مودی جی کو نوٹ بندی سے نہ ناپو

حفیظ نعمانی

وزیراعظم نریندر مودی نے تین دن پہلے زی ٹی وی کے ایک نمائندہ کو انٹرویو دیا تھا۔ اسے ہم نے بھی سنا تھا اور سوچا تھا کہ ہوسکا تو اس کے بارے میں کچھ وضاحت کریں گے اور اُمید یہ تھی کہ حالات پر نظر رکھنے والے صحافی بھی ضرور اس کا جائزہ لیں گے اس لئے کہ یہ انہوں نے پہلی بار کہا کہ مجھے صرف نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے پیمانے سے نہ ناپا جائے۔ جبکہ اب تک یہ دونوں معرکے ان کے نزدیک کچھ ایسے تھے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ؎

   جو کام کیا ہم نے وہ رستم سے نہ ہو گا

 اور اب دبے لفظوں میں وہ ان دونوں معرکوں سے اپنا دامن چھڑاکر کہہ رہے ہیں کہ یہ دیکھا جائے کہ میں نے کتنے ہزار دیہاتوں میں بجلی پہونچائی، کتنے لاکھ گھروں میں فلش لگوایا، کتنے کروڑ گھروں میں گیس سے کھانا پکوایا، کتنے لاکھ لوگوں کو بغیر ضمانت بینکوں سے قرض دلایا وغیرہ وغیرہ۔

انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں 30  سال کے بعد ہم نے مکمل اکثریت والی حکومت بنائی جو اب دنیا میں بہت اہمیت رکھتی ہے۔ اس سلسلہ میں ہمیں عرض کرنا ہے کہ مکمل اکثریت والی حکومت بی جے پی نے نہیں بنائی بلکہ ان عوام نے بنائی ہے جنہوں نے نریندر مودی نام کے ایک آدمی کی ایسی آواز سنی جیسی کسی الیکشن میں کبھی نہیں سنی تھی جیسے یہ کہ ہم نے برسوں محنت کرکے تحقیق کرلی ہے کہ ہندوستان سے باہر ملکوں میں چار لاکھ کروڑ کالادھن کانگریس کے لیڈروں نے دبا رکھا ہے اگر ہماری حکومت بنی تو ہم 100  دن کے اندر اسے وہاں سے منگوا لیں گے اور چونکہ وہ روپیہ عوام کا ہے اس لئے اسے آپ سب کے بیچ تقسیم کردیں گے۔ ہم نے حساب لگا لیا ہے کہ ہر ہندوستانی کے حصہ میں پندرہ پندرہ لاکھ روپیہ آئے گا جو اس کے بینک کھاتے میں جمع کرادیں گے یہ صرف چار سال پرانی بات ہے اس لئے سب کو یاد ہوگا کہ ان کے ساتھ ہر وقت ایک بابا رہا کرتا تھا جو اُن کی بات کی تائید کرتا تھا۔

ہندوستان  میں آج بھی 70  فیصدی جاہل اور کم عقل ہیں اور انہوں نے نریندر مودی کی آواز اور بابا کی تائید سنی تو ان کو یقین آگیا۔ انہوں نے مزید سنا کہ مہنگائی جن لوگوں کی وجہ سے ہے ہم ان کو پہچانتے ہیں ہماری حکومت  بنتے ہی وہ خود ہر چیز سستی کردیں گے۔ اور ہر گھر کے لئے اچھے دن آجائیں گے۔ اس پر بابا کہا کرتا تھا کہ پھر ہندوستان میں ڈھونڈے سے غریب نہیں ملے گا کیونکہ ہمارا روپیہ امریکہ کے ڈالر سے بھی زیادہ قیمت کا ہو جائے گا۔ ہم 2014 ء کی پوری تقریر نہیں سنائیں گے بس یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اتنا بڑا جھوٹ اور اتنے اعتماد سے جیسے وہ جو کہہ رہے ہیں وہ سب 100  دن میں کردیں گے اور ایک سنیاسی بابا کی بھرپور تائید اور اس پر مزید یہ کہ مجھے مودی جی سے اس لئے محبت ہے کہ ان کے بھی میری طرح نہ جورو ہے نہ جاتا وہ بے ایمانی کریں گے تو کس کے لئے؟ اور بھولے بھالے بھارتیوں نے 30  سال کے بعد ایک پارٹی کی حکومت بنوادی جو صرف جھوٹ اور دو جھوٹوں کے جھوٹ کی بدولت بنی ہے۔

 مودی جی انٹرویو دیتے وقت یہ کیوں بھول گئے کہ 2014 ء کی بدولت ان کو گجرات میں پارلیمنٹ کی ہر سیٹ مل گئی اور جب چار برس ہونے کو آئے تو انہیں 99  سیٹیں بھی حاصل کرنے میں خون تھوکنا پڑا اور گجرات کا الیکشن ایسے لڑا کہ اگر وہ ذاتی تعلقات کو درمیان میں نہ لاتے اور 12  برس وزیراعلیٰ رہتے ہوئے جو لوگوں پر احسان کئے تھے ان کی دُہائی نہ دیتے یا احمد آباد، سورت اور بڑودہ کے بڑے تاجروں کو ان کی مدد کا یقین نہ دلاتے تو 70  سیٹوں سے زیادہ ان کو نہ ملتیں ۔

مودی جی نے 2014 ء سے آج تک نوجوانوں اور کسانوں کے ساتھ مذاق کیا ہے انہوں نے کہا تھا کہ ہر سال ایک کروڑ نوکریاں دی جائیں گی اور ہو یہ رہا ہے کہ ایک اشتہار نوکری کا نکلتا ہے اس کے فارم کی قیمت 350  روپئے ہے  18 لاکھ لڑکے فارم خرید کر بھرتے ہیں فارم کی لاگت زیادہ سے زیادہ پانچ روپئے ہوگی حکومت کو ہر بے روزگار نے 345  روپئے فارم کی شکل میں دے دیئے دو برس ہوگئے آج تک پتہ نہیں کہ پھر کیا ہوا؟

یہ تو صرف ایک واقعہ ہے اس کے علاوہ کروڑوں لڑکوں نے نہ جانے کتنے کتنے برس نوکری کے انتظار میں گذار دیئے اور کتنی جگہ کے لئے فارم بھرے کہیں عین وقت پر پرچہ لیک ہوگیا کہیں امتحان ہوکر کسی وجہ سے ردّ کردیا گیا کہیں انٹرویو کے لئے نہیں بلایا اور نہ جانے کتنے ایسے ہیں جو صرف اس خط کے انتظار میں ہیں کہ آکر ذمہ داری سنبھال لو۔ مگر نوکری نہیں ملتی۔ اب مودی جی نے 2019 ء کی تیاری شروع کردی ہے اس سلسلے کا پہلا پروگرام وارانسی میں رکھا گیا تھا امت شاہ اور وزیر اعلیٰ کی جوڑی یہ سمجھ کر آئی تھی کہ ہر طرف زندہ باد کے نعرے سننے کو ملیں گے۔ لیکن وہاں منتظمین کی بے عزتی کے علاوہ کچھ نہیں تھا کرسیاں خالی تھیں اور بعد میں جب امت شاہ نے قصیدہ پڑھا تو لوگ اٹھ کر جانے لگے۔ سنا ہے کہ پروگرام یہ تھا کہ 17  ہزار نوجوانوں کو پارٹی سے جوڑا  جائے یعنی بے وقوف بنایا جائے۔ امت شاہ نے کہا کہ مودی کی قیادت میں ملک اور یوگی کی قیادت میں اترپردیش بدل رہا ہے دونوں حکومتوں نے نوجوانوں کے لئے نئی اسکیمیں نافذ کی ہیں اور نوجوانوں کو روزگار کے مواقع فراہم کئے جارہے ہیں۔

جو نوجوان خوشخبری سننے کے لئے آئے تھے وہ دہلی دور ہے سن سن کر جانے لگے۔ کیونکہ وہ تو یہ سننے آئے تھے کہ  2014 ء سے اب تک دو کروڑ نوجوانوں کو روزگار مل چکا ہے اور اب آپ کی باری ہے۔ لیکن وہی پرانی کہانی کہ دونوں حکومتیں نوجوانوں کے لئے اسکیمیں لارہی ہیں اور روزگار کے مواقع فراہم کئے جارہے ہیں ۔

مودی جی نے ایک بات انٹرویو  میں بڑی اہمیت کے ساتھ کہی تھی کہ ہمارے کاموں کی وجہ سے اترپردیش اور گجرات میں ہماری حکومت بنی۔ افسوس کہ یہ بھی غلط ہے دونوں جگہ انہوں نے ہندوئوں کو تقسیم کیا اور دونوں جگہ دستور، قانون اور جمہوریت و عدالت کی نافرمانی کرنے والوں کو خود گلے لگایا اور ان کا احترام کرنے والوں کو اپنا مخالف بتایا اس  کے لئے لفظ دوسرے ہیں جو سخت ہیں اس لئے ہم نے انہیں نہیں لکھا وہ تو دونوں جگہ اتنے نیچے اُتر گئے جہاں چھوٹے درجہ کے ورکر اترتے ہیں ۔ اور اب وہ پارلیمنٹ اور اسمبلی کے الیکشن ایک ساتھ کو موضوع بنا رہے ہیں جبکہ 1967 ء سے 50  برس ہوگئے الگ الگ الیکشن ہوتے ہوئے لیکن کسی نے مودی کی طرح جنگ کی طرح نہیں لڑے اس لئے آج تک ہورہے ہیں اور الیکشن کی طرح لڑیں تو ہوتے رہیں گے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔