موجِ خون سر سے گزرنی ہے گزربھی جائے

حادثہ ہو بھی رہے تاکہ یہ ڈر بھی جائے

عبداللہ ندیم

موجِ خون سر سے گزرنی ہے گزربھی جائے

حادثہ ہو بھی رہے تاکہ یہ ڈر بھی جائے

۔

خوں میں دوڑے کہ لہو آنکھ سے بن کر ٹپکے

غم اسی جسم میں رہتا ہے جدھر بھی جائے

۔

کب تلک حضرتِ مجنوں پہ ہی الزام لگے

تہمتِ عشق کسی اور کے سر بھی جائے

۔

خلعتِ عشق اتارے ہوئے مدت گزری

اب بدن سے یہ ترا رنگ اتر بھی جائے

۔

رائیگاں جائے نہ اس طور یہ وحشت کا سفر

ہاتھ صحرا نہ لگے ساتھ میں گھر بھی جائے

۔

ہے مرے شوقِ سفر کی یہ کرامت بھی ندیم

ساتھ منزل پہ مرے راہ گزر بھی جائے

تبصرے بند ہیں۔