موبائل فون کے آداب و مسائل

مفتی محمد صادق حسین قاسمی کریم نگری
دنیا کی ترقی اور نئی ایجادات میں سے ایک’’فون‘‘ بھی ہے جس نے عوامی رابطہ کو بہت آسان کردیا ،کوسوں دیر رہنے والے بھی اس کے ذریعہ آپس میں ربط بآسانی پیدا کرسکتے ہیں ،اور ایک دوسرے کے حال چال سے باخبر رہ سکتے ہیں۔فون بالخصوص موبائل فون اس وقت ہر انسان کی ایک ضرورت بناہوا ہے ،اور تقریبالوگ اس کے استعمال کے عادی ہوچکے ہیں،بلاتفریق امیر وغریب ،شہری ودیہاتی ،پڑھا لکھاوان پڑھ ہر کوئی اس سے فائدہ اٹھارہا ہے۔یہ بھی اسلام کا حسن اور کمال ہے کہ اس نے ہر موضوع پر اہل ِ ایما ن کو تعلیمات و ہدایات سے نوازا ہے ،اورچیزوں کے صحیح و غلط استعمال کے طریقوں سے آگاہ کیاہے۔چناں چہ ذیل میں ہم موبائل فون سے متعلق چندضروری مسائل ذکر کرتے ہیں جو عام طور پر لوگوں کو پیش آتے ہیں اور جن سے ناواقفیت کی وجہ سے الجھن اور پریشانی کا شکار رہتے ہیں یا اس کا غلط استعمال ہوتا ہے۔
فون پر بات کرنے کے آداب:
فون کے اہم مسائل جاننے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ اس پر کس طرح ربط کیا جائے اور اس کے کیا آداب ہیں ،ان سے واقف ہواجائے ،تاکہ ہمارا کوئی عمل کسی کے لئے بھی تکلیف کا باعث نہ ہو اور غلط استعمال کا وبال نہ آئے۔چناں چہ اس پر روشنی ڈالتے ہوئے حضرت مفتی محمد شفیع صاحب ؒ لکھتے ہیں:(۱)کسی شخص سے ایسے وقت میں ٹیلیفون پر مخاطب کرنا جو عادۃ ًاس کے سونے یا دوسری ضروریات میں یا نماز میں مشغول ہونے کا وقت ہو بلاضرورتِ شدیدہ جائز نہیں ،کیوں کہ اس میں بھی وہی ایذا رسانی ہے جو کسی کے گھر میں بغیر اجازت داخل ہونے اور اس کی آزادی میں خلل ڈالنے سے ہوتی ہے۔(۲)جس شخص سے ٹیلیفون پر بات چیت اکثر کرنا ہوتو مناسب یہ ہے کہ اس سے دریافت کرلیاجائے کہ آپ کو ٹیلیفون پر بات کرنے میںکس وقت سہولت ہوتی ہے ،پھر اس کی پابندی کرے۔(۳)ٹیلیفون پر اگر کوئی طویل بات کرنا ہوتو پہلے مخاطب سے دریافت کرلیا جائے کہ آپ کو ذرا سی فرصت ہوتو میں اپنی بات عرض کروں ،کیوں کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ٹیلیفون کی گھنٹی پر آدمی طبعاً مجبور ہوتا ہے کہ فوراً معلوم کرے کہ کون کیان کہنا چاہتے ہے اور اس ضرورت سے وہ کسی بھی حال میں اور اپنے ضروری کام میں ہوتو اس کو چھوڑکر ٹیلیفون اٹھاتا ہے ،کوئی بے رحم آدمی اس وقت لمبی بات کرنے لگے تو سخت تکلیف محسوس ہوتی ہے۔(۴)بعض لوگ ٹیلیفون کی گھنٹی بجتی رہتی ہے اور کوئی پروا نہیں کرتے نہ پوچھتے ہیں کہ کون ہے ،کیا کہنا چاہتا ہے؟یہ اسلامی اخلاق کے خلاف اور بات کرنے والے کی حق تلفی ہے ،جیسے حدیث میں آیا ہے : کہ جو شخص آپ کی ملاقات کو آئے اس کا تم پر حق ہے کہ اس سے بات کرو اور بلاضرورت ملاقات سے انکار نہ کرو،اسی طرح جو آدمی ٹیلیفون پر آپ سے بات کرنا چاہتا ہے اس کا حق ہے کہ آپ اس کو جواب دیں۔( معارف القرآن :6/394)
تین بار گھنٹی جانے کے بعد اگر کوئی فو ن نہ اٹھایا جائے تو سمجھنا چاہیے کہ اس وقت رابطہ ممکن نہیں کسی اور وقت میں رابطہ کی کوشش کرنی چاہیے۔٭اگر کوئی فون کی گھنٹی کاٹ دے یا کال ریجیکٹ کردے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ متعلقہ آدمی کسی عذ رکی وجہ سے مشغول ہے لہذا باربار کال کرکے پریشان نہیں کرنا چاہیے ،کچھ دیر انتظار کرلیں۔٭آوازوں کو تبدیل کرکے گفتگو کرناگویا کسی کو دھوکہ دینا ہے یہ اسلامی نقطہ ٔ نظر سے درست نہیں ہے۔٭ جس طرح گفتگو کی شروعات سلام سے ہونا چاہیے اسی طرح آخر میں بھی ’’السلام علیکم کہنا چاہیے کہ ملاقات کا اختتام سلام پر ہوجائے ۔٭ فون پر کال ختم کرتے وقت ’’خداحافظ ‘‘یا ’’اللہ حافظ ‘‘ کہا جاتا ہے ،یہ ایک دعا ہے جس کے معنی ہے کہ اللہ آپ کی حفاظت کرے ،اس کو استعمال کرنے گنجائش ہے البتہ رخصتی کے موقع پر نبی کریم ﷺ نے ’’السلام علیکم ‘‘ کہنے کی تعلیم دی ہے ۔سلام کے ساتھ اس کو کہنا چاہیے ۔٭موبائل فون سے ایک گناہ ِ کبیرہ لوگوں کی گفتگو کی جاسوسی ہے ،لوگ دوسری طرف سے آنے والی آواز کو اپنے موبائل میں محفوظ کرلیتے ہیں ،جسے بعد میں مختلف مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں یا وہاں موجود لوگوں کو سنانے کے لئے لاؤڈ اسپیکرکھول دیتے ہیں ،جس کا سامنے والے کوعلم نہیں ہوتا ،اگر وہ بات ان کو پتہ چل جائے تو ناراض ہوجائے یاسنبھل کر بات کرے،عام حالات میں بلااجازت موبائل فون میں کسی کی گفتگو محفوظ کرنا یا ت دوسروں کو سنانا جائز نہیں،کیوں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:مجلسوں میں کہی گئی بات امانت ہے۔،ٹیپ کرنے کی وجہ سے یہ امانت محفوظ نہ رہے گی ۔( تلخیص از:موبائل فون کا استعمال اور اس کے چند شرعی احکام18,12),)
اب آئیے موبائل فون سے متعلق ضروری اور اہم مسائل کو ملاحظہ فرمائیں ،اس وقت چوں کہ موبائل فون کا رواج ہی عام ہوگیا اور لینڈ لائن فون بہت انفرادی اور گھروں میں بہت کم اور دفتروں وغیرہ پر زیادہ استعمال ہونے لگے ہیں اس لئے ہم نے موبائل فون کا عنوان رکھا ہے۔ آداب تو دونوں کو ایک جیسے ہی ہیں لیکن موبائل فون کے مسائل اس کی جدت اور مختلف سہولیات کی وجہ سے کچھ اضافہ ہے ۔
Hello کے ذریعہ بات کا آغاز کرنا:
لفظ ِ ہیلو(Hello)کے بجائے ٹیلیفون پر ’’السلام علیکم ‘‘ کے ذریعہ گفتگو کا آغاز کرنا چاہیے ،کیوں کہ آپ ﷺ نے ہمیں کلام سے پہلے سلام کی تعلیم فرمائی اس لئے ٹیلیفون پر ’’السلام علیکم ‘‘ کے بجائے ہیلو سے کلام کا آغاز کرنا خلافِ سنت ہے ،۔( المسائل المہمۃ :1/173)
گانے اور میوزک والی رنگ اور کالر ٹون :
آج کل موبائل فون کی رنگ ٹون اور اسی طرح کالر ٹون میں کوئی گانا یا گانے کی میوز ک فیڈ کی جاتی ہے ،جب کہ گانا یا میوزک کا رنگ ٹون میں رکھنا جائز نہیں ہے ۔کیوں کہ اسلام میں گانے سننے اور میوزک کے استعمال کرنے سے سخت منع کیا گیا ہے ،اور حتی المقدور بچنے کی تعلیم دی ہے۔واستماع ضرب الدف المزمار وغیر ذلک حرام ،وان سمع بغتۃ یکون معذورا ویجب ان یجتھدان لایسمع ۔( شامی:9/566الریاض)
رنگ ٹون میں اذان یا آیت ِ قرآنی اور نعت رکھنا:
رنگ ٹون کا مقصد اس بات کی اطلاع دینا ہے کہ کوئی آپ سے بات کرنے کامتمنی ہے ،گویا دروازہ پر دستک دینے کے حکم میں ہے ،اس اطلاعی مقصد کوحاصل کرنے کے لئے قرآن پاک کی آیات یا اذان کی آوازکو استعمال کرنا بے محل ہے بلکہ ایک درجہ میں اس سے ان مقدس کلمات کی توہین بھی ہوتی ہے ،اسی بناء پر فقہا ء نے اس طرح کے مقاصد کے لئے کلماتِ ذکر کا استعمال ناجائز قراردیا ہے ؛لہذا موبائل کی رنگ ٹون میں اذان،آیات اور نعت وغیرہ فیڈ کرنا درست نہیں ہے ،بعض مرتبہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ آدمی استنجاء خانہ میں موبائل لے کر جاتا ہے اور وہیں کال آنے پر قرآن کی آیت کی آواز شروع ہوجاتی ہے ،اس سے اہانت کا پہلو بھی نکلتا ہے ،اس سے بہرحال بچنا چاہیے۔یکرہ ان یقرا القراٰن فی الحمام لانہ موضع نجاسات ولا یقرا فی بیت الخلائ۔۔۔لا یقرا القراٰن جھرا عند المشتغلین بالاعمال ومن حرمۃ القراٰن  ان لایقرای فی الاسواق وفی موضع اللغو۔( فتاوی ھندیہ:5/391بیروت، کتاب النوازل:17/87)
بیلنس لون لینا:
بسا اوقات کسی شخص کے موبائل فون کا بیلنس ختم ہوجاتا ہے ،تو وہ کمپنی کی طرف سے بیلنس لون منگواتا ہے،جس کی کٹوتی میں کمپنی کچھ پیسے بطور ٹیکس چارج کرتی ہے ،شرعا ان زائد پیسوں کو سود نہیں کہا جائے گا،کیوں کہ یہ حقیقت میں ادھار کی وجہ سے کال ریٹ بڑھانا ہے جو بلاشبہ جائز ہے۔( المسائل المہمۃ:7/201)
موبائل کےSMSسے اللہ ورسول کا کام ڈیلیٹ کرنا:
موبائل کی حیثیت ایک آئینہ کے مانند ہے ،جس میں عکس ظاہر ہوتا ہے ،اور کسی چیز کو مٹانے سے یاآئینہ کو سامنے ہٹانے سے اصل چیز کا مٹانا نہیں پایاجاتا ہے ؛لہذا قرآنی آیات ،احادیث شریفہ اور اللہ ورسول کے اسماء پر مشتمل میسج کو ڈیلیٹ کرنا منع نہیں ہے۔( کتاب النوازل:17/114)
نماز میں فون بند کرنا:
اگر کوئی نماز سے پہلے موبائل بند کرنا بھول گیا تھا اور نماز کے دوران موبائل بجنا شروع ہوجائے تو صرف ایک ہاتھ کی مدد سے اس کو بند کردے،دونوں ہاتھ کو استعمال نہ کریں ،ورنہ عمل کثیر کی وجہ سے نماز فاسد ہوجائے گی۔بعض لوگ دوران نماز موبائل میں کال آنے کی صورت میں موبائل نکال کر دیکھتے ہیں کہ کس کی کال ہے ،پھر رکھ دیتے ہیں ،یہ صورت صحیح نہیں ہے ۔( نماز کے مسائل کا انسائیکلو پیڈیا:4/158)
کیمرہ والا موبائل خریدنا:
بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ کیمرہ والا موبائل نہیں خریدنا چاہیے ،واضح رہے کہ کیمرہ والے موبائل کو خریدنا مطلقا ناجائز نہیں کہا جائے گا بلکہ اس کا ناجائز استعمال ہی ناجائز ہوگا ۔( کتاب النوازل:17/99)
اگر غلط ریچارج ہوجائے:
اگر کوئی شخص اپنے موبائل میں ری چارج کررہا تھا ،لیکن غلط نمبر ڈائل کرنے کی وجہ سے کسی اور کے موبائل میں ری چارج ہوگیا ،تو اسے اس شخص سے جس شخص کے موبائل میں ری چارج گیا ہے ،اپنی ری شارج کردہ رقم کے مطالبہ کا حق حاصل ہو گا ،اور شخصِ آخر کے لئے اس ری چارج کا استعمال حلال نہیں ہوگا۔( المسائل المہمۃ :1/177)
اجنبیہ سے مسیج کرنا:
موبائل پر کسی اجنبیہ سے مسیج کے ذریعہ گفتگو کرنا ایسا ہی ہے جیسے آمنے سامنے گفتگو کرنا ،اس لئے یہ بھی ناجائز ہے۔(المسائل المہمۃ :1/175)
سجدہ ٔ تلاوت کا حکم :
ریکارڈ میں آیت ِ سجدہ سننے سے سجدہ ٔ تلاوت واجب نہیں ہوتا ،موبائل پر اگر براہ ِ راست تلاوت کرنے والے کی آواز سن رہا ہے تو آیت ِ سجدہ سننے سے سجدہ واجب ہوجائے گا ورنہ ٹیپ ریکارڈ کا حکم ہے ۔(فتاوی دارالعلوم دیوبند آن لائن )
موبائل میں بلاوضو قرآن کو چھونا:
موبائل میں قرآن کریم ہو مگر اسکرین پر اس کی آیتیں نظر نہ آرہی ہوں تو موبائل کو بلاوضو چھوسکتے ہیں ۔اور اگر اسکرین پر قرآن کریم کی آیتیں نظر آرہی ہو ں تو ایسی صورت میں اسکرین پر بلاوضو ہاتھ لگانا ناجائز ہے ، البتہ موبائل کے دوسرے حصوں پر ہاتھ لگانے کی گنجائش ہے ،لیکن احتیاط بہتر ہے۔( فتاوی دارالعلوم دیوبند نمبر1438)
موبائل پرقرآن پڑھنا:
بغیر وضو موبائل کو ہاتھ میں لے کر تلاوت کرسکتے ہیں ؛البتہ اسکرین جس پر قرآنی آیات ظاہر ہوں ان کو ہاتھ نہ لگایا جائے۔( فتوی نمبر1437)
مسجد میں موبائل چارج کرنا:
مقیم شخص کا مسجد کی بجلی سے موبائل چارج کرنا درست نہیں ہے ، اگر چارج کیا تو عوض اداکرنا ضروری ہے۔مسافر مسجد کی بجلی سے موبائل چارج کیا تو تو کچھ رقم مسجد کے فنڈ میں جمع کردے ،کیوں کہ یہ نماز سے زائد ایک ضرورت پوری کی گئی ہے ،اس کا معاوضہ مسجد میں جمع کرنا چاہیے۔( کتاب النوازل:17/101)
آخری بات:
یہ چند ضروری اور اہم مسائل ذکر کئے گئے ہیں ،جن کا جاننا ضروری ہے اور اس کے مطابق عمل پیرا ہونا بھی ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ موبائل جو ہماری ایک ضرورت ہے اس کا استعمال بے جا اور غیر ضروری نہیں ہونا چاہیے اور بالخصوص مساجد میں داخل ہوتے وقت بند کرنے کا اہتمام کرنا چاہیے ورنہ اس کی وجہ سے خود کی بھی نماز خراب ہوگی اور دوسری کی نماز میں بھی خلل آئے گا ،اور موبائل پر اپنے قیمتی اوقات کو ضائع ہونے سے بھی بچا نا چاہیے ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔