون اور نظم و نسق عامہ کا دوسرا توسیعی ایڈیشن اور 2016 ء میں تاریخ ہندوستان (عہد مغلیہ) 2017 ء کی کتاب سیاسی سماجیات کی اشاعت عمل میں لائی۔ اس طرح آپ نے اپنی انتھک کوششوں کے ذریعہ ہر سال پورے سوشیل سائینس کے مضامین میں کتابوں کو تحریر کرتے ہوئے اُردو ذریعہ تعلیم میں معیاری کتابوں کو تحریر کرنے والی ایک رکنی فوج بن گئے ہیں اور اپنی ان تصانیف اور کاوشوں کے ذریعہ ناصرف اُردو ذریعہ تعلیم کے طلبہ بلکہ اساتذہ کی ضرورتوں کو بھی پورا کیا ہے اور دوسرے اُردو داں طبقہ اور اساتذہ کے لئے ایک بہت بڑی مثال بنے ہیں ۔ چنانچہ ان کے متعلق اظہار خیال کرتے ہوئے پروفیسر کلام لکھتے ہیں کہ ’’ ڈاکٹر قیوم صاحب ہماری تعریف کے مستحق ہیں ۔ اردو میں اپنے طلباء کیلئے کتابیں لکھنے اور شائع کروانے کیلئے ہمیں نہ صرف ان سے بہترین تمناؤں کا اظہار کرنا چاہئیے بلکہ ان کے خطوط پر کام کرنے کی سیکھ لینی چاہئیے تاکہ ہم بھی اُردو کی نصابی کتابوں کی سمت میں کچھ آگے بڑھتے ہوئے کتابوں کو تحریر کرسکیں ‘‘۔ اس کے علاوہ اس شعبہ کے ہر طالبعلم کی ترجمہ کی ضرورتوں پر بھی توجہ دیتے ہوئے ہمیشہ شعبہ میں اور اپنے گھر پر اپنے آپ کو مصروف رکھا ہے۔ ایسا کام ڈاکٹر یوسف کمال کے الفاظ میں کوئی ’’جنونی‘‘ ہی کرسکتا ہے۔ یہ عبدالقیوم صاحب کا جنون اور اردو سے عشق ہے جو آج سرچڑھ کر بول رہا ہے۔ آپ نے اُردو میں نصابی کتابوں کی تیاری کو ایک مستقل ادارتی وتنظیمی شکل دینے کے لئے ’’نصاب پبلشرس‘‘ کا قیام بھی عمل میں لایا تاکہ دوسرے علوم میں نصابی کتابوں کی اُردو میں تیاری میں مصروف اساتذہ کی مدد کی جاسکے۔ اس ’’نصاب پبلشرس‘‘کے ذریعہ آپ کا مقصد ہر سال ایک نصابی کتاب کو اُردو عوام، اساتذہ اور طلبہ کے سامنے پیش کرنا ہے اور وہ اس مقصد کو ہر سال بخوبی نبھارہے ہیں ۔

ڈاکٹر عبدالقیوم کے عملی کارناموں کو دیکھتے ہوئے اُردو اکیڈیمی آندھراپردیش نے انہیں سال 2011 ء کا ’’کارنامہ حیات‘‘ ایوارڈ برائے تعلیم و تربیت سے نوازا ہے۔ اس سال 7 ستمبر کو ایم۔ وی۔ ایس گورنمنٹ ڈگری کالج کے شعبہ نظم و نسق عامہ نے قومی کانفرنس برائے فروغ اُردو کے تعاون سے منعقدہ قومی سمینار میں انہیں کارنامہ حیات ایوارڈ سے نوازا ہے۔ زندہ اقوام اپنے محسنوں کو اُن کی حیات میں ہی ان کے کارناموں کو سہراتے ہوئے ان کو مناسب انعام و اکرام سے نوازتی ہیں ۔ یہ بات مولانا آزاد اُردو یونیورسٹی کے لئے باعث اطمینان و فخر ہونا چاہئیے کہ عبدالقیوم جیسی شخصیت اُس ادارے سے وابستہ ہے۔ ادارے کی ذمہ داری ہے کہ وہ انہیں ان کو نہ صرف ان کا جائز مقام عطا کرے بلکہ کارنامہ حیات ایوارڈ بھی دے اور ان کا نام پریسیڈنٹ میڈل کے لئے روانہ کرے۔ پروفیسر محمد ظفر الدین کے الفاظ ہیں کہ’’ ڈاکٹر عبدالقیوم مانو کے بہترین اور موزوں اساتذہ میں سے ایک ہیں ۔ اپنی یونیورسٹی کو ایسے افراد کی سخت ضرورت ہے جو اردو میں دوسرے مضامین قلمبند کررہے ہیں ۔ عبدالقیوم صاحب کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں سلام کرتا ہوں ‘‘۔

تبصرے بند ہیں۔