قرآن کا پیغام والدین کے نام – فطرت کی رعایت (8)

اِعْلَمُوْٓا اَنَّمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَّ لَھْوٌ وَّ زِیْنَۃٌ وَّ تَفَاخُرٌ بَیْنَکُمْ وَ تَکَاثُرٌ فِیْ الْاَمْوَالِ وَالْاَوْلَادِ کَمَثَلِ غَیْثٍ اَعْجَبَ الْکُفَّارَ نَبَاتُہٗ ثُمَّ یَھِیْجُ فَتَرٰہُ مُصْفَرَّا ثُمَّ یَکُوْنُ حُطَامًا وَ فِیْ الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ شَدِیْدٌ وَّ مَغْفِرَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ وَ رِضْوَانٌ وَ مَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَٓا اِلّآ مَتَاعُ الْغُرُوْرِ۔ (الحدید:۲۰)
’’خوب جان لو کہ یہ دُنیا کی زندگی اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک کھیل اور دل لگی اورظاہری ٹیپ ٹاپ اور تمہارا آپس میں ایک دوسرے پر فخر جتانا اور مال و اولاد میں ایک دُوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرنا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک بارش ہوگئی تو اس سے پیدا ہونے والی نباتات کو دیکھ کر کاشت کار خوش ہوگئے ۔ پھر وہی کھیتی پک جاتی ہے اور تم دیکھتے ہو کہ وہ زرد ہوگئی۔ پھر وہ بھُس بن کر رہ جاتی ہے۔اس کے برعکس آخرت وہ جگہ ہے جہاں سخت عذاب ہے اور اللہ کی مغفرت اور اس کی خوشنودی ہے۔ دنیا کی زندگی ایک دھوکے کی ٹٹی کے سوا کچھ نہیں‘‘۔
اس آیت میں دنیا کی چمک دمک اور بے ثباتی کو واضح کیا گیا ہے۔ دنیا کے مقابلے میں آخرت کو ترجیح دینے کی ترغیب دی گئی ہے۔ دنیا کو دھوکہ کا سامان قرار دیا گیا ہے۔
اس آیت میں دنیوی زندگی کے مختلف مراحل اور ہر مرحلے کی پرکشش خصوصیات بھی بیان کی گئی ہیں۔
(۱) بچپن کھیل کود اور لہو ولعب کا زمانہ ہوتا ہے(۲) جوانی زیب وزینت ،آرائش و زیبائش ،نمود ونمائش اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے اور فخر جتانے کا زمانہ ہوتا ہے۔(۳) بڑھاپا مال اور اولاد میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے اور ان کو استحکام بخشنے کی فکر مندی کا زمانہ ہوتا ہے۔
زندگی کے یہ تینوں مراحل اور ان کی یہ پرکشش خصوصیات فطری ہیں۔ زندگی کی دوڑ بھاگ میں ان کی رعایت ضروری ہے۔ اگر ان میں خلل پڑے تو انسانی زندگی متوازن نہیں رہ سکتی بلکہ اس میں بگاڑ پیدا ہوجائے گا۔ کیونکہ یہ فطرت سے بغاوت کے مترادف ہے۔ مثال کے طور پر بچے کو بچپن میں کھیل کو د کا موقع ملنا چاہئے۔ کیونکہ کھیل کود سے جسمانی نشو ونما درست ہوتی ہے۔ صحت بنتی ہے۔ خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے۔ باہمی تعاون کا سلیقہ آتا ہے، دکھ سکھ اٹھانے کا ملکہ پیدا ہوتا ہے۔ اب اگر بچوں کو کھیلنے کودنے کا موقع نہ دیا جائے تو یہ خصوصیات کیسے پیدا ہوں گی؟ چنانچہ آج شہری زندگی میں ایسا ہی ہورہا ہے ۔ بچوں کا بچپن چھین لیا گیا ہے۔انہیں کھیلنے کودنے کا کماحقہ موقع نہیں ملتا ۔ کچھ والدین کی بے پناہ مصروفیات کی وجہ سے ، کچھ کھیل کود کے معقول وسائل ہر جگہ مہیا نہ ہونے کی وجہ سے ، اور کچھ والدین کی اس سوچ کی وجہ سے کہ بچے کھیل کود میں کپڑے گندے کرلیں گے تو کام بڑھ جائے گا ۔ یا کھیل کود میں ہاتھ پیر توڑ لیں گے تو زحمت اٹھانی پڑے گی ۔یہ اندیشے اپنی جگہ درست ہوسکتے ہیں لیکن اس سوچ اور رویّے کی وجہ سے جو نقصان ہورہا ہے کیا اس پر بھی نظر ہے۔ ان اندیشوں کے مقابلے میں جو نقصانات ہورہے ہیں وہ زیادہ سنگین ہیں۔ ماہرین کی جو تحقیقی رپورٹیں ہیں ان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جن بچوں کو بچپن میں فطری انداز پر کھیل کود کے مواقع نہیں ملتے ان کے اندر درج ذیل نقائص پیدا ہوجاتے ہیں:
(1) جسمانی صحت کمزور ہوتی ہے چنانچہ ان کے اندر بزدلی پیدا ہوجاتی ہے۔
(2) تخلیقی صلاحیت متاثر ہوتی ہے کیونکہ صحت مند جسم میں ہی صحت مند دماغ پروان چڑھتا ہے۔
(3) خوف کی نفسیات پیدا ہوتی ہے جس کی وجہ سے بچے احساس کمتری میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔
(4) تنہائی پسند ی آتی ہے ، سماجی زندگی گذارنے کا سلیقہ سیکھنے سے وہ محروم رہ جاتا ہے۔ چنانچہ خود غرضی جیسے امراض پیدا ہونے لگتے ہیں۔
اگر والدین یہ چاہتے ہیں کہ ان کے بچوں میں یہ نقائص پیدا نہ ہوں تو انہیں بچوں کو کھیل کود کے بھر پور مواقع فراہم کرنا چاہئے ۔ ہمارے رسول ؐ نہ صرف ان کے کھیل کود کی حوصلہ افزائی فرماتے تھے بلکہ خود ان کے مقابلے بھی کراتے تھے۔ حدیث میں آتا ہے کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عبداللہ ، عبیداللہ اور بنی عباس کے اور بچوں کو کھڑا کرکے فرماتے : دوڑ کر جو پہلے میرے پاس پہنچے گا اسے اتنا اتنا انعام ملے گا۔ چنانچہ بچے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دوڑتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ کر کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سینہ مبارک اور کوئی پیٹ مبارک پر گرتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو اٹھاتے اور چومتے اور گلے لگاتے ‘‘۔(احمد)
جہاں تک احتیاط کا تعلق ہے اسے ملحوظ رکھنا چاہئے لیکن بے جا دباؤ نہیں ڈالنا چاہئے اس سلسلے میں درج ذیل دونوں واقعات ہماری رہنمائی کے لئے کافی ہیں:
’’ایک مرتبہ ابو بکر صدیقؓ عصر کی نماز پڑھ کر نکلے تو حسنؓ کو راستے میں بچوں کے ساتھ کھیلتے دیکھا۔ ان کو اپنے کندھوں پر اٹھالیا اور فرمایا: میرا باپ تجھ پر قربان ہو تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ ہو علی کے مشابہ نہیں ہو۔ علیؓ نے یہ کلمات سنے تو ہنس پڑے۔ اس وقت حسنؓ کی عمر سات سال تھی‘‘۔(بخاری)
اسی طرح ’’ایک مرتبہ عمرؓ کا گذر عبداللہ بن زبیرؓ کے پاس سے ہوا۔ وہ بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے۔ عمرؓ کو دیکھ کر دوسرے بچے بھاگ گئے لیکن عبداللہ بن زبیرؓ اپنی جگہ کھڑے رہے۔ عمرؓ قریب آئے تو عبداللہ بن زبیرؓ سے پوچھا کہ تم اپنے ساتھیوں کے ساتھ بھاگے کیوں نہیں؟ عبداللہ ابن زبیرؓ نے جواب دیا: ’’نہ میں نے کوئی جرم کیا ہے کہ میں ڈر جاؤں؟ اور نہ ہی راستہ تنگ ہے کہ آپ کے لئے جگہ چھوڑ دوں ‘‘۔
اس تفصیلی بحث سے صاف واضح ہے کہ فطرت کے تقاضوں کو نظر انداز کرنے یا اس میں خلل ڈالنے سے کیسے برے نتائج سامنے آتے ہیں اور اسلام کیسے فطرت کے تقاضوں کو پورا کرنے کی ترغیب دیتا ہے اور اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔
اس بحث کے تناظر میں والدین او راہل علم و دانش کے غور وفکر کیلئے ایک اہم سوال مزیدابھرتا ہے ۔ اس کی طرف توجہ مبذول کرانا بھی بہت ضروری ہے۔ مروجہ تعلیمی نظام میں ڈھائی سال کی ہی عمر میں بچوں کو اسکول بھیجنے ، ان پر اسکول کی کتابوں کا بوجھ لادنے ، فرصت کے اوقات میں ٹیوشن کرانے کی جو وبا پھیل گئی ہے۔کیا یہ فطری ہے؟ کیا یہ سود مند ہے؟
کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ بھی بچوں کا بچپن اوراس کی آزادیاں سلب کررہا ہے او ران کی فطری نشوونما میں خلل انداز ہورہا ہے ؟ بچپن جس کا ایک خاص حصہ کھیل کود میں گزرنا چاہئے وہ تو یقیناًبچوں سے چھینا جارہا ہے؟ اور اس کے جو اثرات بد ہیں ان کا بچہ لازمی طور پر شکار ہورہا ہے ۔ایسی مثالیں موجود ہیں کہ بچہ بوجھ سے اکتا کر تعلیم سے متنفر ہونے لگتا ہے ۔ ایسے میں جو والدین اپنا قیمتی پیسہ اور وقت و محنت لگا رہے ہیں انہیں بھی سوچنے کی ضرور ت ہے ؟ او رجو یہ نظام چلا رہے ہیں انہیں بھی سوچنے کی ضرورت ہے کہ کہیں فائدے سے زیادہ نقصان تو نہیں ہورہا ہے؟ بچپن کے تقاضوں اور تعلیمی ضروریات و نفسیات میں تواز ن قائم کرنا بہر حال ضروری ہے۔ مروّجہ نظام میں اس کا فقدان ہے۔ اس کی اصلاح کی اشد ضرورت ہے ورنہ مستقبل مزید برے اثرات سامنے لائے گا۔

تبصرے بند ہیں۔