مودی حکومت کے دوبرس کا عوام کو چاہئے حساب

عظیم جمہوری ہندوستان میں16 مئی کو مودی حکومت کے دو سال کی مدت مکمل ہو چکی ہے۔ اس درمیان کافی اتار چڑھاؤ کا سامنا کر چکی مودی حکومت نے ملک کے عوام کو ترقی کی نئی بلندیوں پر لے جانے کا جو خواب دکھایا تھا ۔کیا اس پر عمل ہو رہا ہے یاان کا وعدہ محض ایک خواب بن کر ہی رہ جائے گا۔اس وقت یہی سوالات ہیں جو مرکزمیں بی جے پی کے زیر قیادت این ڈی اے کے تعلق سے ملک وبیرون ملک کے میڈیااہلکاروں،سیاسی و معاشی تجزیہ نگاروں کے بحث کا موضوع بن چکے ہیں۔آج بھی اخبارات نے مودی کی دوسالہ مدت کار پر نمایاں سرخیوں کے ساتھ خبریں شائع کی ہیں۔ملک کے مؤ قر میڈیا گروپ انڈیا ٹوڈے کا کہنا ہے کہ اقتدار ملتے ہیں ملک میں عدم تحمل اور ہجومی دہشت گردی کو جس طرح سے کھلی چھوٹ دی گئی اس نے واضح کردیا کہ مرکز کی بی جے پی حکومت کا اصل ایجنڈا کیا ہے۔سابقہ یوپی اے کے دور حکومت میں ہر دن اچھالے جانے والے گھوٹالوں ،بدعنوانیوں،رشوت خوریوں اور سرکاری مشنریز میں جڑیں جماچکی لوٹ کھسوٹ کے انکشافات نے ملک کے سوا سوکروڑ عوام کو بے چین ومضطرب کریادیا تھااور ملک کے مایوس رائے دہندگان نے اقتدار میں تبدیلی کا فیصلہ کرلیاتھا۔یہی وجہ ہے کہ ملک میں 30برس کے طویل ترین عرصہ کے بعد سادہ لوح عوام نے مودی کے وعدوں اوربی جے پی کے ترقیاتی اعلانات سے لبالب بھرے ہوئے انتخابی منشور کو سر آ نکھوں پر رکھا اور کسی ایک پارٹی (بی جے پی)کو مکمل اکثریت سے حکومت بنانے کا موقع دے دیا۔مگر چند دنوں کے اندر ہی بی جے پی کے زیر اقتدار ویاپم اسکیم اور ہندوستان میں کا لی دولت کے شہنشاہ آئی پی ایل سر براہ للت مودی کے ساتھ بی جے پی کی قدآور رہنما اور ریاست راجستھا ن کی وزیر اعلیٰ وسندھرا سے تعلقات کو میڈیا نے کافی تنقیدی لہجے میں اٹھا یا ،جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دو ماہ کے اندر ہی مودی حکومت سے عوام کے بھروسے کی عمارت زمیں بوس ہوگئی ۔پھر ٹیکس چوروں کے ذریعہ بیرون ملک جمع کی گئی کا لی دولت وپس لاکر ملک کے ہر غریب خاندان کے اکاؤنٹ 15لاکھ روپے پہنچانے کے انتخابی ایجنڈے سے فوراً پارٹی صدر کا یوٹرن لے لینا ایسا معاملہ تھا جس نے عوام کو بی جے کے تعلق سے بالکل مایوس کردیااور ملک کے عام آ دمی کو یہ یقین ہوگیا کہ یہاں قول عمل کے تضاد اور فرقہ پرستی والے نظریات سے آ گے عوام کے فائدہ کی کوئی فکر موجود ہی نہیں ہے۔
عوام این ڈی اے بالخصوص بی جے پی کے یوٹرن سے اس قدر مایوس ہوگئے کہ دوماہ بعد ہی جب دہلی کے ریاستی انتخابات سامنے آئے تو پتہ چلاکہ مودی کے وعدوں پر ملک کا عام آ دمی بھروسہ کرنے کواب کسی بھی صورت میں تیار نہیں ہے۔چناں چہ عوام نے دہلی کے ریاستی اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی وہ درگت بنادی کہ اسے صرف تین سیٹوں پر اکتفا کرنا پڑا۔یعنی اپوزیشن میں بیٹھنے کیلئے سیٹوں کی مطلوبہ تعداد حاصل کرنے میں بھی بی جے پی کامیاب نہیں ہوسکی۔
اب جبکہ گزشتہ16مئی2016کو مودی سرکار کے دو برس مکمل ہوچکے ہیں تو ایک بار پھر بی جے پی کے انتخابی منشور میں شامل ترقیاتی منصوبوں کا بڑی شدت کے ساتھ احتساب کیا جانے لگاہے۔سیاسی تجزیہ نگاروں نے سوالات اٹھا نے شروع کر دیے ہیں۔ جن اہم مسائل کے ساتھ ملک کے عوام نے مودی حکومت کو پلکوں پر بٹھایا تھا ،اس میں سے کتنے مسائل ایسے ہے جن پر عوام مطمئن ہے اور وہ کون سیشعبے ہیں جن میں حکومت کو ملک کے عوام کے لئے اب ایمانداری کے ساتھ محنت کرنی ہوگی۔اس قسم کے سوالات ہندوستان کے معروف انگریزی اور گجراتی اخباروں میں بھی شائع کئے جارہے ہیں۔
میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ جس چیز نے مرکز کی این ڈی اے حکومت کیخلاف عوام کو سب سے زیادہ مایوس کیا ہے اس کا تعلق بی جے پی کے اقتدار میں آ نے کے بعد بے مہار بڑھتی ہوئی مہنگائی کا مسئلہ ہے۔جس سے عام آدمی آج کراہنے لگا ہے۔ گزشتہ دو برسوں کے دوران مہنگائی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ تعلیم اور صحت کے اخراجات میں حیران کن اضافہ ملک کے اس متوسط طبقے کی کمر توڑ رہا ہے، جس نے مودی حکومت سے مہنگائی میں کمی کی امیدیں وابستہ کررکھی تھیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے انتخابات سے پہلے بڑھتی ہوئی قیمتوں اور مہنگائی کو قابو کرنے کے بہت سے وعدے کیے تھے، لیکن حقیقت ان کے برعکس نظر آ رہی ہے۔ کولکتہ میں کام کرنے والے ایک سینتالیس سالہ آئی ٹی کے ماہر اور سرکاری ملازم سمبودھا بنرجی کا نیوز ایجنسی رائٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھاکہ’میرے بچوں کے اسکول کے خرچ اور اہل خانہ کے میڈیکل اخراجات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ حکومت نے پٹرول کے شعبے میں دی جانے والی رعایت بھی ختم کر دی ہے اور پنشن سیونگ پر ٹیکس بھی بڑھا دیا ہے۔ اب یہ سب کچھ ناقابل قبول ہے۔‘‘یہ درد صرف سمبودھا بنرجی کا نہیں ہے، بلکہ کشمیر سے کنیا کماری تک غریبوں مزدوروں کادرد بھی یہی ہے۔حالات اتنے خراب ہوچکے ہیں کہ کسی باحیادوشیزہ کی طرح خوردونوش کی اہم چیز یعنی دال غریبوں،مزدروں اورعام آدمی کی تھا لی شرماکر جمع خوروں کے گوداموں میں چھپ کربیٹھ گئی ہے۔رائٹرز نے مودی کے دوبرس کی حکومت کے مکمل ہونے پر ملک کے طول و عرض میں ہر طبقہ کے لوگوں کی آراء جمع کرنا شروع کردی ہیں۔رائٹرز سے بنرجی کا کہنا تھا کہ اب وہ سن دو ہزار انیس میں ہونے والے انتخابات میں مودی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کو ووٹ دینے سے پہلے دو مرتبہ سوچیں گے۔دریں اثنا وزارت خزانہ کے ایک سنیئر عہدیدار کا اپنا نام ظاہر نہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ حکومت بھی اس مسئلے سے آگاہ ہے اور مڈل کلاس طبقے کا بوجھ کم کرنے کے لیے ملک کے دس ملین سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔مگر صرف سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کردینے بھر سے ملک کے غریبوں مزدور کے اچھے دن لوٹ آ ئیں گے ،یہ مسئلہ ابھی بھی تشنہ تعبیرہے۔ افراط زر کے حوالے سے اعداد و شمار جمع کرنے والی وزارت شماریات کے مطابق نریندر مودی کی حکومت مئی دو ہزار چودہ میں اقتدار میں آئی تھی اور اس کے بعد سے تعلیمی اخراجات میں تیرہ فیصد، ہاؤسنگ اخراجات میں دس فیصد، صحت کے شعبے میں اخراجات میں چودہ فیصد اور بجلی کی قیمتوں میں آٹھ فیصد اضافہ ہوا ہے۔جبکہ مذکورہ تمام شعبوں میں سابقہ حکومتوں کی جانب سے عوام کو دی جانے مراعات یعنی سبسڈیز میں حوصلہ شکن حدتک تخفیف کردی گئی ہے۔علاوہ ازیں نریندر مودی کی کامیابی کے بعد سے کھانے پینے کی زیادہ تر وہ اشیاء اور مشروبات جو ملک کے کارپوریٹ خاندانوں اور بڑی کمپنیوں کے ذریعہ پیش کی جاتی ہیں ان کی قیمتیں اگرچہ کم ہوئی ہیں ،لیکن متوسط طبقے کی پسندیدہ ترین اشیاء میں انڈے، دودھ اور نان ویج سمیت سبزیوں کی قیمتیں آج آسمان چھورہی ہیں۔اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ ان دو سالوں کی مدت کار میں حکومت نے کئی عوام دوستمنصوبے شروع کئے۔ مگراس کا فائدہ عام لوگوں کو ملایا نہیں اس موضوع پر ملک وبیرون ملک کے ماہرین کا سروے ہنوز جاری ہے۔اس دورانملک بیرون ملک حکومت ہند کی خوب تعریفیں بھی ہوئی ہیں یا منصوبہ بند طریقے تعریفیں کروائی گئی ہیں، جبکہ مہنگائی، بے روزگاری اور بی جے پی لیڈروں کے متنازعہ بیانات کی وجہ سے حکومت کو تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا۔اس کے نتیجے میں ملک کے امن پسند شہری اور سیکولر اقدار کی امین رائے دہندگان کا مودی کے نعرے’’سب کا ساتھ سا کا وکاس ‘‘پر بھروسہ ٹوٹ گیاہے۔بہر حال یہ پارٹی کے نجی معاملات ہیں۔اگر اسے پھر اقتدار میں واپس آ نا ہے تو بی جے پی اور این ڈی اے کی تمام جماعتوں کو اپنا حتساب خود کرنا چاہئے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔