غالب شناسی میں مقدمات کی معنویت واہمیت

مقدمہ نگاری کی معنویت واہمیت مسلم ہے ۔ خصوصاً تحقیق ، تنقید، سوانح ، تاریخ و سیاست، تہذیب ومعاشرت ، اصنافِ شعرو ادب اور مختلف
علو م وفنون کی مبادیات و محرکات کی تفہیم و تعبیر کے حو الے سے مقدموں کی افادیت غیر معمولی ہو جا تی ہے ۔’’ مقدمہ شعروشاعری ‘‘ جس سے اردو تنقید کا باضابطہ آغاز ہوتاہے ، ’’دیوانِ حالی ‘‘ کا مقدمہ ہی تو ہے ۔عبدا لر حمان بجنوری کی کتاب ’’محاسنِ کلامِ غالب ‘‘بھی دراصل ’’ دیوانِ غالب ‘‘ (نسخۂ حمیدیہ) کا وہ مقدمہ ہے ، جس کے بغیر غالب شناسی کی کوئی تا ریخ نا مکمل ہو گی ۔اُ سی طرح مولوی عبد الحق کے مقدمے کیفیت و کمیّت دونوں اعتبار سے قابلِ قدر ہیں اور انہیں بجاطورپر اردو کا ’’ سب سے بڑامقدمہ باز ‘‘کہا جاتا ہے۔ خصوصاًکلاسیکی شعرو ادب پرانہوں نے ایسے بیسیوں مبسوط مقدمے تحریر کئے ، جن کے ذریعہ نئی تنقیدی جہتیں روشن ہو ئیں۔
مقدموں کی اسی ہمہ گیر اہمیت کے پیشِ نظر اِس مقالے میں’’ دیوانِ غالب ‘‘کے مختلف نسخوں ، انتخابات اور غالب پر لکھی گئی متعدد اہم تصانیف پر ماہرین غالبیات اور ناقدین غالب کے مقدموں کااس زاویے سے جائزہ لینے کی سعی کی گئی ہے کہ غالب شناسی کے طویل سفر میں یہ مقدمے کس حد تک مفید اور معنی خیز رہے ہیں ۔سچ تو یہ ہے کہ اردو میں باضابطہ مبسوط مقدمہ سب سے پہلے حالی نے لکھا ۔ اور اِسی مقدمے سے غالبیات سے متعلق بنیادی مباحث کا آغاز ہو ا ۔ ہر چند کہ اِس سے پہلے محمدحسین آزاد نے ’’آبِ حیات ‘‘ میں غالب کا تذکرہ چھیڑا ہے لیکن اول تو ان کی تنقیدانشاپر دازی کی نذر ہوگئی اور دوم محمدحسین آ زادکے معروضی رویّے کے نتیجے میں غالب کا قرارواقعی مقام و مرتبہ متعین نہ ہو سکا ۔ محمد حسین آزاد کے بالمقابل حالی کا معاملہ یہ ہے کہ وہ براہِ راست غالب کے شاگرد تھے اور فطری طور سے غالب فہمی میں ان کا جذ بۂ عقیدت محسوس کیا گیا ہے ، مگر اِ س کے باوجود حالی کے طرز تفہیم میں ’’ معروضیت ‘‘ کا عنصر دبنے نہیں پایا ۔ مثا ل کے طور پر ’’مقدمہ شعروشاعری‘‘کا اقتباس:
’’اگلوں نے عشقِ الٰہی یا محبتِ روحانی کو،جو ایک انسان کو دوسرے انسان کے
ساتھ ہو سکتی ہے ، مجازاً شراب کے نشے سے تعبیر کیا ہے ا و ر اسی مناسبت سے
جام وصراحی ،خم وپیمانہ اور ساقی ومے فروش وغیرہ کے الفاظ بطورِ استعارہ کے
استعمال کئے تھے یا بعض شعرائے متصوقین نے شراب کو ، اس وجہ سے کہ وہ
اِس دارالغرور کے تعلقاتسے تھوڑی دیرکو فارغ البال کر نے والی ہے ، بطورتفاؤل
کے موصل المطلوب قراریا تھا ، رفتہ ، رفتہ وہ اور اس کے تمام لوزمات اپنے حقیقی
معنوں میں استعمال ہو نے لگے ۔یہاں تک کہ مشاعرہ کلال کی دکان بن گئی ۔
ایک کہتا ہے : لا ،دوسرا کہتا ہے : اور لا ، تیسراکہتا ہے :پیالہ نہیں تو اوک ہی سے پلا ..،، 1؂
اس اقتباس میں حالی نے’’پیالہ نہیں تواوک ہی سے پلا ‘‘کے ذریعے غالب کے اس شعر پر طنز کیا ہے:
؂ پلادے اوک سے ساقی جوہم سے نفرت ہے
پیالہ گرنہیں دیتا ، نہ دے، شراب تو دے ۔
حالی نے سر سید سے متاثر ہو کر شعرو ادب کو قومی صلاح وفلاح کا وسیلہ قرار دیا ۔اس کی جھلک مذکور ہ اقتباس میں صاف طور سے دیکھی جاسکتی ہے حتی کہ ’’افادی ادب ‘’ کے راسخ نظریے کی زد میں خود ان کے استاد غالب بھی آگئے ۔لیکن حالی کی انصاف پسندطبیعت اس بات کا اعتراف کئے بغیر کیسے
مطمئن ہو سکتی تھی کہ غالب کی امتیازی صفت ان کی ’’جدت طرازی ‘‘ ہے ۔ مقدمے میں ایک جگہ غالب کے شعر :
؂ محرم نہیں ہے تو ہی نواہائے راز کا
یاں ورنہ جوحجاب ہے پر دہ ہے ساز کا
کا موازنہ عرفی کے اس شعر:
؂ ہر کس نہ شنا سند ۂ ر از است وگرنہ
اینہا ہمہ راز است کہ معلومِ عوام است۔
سے کر تے ہو ئے کہتے ہیں :
’’اگرچہ گمان غالب ہے کہ عرفی کی رہبری اس خیال کی طرف قرآن مجید کی اس
آیت سے ہو ئی ہوگی وَاِنْ مِّنْ شَیْئٍ اِلّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِہٖ وَلٰکِنْ لاَّتَفْقَھُوْنْ
تَسْبِیْحَہُمْلیکن ہر حالت میں عرفی کا یہ شعر آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے اور
جس اسلوب میں کہ یہ خیال اِس سے ادا ہو گیا ہے اب اُس سے بہتراسلوب ہاتھ
آنا دشوار ہے ۔ بایں ہمہ مرزا کی جدت اور تلاش بھی کچھ کم تحسین کے قابل نہیں ہے
کہ جس مضمون میں مطلق اضافے کی گنجائش نہ تھی اس میں ایسا لطیف اضافہ کیا ہے
جو باوجود الفاظ کی دلفریبی کے لطفِ معنی سے خالی نہیں ۔ عرفی کا یہ مطلب ہے کہ
جو باتیں عوام کو معلوم ہیں یہی در حقیقت اسرارہیں ۔ مرزا یہ کہتے ہیں کہ جو چیزیں
مانعِ کشفِ راز معلوم ہو تی ہیں یہی درحقیقت کاشفِ راز ہیں‘‘ 2؂
مذکورہ اقتباس سے دو نتائج اخذ کئے جاسکتے ہیں اول یہ کہ اس سے ’’تقابلی تنقید‘‘ کی عمدہ نظیر قائم ہو تی ہے ۔دو م یہ کہ مرزاکی جدت طراز طبیعت کااندازہ ہو تا ہے ۔غالب کے موازنہ وتقابل کے اِسی دھندلے نقش کو پور ی آب وتاب کے ساتھ عبد الر حمان بجنوری نے ’’دیوانِ غالب‘‘ (نسخۂ حمیدیہ) کے مُقدمے میں روشن کیا اور یہی مقدمہ بعد میں ’’محاسنِ کلامِ غالب ‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں شائع ہو ا ۔ بجنوری نے غالب کا تقابل انگریزی ، فرانسیسی اور جر من شعراسے کر تے ہو ئے غالب کو ان سبھوں سے بہت اعلا وبالا ثابت کر نے کی کو شش کی ہے ۔حالا نکہ اس عمل میں بنیادی طور سے بجنوری کی ’’ غالب پر ستی ‘‘کا دخل ہے ۔’’محاسنِ کلامِ غالب ‘‘کی سب سے بڑی خامی یہ کہ غالب کی تنقید کے بجائے پرستش کی حد تک مداحی نظر آتی ہے ۔ بجنوری پر یہ اعتراض مجنوں گو رکھپوری نے اپنی کتاب ’’غالب شخص اور شاعر ‘‘ میں ، ڈاکٹر سید عبدا لطیف نے ’’ غالب ‘‘ میں، یاس یگانہ چنگیزی نے ’’ غالب شکن ‘‘ میں، اختر اورینوی نے’نقدِغالب ‘‘ میں ،ڈاکٹر یوسف حسین خاں نے’’ غالب اور آہنگِ غالب‘‘ میں ،راہی معصوم رضانے’’یاس یگانہ چنگیزی ‘‘ میں اور گیان چند جین نے ’’رموزِ غالب‘‘ میں اپنے اپنے پیرائے میں کیا ہے ۔اصلیت غالباًیہ ہے کہ عبد الرحمان بجنوری ، غالب کے وہ مدّاح ہیں جنھیں متعدد علوم وفنون پر دسترس ہے اور وہ بے جا طور پر اہنے تبحرِ علمی کا انطباق غالب کی شاعری پر کر نے کی کو شش کر تے ہیں ۔حالا نکہ یہ رویّہ بھی غالب کی شاعرانہ حیثیت کے ساتھ یک گونہ زیادتی کے مترادف ہے ۔ ’’محاسن کلامِ غالب ‘‘ کے ایک ، ایک لفظ میں غالب پر ستی اپنے شباب پر نظر آتی ہے ۔آغاز ہی اِس جملے سے ہو تاہے ۔
’’ہندوستان کی الہامی کتابیں دو ہیں ۔مقدس وید اور دیوانِ غالب ‘‘ ۔3 ؂
ظاہر ہے کہ یہ اسلوب سنجیدہ تنقید کے لئے قطعی مناسب نہیں ہے ۔مزید یہ کہ اِ س مقدمے کی باعث کلامِ غالب کے بارے میں کئی غلط مفروضات عام ہو ئے ہیں ، مثلاً : غالب نے شعور ی طور پر صنائع و بدائع سے پر ہیز کیا ،ان کے کلام میں آمد ہے آورد نہیں ، ان کے یہاں محاورے بے حد کم ہیں ، وہ بنیادی طور پر فلسفی شا عر ہیں ۔ وہ ’’وحدت الو جود ‘‘کے پو ری طرح قائل ہیں اور ان کی شاعری حزن وغم کی شاعری ہے وغیرہ وغیرہ۔مذکو رہ دعوے خود بجنوری کے الفاظ میں ملا حظہ ہوں :
’’صنائع وبدائع کے استعمال سے یہ ثابت ہو تا ہے کہ طبیعت میں آمد نہیں ہے ۔
صنائع وبدائع کااستعمال کلام کو عام ادبی زندگی سے جدا کر دیتا ہے اور جس زمانے
میں صنائع اوربدائع کا عام راواج ہو وہزمانہ عوام کے انحطاط اور زوال کا ہو تا ہے ۔
غالب بہت کم صنائع اوربدائع کااستعمال کر تے ہیں ‘‘ ۔4 ؂
……………
’’مر زا غالب نے اپنے دیوان میں محاورے کی بند ش سے اکثر احتراز کیا ہے ۔
تمام دیوان میں مشکل سے دس اشعار ایسے ہیں جن میں کو ئی محاورہ باندھاہے‘‘۔ 5؂
……………
’’غالب ایک فلسفی شاعر ہے جو شاعری کا جامہ زیبِ تن کئے ہو ئے ہیں ‘‘ ۔6 ؂
……………
’’غالب وحدت الو جود کے قائل ہیں وہ خدا کو ماسوا سے علاحدہ نہیں خیال نہیں
کر تے بلکہ ان کا مذہب ہمہ اوست ہے ۔‘‘ 7؂

عبد الرحمان بجنوری نے لکھا ہے کہ غالب نے صنائع وبدائع سے پر ہیز کیا ہے ۔ اس دعوے کی تردید بلاغت کی صرف ایک ہی کتاب سے بخوبی
ہو جاتی ہے ۔ وہاب اشرفی نے اپنی تالیف ’’ تفہیم البلا غت ‘‘ میں 29صنعتوں کی مثال غالب کے 33 اشعار سے دی ہے ۔یہ تو بلاغت کی صرف ایک کتاب کا حوالہ ہے اور نہ جانے کتنی صنعتیں ہو ں گی جن کی مثال سے وہاب اشرفی نے صرفِ نظر کیا ہوگا ۔ مذکورہ کتاب میں کلامِ غالب کے پیشِ نظر جن صنائع کی نشاندہی کی گئی ہے ،ان کی بس یہ فہر ست ملاحظہ ہو:
(1)طرفینِ تشبیہ (2)طرفینِ تشبیہ حسّی سمعی(3)طرف تشبیہ عقلی (4)مشبہ حسی
اور مشبہ بہ عقلی (5)مشبہ عقلی اور مشبہ بہ حسی اور وجہِ شبہ واحد عقلی (6)تشبیہ مر سل ؍
تشبیہ تشریح(7)استعارہ حسی متعلق بباصرہ (8)کنایہ بعید (9)تعریض (10)
ادماج (11)حشوِ ملیح (12)ایہام یاتو ریہ (13)تا کیدالمدحبما شبہ الذم (14)
تجاہلِ عارفانہ (15)تلمیح (16)تشابہ الاطراف(17)متحمل الضدین (18)
جمع(19)ترجمتہ اللفظ (20)ترصیع(21)رد العجز علی الحشومع شبہ الاشتقاق(22)
مقابلہ (23)اشتقاق(24)جمع وتفریق (25)طباق سلبی (26)قول بالموجب
(27)لف و نشرمرتب (28)مراعات النظیر(29)ضلع جگت۔
علاوہ ازیں اگر صرف ’’ صنعتِ تلمیح ‘‘کے پیشِ نظر دیکھا جا ئے تو کلامِ غالب میں اس کی بھی بے شمار مثالیں مو جود ہیں ۔ اسی بنا پر محمود نیازی نے ’’تلمیحاتِ غالب ‘‘ کے نام سے جو کتاب تر تیب دی ہے ۔(غالب اکیڈمی ،نئی دہلی سے جو ن 1972 ء میں شائع ہو ئی )،اُس میں انہوں نے کلامِ غالب

سے 67 تلمیحوں کی مثالیں پیش کی ہیں ۔ اُن میں بعض ایسی تلمیحات بھی شامل ہیں جو ماقبل شعرا بالخصوص غزل گو شعرا کے کلام میں غالباً یکسر مفقود ہیں ۔ مثلاً :
(1) وَصفِ دُلدُل(2) طِلا ئے دست اَفشار اور ترنجِ زر(3)لَقَاکی داڑھی اور عَمروعیار کی زنبیل (4)کاغذی پیرہن اور جاگیر سمندر وغیرہ …
زبان وادب کے بالغ نظر قارئین تسلیم کر تے ہیں صنائع وبدائع کا استعمال عیب نہیں بلکہ خوبی ہے ۔ بشر طیکہ اس کو سلیقے اور اعتدال سے بر تا جا ئے کیوں کہ صنائع سے کلام میں زور ،تہ داری ، حسن ،توانائی اور شعریت پیدا ہو تی ہے ۔ ورنہ مضمون عموماً اکہرا ، پھیکا ،غیر شعری اورکمزورہو جا تاہے ۔ غالب نے نہایت ہنر مندی سے ان صنعتوں کو بر تا ہے ، خصوضاًتلمیحات کے ضمن میں وہ خیال ملاحظہ ہوجو’’ تلمیحاتِ غالب ‘‘ (از محمود نیازی کے ’’تعارف ‘‘میں امتیازعلی عرشی خاں عرشی نے ظاہر کیا ہے :
’’غالب فارسی اور اردو، دونوں زبانوں کے بلند پایہ شاعر اور نثر نگار تھے ۔ ان میں جدت پسندی بہت تھی ، نیز دماغ خلاقِ الفاظ ومعانی کو انھو ں نے نئے نئے انداز سے بر تا …‘‘ 8 ؂
دیو انِ غالب کے مطالعہ سے ظاہر ہو تاہے کہ غالب نے ایک ہی تلمیح سے کئی کئی مضامیں اور مطالب پیدا کئے ہیں ۔ مثلا’’ خضر ‘‘سے تقریباً18مضامین خلق کئے ہیں ۔
بجنوری صاحب کا دوسرا مفروضہ یہ کہ غالب نے محاورے کی بندش سے احتراز کیا ہے ۔اِ س کی نہایت واضح تردید پریم پا ل اشک کی کتاب
’’ روز مرہ ومحاورۂ غالب ‘‘ ہو جاتی ہے ، جس میں انھوں نے غالب کے ایسے 398 اشعار نقل کئے ہیں ، جن میں کسی نہ کسی محاورے کا استعمال کیا گیا ہے۔
تیسرا دعویٰ کہ غالب بنیادی طور سے فلسفی ہیں پھر بعد میں شاعر ،تو اِس کی تردید خود ان کے کلام سے ہو جاتی ہے ۔ غالب بنیادی طور پر فلسفی نہیں بلکہ شاعر ہیں ۔ان کے کلام میں جہاں فلسفے کا گمان گذرتا ہے ، وہ دراصل ایک شاعرانہ کفیت ہے ۔ فلسفی ایک منظم فلسفۂ حیات وکائنات رکھتا ہے ۔ غالب کے یہاں یہ معاملہ نہیں ہے ۔ وہ کسی واحد فلسفے یا نظر یے سے مکمل طور پر وابستہ نہیں ہیں بلکہ ان کے یہاں آزادہ روی ہے جو اُن جیسے شاعر کی اہم خصوصیت ہے اور چوں کہ وہ فلسفی نہیں ہیں لہٰذا اِس کے نتیجے میں کسی فلسفہ پرقانع نہیں رہتے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ وحدت الوجود کا کبھی اقرار کر تے ہیں تو کبھی انکار ۔مثلاً:
جب کہ تجھ بن نہیں کو ئی مو جود پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے
یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں غمزہ و عشوہ و ادا کیا ہے
نورالحسن نقوی نے حامد علی خاں کے مُرتَّبہ’’ دیوانِ غالب ‘‘ کے مقدمے میں غالب کے منظم ومنضبط فکر و فلسفہ سے طبعی بُعد اور زاد خیالی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے :
جس طرح کلامِ اقبال میں ایک مر بوط فکر اور ایک منضبط فلسفہ ملتا ہے اس طرح غالب کے
ہاں نہیں ملتا …اُن کی شاعری نہ درسِ اخلاق ہے،نہ فلسفہ ہے اور نہ پیغام !وہ ایک سو چنے
والے شاعر ضرور ہیں مگر ان کی سوچ خطِ مستقیم پرنہیں چلتی ۔ وہ کسی ایک رجحان کے شاعر نہیں
اور بڑی شاعری کسی ایک رجحان کی پابندہوتی بھی نہیں ۔ وہ تو زندگی کی تر جمان ہو تی ہے …‘‘ 9 ؂
جہاں تک بجنوری کے اس دعوے کا تعلق ہے کہ غالب حزن وغم کاشاعر ہے تو اہلِ نظر پر کھل چکا ہے کہ کلامِ غالب کی اولین سطح پر نظر آنے والی
غم ونشاط کی کیفیتیں ،دراصل وہ کیفیتں نہیں جو ایک عامی فردکو پیش آنے والے دُکھ سکھ سے پیدا ہو تی ہیں۔ غالب کی شاعرانہ طبع ان کیفیتوں کو ایک ایسے
آمیزے کی شکل میں دیکھتی ہے جس کا چہرہ ہمہ وقت تغیر پذیر اور ایک دوسرے میں آمیز ومنعکس ہو تا رہتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ کچھ معتبر غالب فہم ، اُسے کیف وسرور کا شاعر بھی قرار دیتے ہیں۔ظ۔ انصاری کے ایک قابلِ ذکر مقالے کا مو ضوع ہی یہ کہ ’’ غالب ۔نشاط کا شاعر ‘‘ہے ۔غالباً ، کلامِ غالب میں
غم ونشاط کی سیمابی کیفیتوں کی شناخت نے ہی شکیل الرحمان سے کتاب’’غالب کی جمالیات ‘‘کے مقدمہ بعنوان ’’حرفِ اول ‘‘ میں یہ سطور لکھوائی ہیں :
ان کے تغزل کی روح اِس لئے مختلف ہے ۔ جس آہ و فغاں کی طرف اشارہ کیا ہے،
اُس میں عجم کے بت خانے کا یہ ناقوس ایک پوری تا ریخ کی علامت ہے ، ایک بڑی
اور تہ دارتہذیب کی روح کی آواز ہے ، جس کی قدروں اورتجربوں کی تاریخ عظیم تر
ہے ۔غالب کے تخلیقی تجربوں میں آتش کدے کی آگ اور روشنی ، بت خانے کے
ناقوس کی آواز ، آتش پر ستوں کی شراب …سب کے رنگ ہیں ، سب کا آ ہنگ ہے ،
سب کی تاثیر ہے ، آہ وفغاں میں آریائی لا شعور کا زور اور آہنگ ہے ، اس شعور کی
دھمک ہے ۔ ایک گہرے اجتماعی المیہ شعور کا در د اور کرب ہے ۔یہی وجہ ہے کہ غالب
کے آہ وفغاں کی تاثیر سے قاری کا لا شعور بھی کسمسانے لگتا ہے ۔مضطرب ہو جاتا ہے
اور کیف ونشاط میں ڈوب جاتا ہے ‘‘ 10 ؂
کلامِ غالب کا قاری ؍ سامع جس نو ع کے جمالیاتی کیف اور آریائی لاشعور کے خمیر سے خلق ہو نے والے نشاط انگیز غم وآلام سے آگا ہ ہو تا ہے ، شکیل الرحمان کے مقدمے کے مذکورہ اقتباس میں ان کیفیات کی ترجمانی معروضیت کے ساتھ کی گئی ہے ۔
عبدا لرحمان بجنوری کے ادعائیت پسندانہ بیانات کے مقابلے میں پیش کئے افکار کا مطلب یہ قطعاً نہیں کہ میں بھی غالب شکن ،یاس یگانہ چنگیزی اور سید عبداللطیف وغیرہ کی راہ پر چلنا چاہتا ہوں بلکہ میرا مدّعایہ واضح کر نا ہے کہ بجنوری کے بعد بھی غالب شناسی کی راہیں روشن رہی ہے اور اپنے تمام تر غلو اور مفروضات کے باوجودعبدالرحمان بجنوری کا مقدمہ غالب شناسی کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے ۔ مثلاً ا نھوں نے جس طرح سے فنونِ لطیفہ ،مشرق ومغرب کے فکر وفلسفہ، طبی اور سائنسی علوم وفنون وغیرہ کے پیشِ نظرکلامِ غالب کے مطالعے پر زوردیا تھا ، اُ س کے اثرات آج بھی غالب شناسی پر نمایاں ہیں ۔ اور بجنوری نے کلامِ غالب کی فنی خصوصیات بھی متعین کر نے میں دقتِ نظر سے کام لیا ہے ۔مثلاً انھوں ے غالب کی شاعری میں’’سہل ممتنع‘‘ کی کثرت کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے :
’’مرزا غالب کے کلام کی عجیب سادگی اورہو شیاری اور عجیب بے خودی اور پُر کاری
انتہائے کمال ہے ۔‘‘11؂
اپنے اس دعوے کی تصدیق میں بجنوری نے درجنوں مثالیں بھی پیش کی ہیں ۔اس کے بر خلاف بعض غالب شناسوں نے غالب کے ابتدائی کلام میں دقت اورغرابت کی نشان دِہی اِس طرح کی ہے جیسے ابتدائی دورمیں غالب کے یہاں آسان اور سریع الفہم اشعار بالکل ناپید تھے ۔ مثال کے طورپر امتیاز علی خاں عرشی اپنے مُرتّبہ ’’دیوانِ غالب ‘‘کے مقدمے میں لکھتے ہیں :
’’ لیکن اس دیوان (نسخۂ حمیدیہ، 1821ء عمر24سال )کے اشعار کا بڑا حصہ پیچیدہ
خیالی مضامین اور مغلق تشبیہ واستعارہ پر مشتمل تھا ۔ جاہل اسے سن کر ملول ہوتے اور
اکثر اشعار مہمل اور بے معنی کہہ دیاکرتے تھے ۔سخنورانِ کامل کی طرف سے بھی
آسان کہنے کی فرمائش ہو تی تھی ۔ مرزا صاحب کو ستائش کی تمنا اور صلے کی پروانہ تھی
اِس لئے وہ عرصے تک ان اعتراضوں سے بے پروارہے ۔لیکن جوں جوں فارسی
کے اعلی شاعروں کا کلام نظر سے گذرتا گیا اور ان کی ادبی استعداد میں جلا ہو تی گئی ۔
انہیں بھی اپنے کلام کے لفظی و معنوی عیوب نظر آنے لگے اور وہ کلامِ ریختہ کی تہذیب
وتنقیح کی طرف متوجہ ہوگئے ۔‘‘ ؂12
اور کچھ اسی قسم کے خیالات کا اظہار کا لی داس گپتا رضا نے اپنے مرتبہ ’’دیوانِ غالب‘‘(کامل)کے مقدمے میں اس طرح کیا ہے :
’’1826ء کا وہ زمانہ ہے جب غالب طرزبیدل سے آزاد ہوئے ہیں اور یہی وہ
زمانہ ہے جب انہوں نے فارسی میں با قاعدگی سے کہنا شروع کیا مگر چونکہ اُس
وقت وہ بیدل (اورا سیرو شوکت) کی طلسماتی گرفت سے نکل چکے تھے اِ س لئے فارسی
کلام پر ان چیستانی طرز کا اثر نمایاں نہیں ہے ۔ اس عہد کے بعد کا اردو کلام بھی بیشتر
اِس طرزِ سخن سے پاک ہے۔‘‘ ؂13
معروف محقق مالک رام نے ’’گلِ رعنا‘‘ کے مقدمے میں ابتدائی کلامِ غالب کے کلیتاًمشکل اور ادق ہونے کے تصور کومحض ایک مفروضہ قرار دیتے ہو ئے لکھا ہے کہ :
’’بعض نقا دحضرات اس پر مُصر ہیں کہ آغاز میں انہوں نے بید ل کی تقلید میں نہ
صرف خیالات مشکل اور خیالی لکھے بلکہ زبان بھی مشکل اختیار کی اور انہیں اپنی اِس
غلط روش کا احساس نہیں تھا ، شاید وہ آسان زبان لکھنے پر قادر نہیں تھے ۔رفتہ
رفتہ آخری دور میں انہوں نے میرؔ کے زیرِ اثر آسان گوئی اختیار کی ۔نہ صرف یہ کہ
نظریہ غلط ہے بلکہ حقیقت اِس کے بر عکس ہے اس وقت ہمارے سا منے غالب کے
چار ایسے مجموعے ہیں جو 1828ء تک مر تب ہو چکے تھے۔جب اُن کی عمر بمشکل 30
سال تھی ۔غ (1816ء)ح(1821ء )،س(قبل 1826ء )ان چاروں کے غائر
مطالعے سے یہ معلوم ہو تاہے کہ غالب کی وہ سب آسان غزلیں جن کی بنیاد پر انہیں
میر کے زیرِ اثر کہا جاتا ہے اِن میں موجو د ہیں ۔‘‘14؂
اُ س کے بعد مالک رام نے اپنے مو قف کی تائید میں 39آسان غزلیں درج کی ہیں ۔
شعر غالب کی مذکورہ نوعیتوں سے سوال پیدا ہو تا ہے کہ کلامِ غالب کی تر سیل بآسانی ہو جاتی ہے یا اُس میں دقت پیش آتی ہے ؟ اگر دقت ہے تو پھراِ س کے کیا اسباب ہیں ؟ اور غالب فہمی کے کیا ، کیا امکان ابعاد ہو سکتے ہیں ؟ اوریہیں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا غالب کی شاعری مذکورہ بحثوں کی متحمل ہو سکتی ہے ؟ شاعر ونقاد علی سر دار جعفری کا ’’مقدمۂ دیوانِ غالب‘‘اِس سوال کا نہ صرف مثبت جواب دیتا ہے بلکہ غالب شناسی کی نئی جہتیں بھی روشن کر تا ہے۔ (مذکورہ مقدمہ سردار جعفری نے ہندوستانی بک ٹرسٹ کی جانب سے اردو اور ہندی میں ایک ساتھ شائع کردہ دیوانِ غالب پر تحریرکیا تھا ۔)اِس مقدمے میں انھوں نے غالب کی عصری حسیّت اور سماجی ار تقاکے تصور پر خاص طو ر سے زور دیا ۔ حالانکہ کلامِ غالب میں کو ئی مقصدی عنصر تلاش کر نے کی جسارت ’’ افادی ادب‘‘ کے رجحان ساز مو لانا حالی بھی نہ کر سکے ۔ اس طور پر شعرِغالب کی معاشرتی و تہذیبی معنویت کا مو ضوع چھیڑ کر سردار جعفری نے غالب شناسی میں اہم جہت کا اضافہ کیا ہے ۔ البتہ حد سے زیادہ اِصرار جعفری کے ترقی پسندنقطۂ نظر کی غمازی کر تا ہے اور وہ غالب کو ترقی پسند شاعر ثابت کر نے پر مُصر معلوم ہو ے ہیں۔دو اقتباسات سردارجعفری کے مقدمے سے ملا حظہ ہوں:
’’1857ء سے بہت پہلے غالب نے یہ اندازہ کر لیا تھا کہ مغل تہذیب اورسماج
کاچراغ اب ہمیشہ کے لئے گل ہو نے والا ہے ۔ حالا نکہ اُس کی قدیم قدریں
غالب کو ،بہت عزیز تھیں لیکن اُس کو بھی یہ علم تھا کہ اب عمارت بے بنیاد ہو چکی ہے
اور جڑیں کھوکھلی ہیں ،ہو اکا جھونکا بھی اُسے گرا سکتا ہے لیکن اسی کے ساتھ غالب
نے اُس دنیا کی جھلک بھی دیکھ لی تھی جو سائنس اور صنعت کی ترقی کے ساتھ آرہی
تھی ۔وہ انگریزی سرمایہ د اری کی استحصالی قوت کا اندازہ نہ کر سکا ۔(اور اگر کیا ہو تو
اِس کا ثبوت نہیں ملتا )لیکن انگریزوں کی لائی سائنس اور صنعت نے اُسے اتنا متاثر
کیاکہ جب غدر سے کئی سال پہلے سر سید احمد خاں نے آئینِ اکبری کی تصحیح کی اور
غالب سے اس پر تقریظ لکھنے کی خواہش ظاہرکی توغالب نے استعاروں کے سارے
حجابات چاک کر کے صاف صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ آنکھیں کھول کر صاحبانِ
انگلستان کو دیکھوں کہ وہ اپنی ہنر مندی میں اگلوں سے بڑھ گئے جب موتیوں کا خزانہ
سامنے ہو تو پر انے کھلیانوں سے خوشہ چینی کی کیاضرورت ہے۔ یہ کہنے کے بعد غالب
نے جو نتیجہ نکالا ہے وہ اہم ہے ۔ آئینِ اکبری کے اچھے ہو نے میں کیا شبہ ہے لیکن
مبدءِ فیاض کو بخیل نہیں سمجھنا چاہیے۔چونکہ خوبی کاکو ئی انت نہیں ہے ۔خوب سے
خوب تر کا سلسلہ جاری رہتا ہے ۔اِس لئے مردہ پر ستی مبارک نہیں ۔اِس کے بعد کو ئی
شبہ باقی نہیں رہ جاتاکہ غالب کے پاس سماجی ارتقاکا ایک معقول تصور تھا۔‘‘ 15؂
علی سردار جعفری نے اپنے خیالات کی تائید میں غالب کے متعدد اشعار بھی نقل کئے ہیں ۔ اُن میں سے صرف دواشعار ملا حظہ ہوں : ؂
نفس نہ انجمنِ آرزوسے باہر کھینچ اگر شراب نہیں ، انتظارِ ساغر کھینچ
……………
ہوں گر مئی نشاطِ تصور سے نغمہ سنج میںِعندلیبِ گلشنِ نا آفرید ہوں
ان اشعا ر کے حوالے سے جعفری اپنے مقدمے میں لکھتے ہیں :
’’جب وہ کہتا ہے کہ انجمنِ آرز و سے باہر سانس لینابھی حرام ہے تو یہ محض چند سکوں ،
چند پیالوں اور چند بو سوں کی آر زونہیں بلکہ نا آفرید ہ گلشن کی تمنا ہے ،جس کے نشاطِ
تصورنے نغمہ سنجی پر مجبور کر دیا ہے اس کے نا آفرید ہ گلشن کو صرف ذاتی خواہشات کا
گلشن سمجھ لینا غالب کی تو ہین ہے ۔ اِس میں سماجی امکا نات کا تصور اِس لئے شامل
ہے کہ غالب کے پاس سماجی ارتقاکا ایک معقول تصور تھا ۔ اورحسرتِ تعمیر اُس کے
سینے کاسب سے بڑادرد ۔‘‘ 12 ؂
سردار جعفری نے ان اقتباسات میں غالب کی شاعرانہ بصیرت ،اپنے عہد سے بہت آگے دیکھنے کی صلاحیت اور تہذیب و معاشرت کے گہرے شعور کی طرف اشارے کر کے غالب کو نئے زاویے سے سمجھنے کی ضرورت کا احساس دلایا ہے ۔
اِن معروضات سے ،غالب شناسی میں مقدّمات کی معنویت واہمیت ایک حد تک واضح ہو جاتی ہے ۔ اکثر مقدمے ، غالب اور کلامِ غالب سے متعلق بیشترنظری اور اطلاقی مباحث کا پیش خیمہ ثابت ہو ئے ہیں ۔اور بلا شبہ غالبیات کا سا گر مقدموں کے گاگر میں بند نظر آتا ہے ۔کو ئی چاہے اور کر سکے تو اِن مقدمات کے وسیلے سے ’’شعریاتِ غالب‘‘ نامی ایک کتاب مرتب کر سکتا ہے ۔
ع کون ہو تا ہے حریفِ مئے مرد افگنِ عشق
حواشی
(1) مقدمہ شعرو شاعری از خواجہ الطاف حسین حالی اترپر دیش اردو اکادمی لکھنو۔2003ء ص98۔ 97
(2) مقدمہ شعروشاعری از خواجہ الطاف حسین حالی ۔ اتر پر دیش اردو اکادمی لکھنو۔ 2003 ء ص۔140
(3) دیوانِ غالب المعروف بہ نسخہ حمیدیہ مرتّبہ مفتی انوارالحق اترپر دیش اردو اکادمی لکھنو۔1982ء ص33
(4) ایضاً ایضاً ایضاً ایضاً ص49
(5) ایضاً ایضاً ایضاً ایضاً ص 42
(6) ایضاً ایضاً ایضاً ایضاً ص83
(7) ایضاً ایضاً ایضاً ایضاً ص83
(8) تلمیحاتِ غالب از محمود نیازی ، غالب اکیڈمی ، نئی دہلی، جون 1972ء ص 7
(9) دیوانِ غالب (مرتب حامد علی خاں)مقدمہ نورالحسن نقوی، مکتبہ الفاظ، علی گڑ ھ ،1990ء ص21۔20
(10) غالب کی جمالیات از شکیل الر حمان ۔عصمت پبلی کیشنر، سری نگر (کشمیر)دسمبر 1919ء ص30۔29
(11) دیوانِ غالب المعروف بہ نسخۂ حمیدیہ مرتّبہ مفتی انوارالحق اتر پر دیش اردو اکادمی، لکھنو۔1982ء ۔ص73
(12) دیوانِ غالب اردو ، نسخہ عرشی ، ترتیب وتصحیح امتیازعلی عرشی ا نجمن ترقی اردو ، علی گڑھ ،1958ء ص20۔19
(13) دیوانِ غالب (کامل)مرتّبہ کا لی داس گپتا رضا، ساکار پبلشرز پرائیویٹ لمیٹیڈ ، بمبئی، 1988ء ص18
(14) گلِ رعنامرتّبہ مالک رام ۔ علمی مجلس د ہلی، 1970ء ص38۔37
(15) مقدمہ دیوانِ غالب از علی سر دار جعفری (ناشر ہندوستانی بک ٹرسٹ)بعنوان ’’تمنا کا دوسرا قدم‘‘ مشمولہ پیغمبرانِ
سخن از علی سر دار جعفری مکتبہ گفتگو ، بمبئی ۔1 فروری 1970ء ص87۔186
(16) ایضاً ایضاً ایضاً ایضاً ص 185

تبصرے بند ہیں۔