یوم جمہوریہ: احتساب کا دن

خبیب حسن فضل حق مبارکپوریؔ

(بنارس)

آؤ اب مل کے گلستاں کو گلستاں کردیں

ہر گل ولالہ کو رقصاں وغزل کردیں

 کم وبیش دو سالوں کی پیہم کوششوں اور جانفشانیوں کے بعد بالآخر ۱۵ ؍اگست ۱۹۴۷ ؁ء کے دن غلامی کے سیاہ ترین گھنے بادلوں کی اوٹ سے آزادی کا روشن سورج طلوع ہوا، جس نے استبدادانہ نظام کے اندھیروں کو کافور کردیا۔ لیکن صحیح معنوں میں دیکھا جائے تو مکمل آزادی  ۲۶ ؍جنوری ۱۹۵۰ ؁ء کو حاصل ہوئی۔ جب دستور ساز اسمبلی کی تین سالہ شبانہ روز محنت کے بعد دستور کی ترتیب وتنظیم اور اسے حتمی سے مرحلے سے گزار کر پورے ملک میں نافذ کرکے سابقہ قوانین کو یک لخت منسوخ کر دیا گیا۔اور آئین ہند بھی ٹھیک ہمارے رہنمائوں کی فکر کے مطابق، جس کے لیے انہوں نے اپنے خون جگر سے چمنستان ہند کی آبیاری کی تھی اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا۔ اس طرح ان کے دیرینہ خوابوں کی تعبیر کی شکل میں دنیا کے نقشے پر سب سے بڑی پارلیمانی جمہوری ریاست کا ظہور ہوا۔

 گویا ۲۶ ؍جنوری ۱۹۵۰ ؁ء کو جمہوری طرز حکومت کا آغاز ہوا، جس کی رو سے پورے طور پر مذہب و ملت، ذات پات اور  رنگ  و نسل کی تفریق مٹاکر کسی بھی امتیازی سلوک سے ماورا ہر ہند وستانی کو عدل و مساوات اور پوری آزادی کے ساتھ یکساں حقوق کی ضمانت دی گئی۔ جس کی تعبیرآئین ہند صفحہ اول پر کچھ یوں کی گئی ہے ـ’ــ’ہم ہندوستانی عوام تجویز کرتے ہیں کہ ہندوستان ایک آزاد سماج وادی، جمہوری ہندوستان کی حیثیت سے وجود میں لایا جائے جس میں عام شہریوں کے لیے سماجی، معاشی، سیاسی،انصاف،آزادیٔ خیال، اظہار رائے، آزادیٔ عقیدہ وعبادت، مواقع و معیار کی برابری، انفرادی تشخص اور احترام کو یقینی بنایا جائے گا اور ملک کی سا  لمیت و یکجہتی کو قائم و دائم رکھا جائے گا۔ اور اس طرح ملک سابق امریکی صدرابراہم لنکن کے اس قول کے مصداق ٹھہرا  ’’جمہوریت عوام کی، عوام کے لیے اور عوام کے ذریعہ کی جانے والی حکومت ہے۔

لیکن بدقسمتی سے ۶۸ ؍سالوں پر محیط جمہوریت کا یہ سفر بہت سے روش سنگ ہائے میل کے باوجود  ایک کرب ناک اور تکلیف دہ سفر رہا۔

یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر

وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں

یہ وہ سحر تو نہیں، جس کی آرزو لیکر

چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں

ابتدا ہی سے اس کی جمہوریت پر شب خوں مارنے کی کوشش جاری رہی اور گاہے بگا ہے گوریلا حملے کیے جاتے رہے لیکن اب تو برسراقتدار طبقے نے سر عام سیکولر ذہنیت کو ورغلا کر ایسا ماحول بنا رکھا ہے کہ گنگا جمنی تہذیب جو عبوری طور پر سہی کسی نہ کسی شکل میں برقرار تھی وہ بھی رخصت ہوتی دکھائی پڑ رہی ہے۔ تمام شعبوں میں دخل اندازی اور پھر کسی حد تک گر کر اس پر اجارہ داری کی فکر پروان چڑھتی نظر آرہی ہے۔ حتی کہ جمہوریت کے بنیادی ستوں بھی خطرات کے سایہ میں گھرے ہیں۔ صحافت تو اپنی تمام انواع و اقسام کے ساتھ پہلے ہی رخصت ہو چکی اور جمہوریت کے مضبوط ترین ستون عدلیہ میں بھی شگاف ڈالے جارہے ہیں، جس کی واضح مثال حالیہ دنوں میں چار معزز ججوں کا منظر عام پر آ کر پریس کانفرنس کے ذریعہ آگاہ کرنا کہ ’’ جمہوریت خطرے میں ہے ‘‘

اب تک کی ہندوستانی تاریخ کا اہم ترین اور حساس مسئلہ تھا جسے سنجیدگی سے لے کر مثبت طور پر حل کیا جانا چاہیے تھا، لیکن افسوس چوتھے مقبوضہ ستون نے سلگتے مسائل خاص طور سے طلاق، حج سبسڈی اور تگڑیا وغیرہ کو ابھار کراس سنگین مسئلے کو دبادیا اور چاروں ججوں کی آوازیں صدا بصحرا ہو کر رہ گئیں۔ اور یہ بھی بعید نہیں کہ آئندہ یہ حقیقت پسند ججز شر پسندوں کے عتاب کا شکار ہوں۔

  اس کے علاوہ جس طرح اقلیتی طبقے کو ہراساں کرکے ظلم و زیادتی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے وہ حددرجہ قابل افسوسناک عمل ہے خواہ وہ مسلم کش فسادات کا لا متناہی سلسلہ ہو یا فرضی ایشوز کو رنگ دے کر سر عام فتنہ و فساد اور بالاعلان قتل و غارت گری کا المیہ ہو یا گزشتہ دنوں راجستھان اور مہاراشٹرا کے دل سوز واقعات ہوں، جو کہ ہندوستانی جمہوریت پر ایک بدنما داغ بلکہ عالمی طور پر ملک کی شبیہ داغدار کرنے میں موثر کردار ادا کرنے والی چیزیں ہیں۔ اور مستزاد یہ کہ حکومت اب تک ایسے سانحات کی مستقل روک تھا م اور ٹھوس عملی اقدام اور جمہوری فکر کو عام کرنے میں نا کام رہی ہے۔ اور بعض مسائل میں تو اس قدر غفلت کا مظاہرہ کیا گیا کہ سرکردہ افراد کی پشت پناہی کا پورا احساس ہونے لگتا ہے، اور ونسٹن چرچل کا وہ قول یاد آنے لگتا ہے جو انہوں نے ہندوستان کی آزادی سے پہلے کہا تھا کہ ’’ اس ملک کا اقتدار رذیلوں، بدمعاشوں، اور لٹیروں کے ہاتھوں میں چلا جائے گا۔ ہندوستا ن کے سب سیاسی لیڈران چھوٹے دل و دماغ اور گھٹیا سوچ کے ہوں گے۔ زبانوں کے میٹھے اور دل کے کمینے، وہ اقتدار کے لیے آپس میں لڑیں گے اور سیاست جیت جائے گی، ہندوستان ہار جائے گا یہاں تک کہ وہ دن آئے گا جب پانی او رہوا تک پر ٹیکس لگائے جائیں گے ‘‘۔

  خیر اب تو زبان حال سے عالم یہ ہے   ؎

ایک دو زخم نہیں جسم ہے سارا چھلنی

درد بے چارہ پریشاں ہے کہاں سے اٹھے

 الغرض پورا ہندوستان حیران و پریشان ایک عجیب کشمکش میں مبتلا ہے۔ نہ کسی کو کسی کے حقوق کی فکر دامن گیر ہے اور نہ ہی کسی کے تئیں احترام کا جذبہ پنپنے پا رہا ہے۔ اس جمہوری ملک میں خاص طور سے اقلیتی طبقہ کے متعلق لا پرواہی کی ایک افسوس ناک داستان ہے۔ حالانکہ یہ بات معلوم ہے کہ جمہوریت میں اکثر یتی حکومت کی کامیابی کا ر از اقلیتوں کے تحفظ اور خوشحالی میں پوشیدہ ہے۔ جیساکہ گاندھی جی نے کہا تھا ’’ جمہوریت کا بنیادی اصول یہ ہے کہ کمزور ترین فرد کو انتہائی شہ زور کے مساوی مواقع حاصل ہوں ‘‘۔

  لیکن افسوس یہ ساری چیزیں خواب و خیال ہی میں رہ گئیں۔

طلوع صبح کے دھوکے میں صبح کاذب سے

لٹا کیے ہیں ستاروں کے کارواں چپ چاپ

 قارئین کرام! جشن یوم جمہوریہ پر احتساب بھی ضروری ہے کہ ۶۸ ؍ سالہ اس جمہوری سفر میں ہم کس حد تک کامیاب رہے ہیں، آیا ہم نے اپنے مقاصدکو پایا یا نہیں ؟ اور کیا ان سات عشروں کے طویل وقفے میں جمہوریت ہرہندوستانی کے خون اور خمیر میں جاگزیں ہوئیں یا نہیں ؟ ؟ اور کیا ہم جمہوریت میں دی گئی قانونی سہولیات سے پورے طور پر مستفید ہو رہے ہیں یا نہیں ؟ ؟؟ یہ یا اس طرح کے سوالات کے جوابات ڈھونڈئیے، اگر جوابات نفی میں ہو ں تو جان لیں کہ پرچم کشائی کے ساتھ جمہوریت کے خوبیاں بیان کرنے اور دیگر دیرینہ رسوم ادا کرنے سے کوئی فائدہ نہیں، اور نہ ہی جمہوریت نام رکھ لینے اور جمہوری قوانین بنا لینے سے کچھ حاصل ہونے والا ہے۔ جب تلک کہ اس ملک میں صحیح طریقے سے جمہوریت نافذ نہ ہو سکے اور افکار و خیالات سمیت من جملہ تمام امور جمہوریت کی عکاسی اور ترجمانی نہ کرنے لگیں۔

 شرط ہے صدق و صفا جمہوریت کے واسطے

ورنہ ایک مکر و ریا کا دام ہے جمہوریت

 آئیے !! اسلاف کی قربانیوں اور انہیں خراج عقیدت پیش کرنے سے پہلے عہد کریں کہ پورے ملک کو جمہوریت کی حقیقی روح سے آشنا کروائیں گے، الفت و محبت اور امن و امان کا پیکر بن کر ملک کو جمہوریت کے سانچے میں ڈھالیں گے، تاکہ ملک کسی بھی خانہ جنگی اور تفرقہ بازی سے محفوظ رہ سکے، ساتھ ہی جمہوری نظام کو بحال رکھ کر ترقی کی شاہ راہ پر گامزن ہو سکے۔ خدائے بزرگ و بر تر ہم سب کو اس کی توفیق دے۔

2 تبصرے
  1. مولانا محمدرضا ۪یلیا۫ مبارکپوری کہتے ہیں

    ماشا اللہ بہت عمدہ تحریر ہے خراج عقیدت پیش کرنے کا بہترین نمو نہ ہے ۔

  2. عظمت علی کہتے ہیں

    ماشاء اللہ! عمدہ تحریر ہے!
    یوم جمہوریہ کے حوالہ سے اچھا لکھا آپ نے!

تبصرے بند ہیں۔