یہودیت میں تصوّراتِ امن – (قسط 2)

مظلوم کی داد رسی 
اس بارے میں دو رائے نہیں کہ امن و مان کی صورت حال اس وقت تک قائم نہیں ہو سکتی جب تک مظلوموں کی داد رسی کے لیے مؤثر اقدامات نہ کیے جائیں۔ عہدنامۂ قدیم میں مظلوموں سے تعاون اور ان کی دست گیری کے بارے میں بہت سے احکام ہیں۔ ایک حکم یہ ہے:
’’مظلوم کو اس پر ظلم کرنے والے کے ہاتھ سے چھڑاؤ۔ ‘‘ (یرمیاہ، 22:3)
یتیم اور بیوہ سے حسن سلوک
یتیم اور بیوہ کا شمار معاشرے کے سب سے کم زور طبقات میں ہوتاہے۔ ان کا دنیا میں کوئی سہارا نہیں ہوتا۔ اگر ان لوگوں کی قابل لحاظ حد تک دست گیری نہ کی جائے تو یہ بے سہارا لوگ اپنی زندگی صحیح ڈھنگ سے گزارنے کے قابل نہیں رہتے اور معاشرے کا امن و امان تہہ و بالا ہو کر رہ جاتا ہے۔ لہٰذا امن وامان کے قیام کے لیے یتیموں اور بیواؤں کا پورا پورا خیال رکھنا اور ان سے حسن سلوک سے پیش آنا ضروری ہے۔عہد نامۂ قدیم میں اس بارے میں یہ حکم موجود ہے:
’’بیگانہ ، یتیم اور بیوہ کے ساتھ براسلوک نہ کرو، نہ تشدد سے پیش آؤ۔‘‘
(یرمیاہ، 22:3)
قتلِ ناحق کی ممانعت
کسی معاشرے کی تباہی کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ اس میں بے گناہوں کا خون ہونے لگے۔ جب بھی کسی معاشرے میں ایسی صورت حال پروان چڑھی ہے تو گویا اس کی تباہی و بربادی کا آغاز ہوجاتا ہے۔ جب کسی بے گناہ کا خون ہوتا ہے تو اس کیورثاء اپنے مقتول کا بدلہ لینے کے لیے مشتعل ہو جاتے ہیں، جس کی وجہ سے بسا اوقات نسل در نسل دشمنی کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور پورا معاشرہ اس کی لپیٹ میں آ جاتا ہے۔ امن و امان کا قیام اس صورت حال پر قابو پائے بغیر ناممکن ہے۔ اس سلسلے میں عہدنامۂ قدیم میں کیاگیا ہے:
’’بے گناہ کا خون نہ بہاؤ۔‘‘ (یرمیاہ، 22:3)
رشوت ستانی کی مذمّت
رشوت ستانی ایسا ناسور ہے جو معاشرے کے پورے جسم کو بیمار کر دیتا ہے۔ کسی کے حق کو غصب کرنے کے لیے ناجائز ذرائع کا استعمال پورے معاشرے کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیتا ہے۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ حق والا اپنے حق کو غصب ہوتے دیکھ نہیں سکتا، چنانچہ وہ اس کو بچانے کے لیے اپنی جان ، مال اور عزت و آبرو سب کچھ داؤ پر لگا دیتا ہے۔ کبھی نوبت قتل و غارت تک جا پہنچی ہے۔ یوں معاشرے کا امن و امان تہ و بالا ہو جاتا ہے۔ اسی لیے رشوت ستانی کی ہر مذہب میں مذمت کی گئی ہے۔ عہد نامۂ قدیم میں ہے:
’’تو رشوت نہ لینا، کیونکہ رشوت بیناؤں کو اندھا کر دیتی ہے اور صادقوں کی باتوں کو بدل ڈالتی ہے۔‘‘(استثناء، 16:19)
عدل کی جزا اور ظلم و ناانصافی کی سزا
قدرت کا فیصلہ ہے کہ عدل و انصاف ہمیشہ معاشرے کو کام یابی و کام رانی، خوش حالی اور امن وامان کی طرف لے جاتا ہے اور ظلم و نا انصافی کی منزل ہمیشہ ناکامی و نامرادی ، زبوں حالی اور بدامنی ہوتی ہے۔ یہ ایک طبعی اور فطرتی امر ہے جو ہر دور اور ہرمعاشرے کے لیے یکساں نافذ العمل رہتا ہے۔ خالق کائنات نے ہر دور میں اپنے رسولوں کے ذریعے دنیا میں امن و امان کے قیام کی راہ ہموار کی اور ان کی زبانی عدل و انصاف کی جزا اور ظلم و ناانصافی کی سزا بھی بیان کی۔ عہدنامہ قدیم میں بھی بڑیوضاحت و صراحت سے یہ بات بیان ہوئی ہے:
’’اگر تم ان احکام پر احتیاط سے عمل کرو گے تو داؤد کے تخت پر بیٹھنے والے بادشاہ اپنے حاکموں اور لوگوں کے ساتھ ، رتھوں اور گھوڑوں پر سوار ہو کر اس محل کے پھاٹکوں سے داخل ہوں گے۔ لیکن اگر تم ان احکام کو نہ مانو گے تو خداوند فرماتا ہے کہ میری جان کی قسم، یہ محل ویران ہو جائے گا۔‘‘ (یرمیاہ، 22:4۔5)
جرائم و عقوبات
کسی معاشرے میں امن و امان کے قیام کے لیے لوگوں کو جرائم اور ان کی قباحت سے خبردار کرنا ایک ضروری امر ہے۔ اگر کسی کو جرم کا تعارف اور اس کی قباحت کا علم نہ ہو تو اس کا اس سے بچنا ممکن نہیں ہوتا۔ اس لیے عہد نامۂ قدیم میں حکم دیا گیا ہے کہ عام لوگوں کو جرائم سے خبردار کیا جائے:
’’جب تمہارے ہم وطنوں کی طرف سے، جو شہروں میں رہتے ہیں، کوئی ایسا مقدمہ آئے جو قتل و غارت یا شریعت اور احکام یا آئین یا قوانین سے تعلق رکھتا ہو تو تم انہیں آگاہ کرنا، تاکہ وہ خداوند کے خلاف گناہ نہ کریں۔ ورنہ اس کا غضب تم پر اور تمہارے بھائیوں پر نازل ہو گا۔ تم یہ کرو تو تم سے خطا نہ ہوگی۔‘‘ (تواریخ دوم، 19:10)
نظامِ قضا
مختلف بستیوں میں پیش آمدہ مسائل کے حل اور جھگڑوں کے تصفیے کے لیے ضروری ہے کہ قاضی مقرر ہوں۔ چنانچہ عہد نامہ قدیم میں اس بارے میں یہ حکم دیا گیا ہے:
’’خداوند تمہارے خدا کے تمہیں دیے ہوئے ہر شہر میں اپنے ہر قبیلہ کے لیے قاضی اور حاکم مقرر کرلو، جو سچائی سے لوگوں کا انصاف کریں۔ تم انصاف کا خون نہ کرنا اور غیرجانب دار رہنا۔ ‘‘ (استثناء، 16:18۔19)
عہد نامۂ قدیم میں جہاں امن و امان اور عدل و انصاف کے قیام کے لیے قاضیوں کے تقرر کا حکم ہے، وہیں ان کے احکام کو قابل عمل بنانے کے لیے ان کی حکم عدولی پر سزا بھی مقرر کی گئی ہے:
’’لاوی کاہنوں اور ان دنوں جو قاضی برسر اقتدار ہوں ، ان کے پاس جانا ، ان سے دریافت کرنا اور وہ تمہیں فیصلہ سنائیں گے۔ خداوند کے چنے ہوئے مقام پر وہ جو فیصلہ تمہیں سنائیں ، اسی کے مطابق عمل کرنا۔ وہ جو کچھ کرنے کی تمہیں ہدایت دیں ، بڑی احتیاط کے ساتھ اس پر عمل کرنا۔ شریعت کی جو بھی تعلیم وہ دیں اور جو فیصلے وہ تمہیں سنائیں ، ان ہی کے مطابق عمل کرنا۔ وہ جو کچھ تمہیں بتائیں ، اس سے ہرگز روگردانی نہ کرنا۔ جو شخص قاضی یا اس کاہن کی، جو وہاں خداوند تمہارے خدا کی خدمت کے لیے کھڑا رہتا ہے ، توہین کرتا ہے ، وہ جان سے مار ڈالا جائے۔ تمہیں اسرائیل سے ایسی برائی کو دور کرنا ہی ہوگا اور سب لوگ سن کر ڈر جائیں گے اور پھر توہین نہ کریں گے۔ ‘‘ (استثناء، 17:9۔13)
ایک مقام پر قاضیوں اور حاکموں کے انتخاب کامقصد امن و انصاف کا قیام قرار دیتے ہوے اس کا طریقۂ کار یوں بیان کیا گیا ہے:
’’تو ان لوگوں میں سے لائق آدمی چن لے ، ایسے آدمی جو خدا ترس اور قابل اعتماد ہوں اور رشوت کے دشمن ہوں اور انہیں ہزار ہزار ، سو سَو ، پچاس پچاس اور دس دس افراد پر بطور حاکم مقرر کر دے، تاکہ وہ ہروقت لوگوں کا انصاف کریں۔ ‘‘ (خروج، 18:21۔22)
اگر کوئی ایسا مسئلہ پیش آ جائے جس کا فیصلہ حاکمِ وقت کے لیے موجودہ قانون کی روشنی میں کرنا مشکل ہو تو اس کے بارے میں عہد نامۂ قدیم میں یہ رہ نمائی موجود ہے کہ ایک قانون ساز مجلس کی تقرری کر لی جائے اور باہم مشورہ سے معاملہ طے کر لیا جائے:
’’اگر تیری بستیوں میں کہیں آپس کے خون یا آپس کے دعوے یا آپسکی مار پیٹ کی بابت کوئی جھگڑے کی بات اٹھے اور اس کا فیصلہ کرنا تیرے لیے نہایت ہی مشکل ہو تو اٹھ کر اس جگہ، جسے خداوند تیرا خدا چنے گا اور لاوی ، کاہنوں اور ان دونوں کے قاضیوں کے پاس پہنچ کر ان سے دریافت کرنا اور وہ تجھ کو فیصلہ کی بابت بتائیں گے۔ اور تو اس فیصلہ کے مطابق کرنا جو وہ تجھ کو اس جگہ سے بتائیں اور جو فتویٰ وہ دیں ، اس سے دائیں بائیں نہ مڑنا۔ ‘‘ (استثناء، 17:8۔11)
معاشرے میں ہونے والے جھگڑوں کے تصفیے ، ظالم کو سزا دینے اور مظلوم کی داد رسی کے لیے عدالتوں سے رجوع کرنا ضروری ہے ، ورنہ ملک خانہ جنگی کا شکار ہو کر رہ جائے گا اور اس کا سارا امن تہہ و بالا ہو جائے گا ، دنگا و فساد کو راہ مل جائے گی۔ اس سلسلے میں عہد نامۂ قدیم میں کیا گیاہے:
’’اگر لوگوں میں کسی طرح کا جھگڑا ہو تو وہ عدالت میں آئیں، تاکہ قاضی ان کا انصاف کریں ، صادق کو بے گناہ ٹھہرائیں اور شریر پر فتویٰ دیں۔‘‘ (استثناء، 25:1)
کسی بھی مجرم کے جرم کو ثابت کرنے کے لیے گواہی کی بڑی اہمیت ہے اور درست فیصلہ کرنے اور عدل وانصاف اور امن قائم کرنے کے لیے سچی گواہی بڑی اہمیت رکھتی ہے۔عہد نامۂ قدیم میں اس حوالے سے بھی کافی ہدایات موجود ہیں۔ چنانچہ گواہی کی ضرورت اور گواہوں کی تعداد کے بارے میں کہا گیا ہے:
’’دو یا تین گواہوں کی شہادت کی بنا پر ہی کوئی شخص جان سے مارا جائے۔ ایک گواہ کی شہادت سے کوئی شخص جان سے نہ مارا جائے۔ اسے مار ڈالنے کے لیے سب سے پہلے گواہوں کے اور ان کے بعد دوسرے لوگوں کے ہاتھ اس پر اٹھیں۔ تمہیں اپنے بیچ سے ایسی برائی کو دور کرنا ہی ہو گا۔‘‘ (استثناء، 17:6۔7)
مزید ملاحظہ کیجیے: گنتی، 35:30، استثناء، 19:15
جھوٹی گواہی کی ممانعت اور سزا 
جھوٹی گواہی ایک بہت بڑا معاشرتی ناسور ہے۔ اس سے مظلوم ظالم اور ظالم مظلوم بن جاتا ہے۔ یوں سارے کا سارا انصاف اور امن تہہ و بالا ہو جاتا ہے۔ اسی لیے عہد نامہ قدیم میں جھوٹی گواہی دینے سے روکا گیا ہے اور اس کی سخت سز ا مقرر کی گئی ہے:
’’تو اپنے پڑوسی کے خلاف جھوٹی گواہی نہ دینا۔ ‘‘ (خروج، 20:16، استثناء، 5:20)
جھوٹی گواہی کی سزا کیا ہے ؟ اس بارے میں عہد نامہ قدیم میں ہے:
’’اگر کوئی کینہ پرور گواہ کسی آدمی پر کسی خطا کا الزام لگانے کے لیے کھڑا ہو تو وہ دونوں فریق، جواس مقدمہ میں الجھے ہوئے ہوں، خداوند کے حضور کاہنوں اور ان قاضیوں کے آگے کھڑے ہوں جو ان دنوں برسرِاقتدار ہوں۔ قاضی پوری تحقیقات کر لیں اور اگر گواہ جھوٹا ثابت ہو اور اس نے اپنے بھائی کے خلاف جھوٹی گواہی دی ہو تو اس کے ساتھ وہی سلوک کرنا جیسا وہ اپنے بھائی کے ساتھ کرنا چاہتاتھا۔ تم اپنے بیچ میں سے ایسی برائی کو دور کردینا۔ اور باقی کے لوگ یہ سن کر ڈریں گے اور پھر کبھی ایسی برائی تمہارے درمیان نہ ہوپائے گی۔ ‘‘ (استثناء، 19:15۔20)
قانونِ قصاص
دنیا میں امن قائم کرنے کے لیے قانونِ قصاص لازمی ہے۔ اس کو نافذ کیے بغیر کبھی امن اور عدل و انصاف کا قیام ممکن نہیں۔ گویا انسانی زندگی کی بقا کے لیے قانونِ قصاص کا نفاذ ضروری ہے۔ قانونِ قصاص کو عہد نامۂ قدیم نے یوں بیان کیا ہے:
’’جان کا بدلہ جان ، آنکھ کا بدلہ آنکھ ، دانت کا بدلہ دانت ، ہاتھ کا بدلہ ہاتھ اور پاؤں کا بدلہ پاؤں ہو۔‘‘ (استثناء، 19:20)
عام لوگوں کے لیے قوانینِ امن
امن وامان کے لیے کچھ خاص احکام قاضیوں اور حاکموں سے متعلق ہوتے ہیں تو کچھ احکام عام لوگوں کی روزمرہ زندگی میں امن وامان کی فضا پیدا کرنے کے لیے ہوتے ہیں۔ عمومی طور پر ہوتا یہ ہے کہ خصوصی احکام کو اہمیت دی جاتی ہے اور عمومی احکام کو فراموش کر دیا جاتا ہے۔ حالاں کہ جب تک عوام کے درمیان امن و امان کے اصول لاگو نہیں ہوں گے، اس کا قیام ایک خواب ہی رہے گا۔ اس تعلق سے عہد نامۂ قدیم میں عام لوگوں کے لیے بہت سے قوانین بیان کیے گئے ہیں۔ ذیل میں ان کا تذکرہ کیا جاتاہے:
1۔ اپنے بھائیوں سے خلوص : خلوص کسی بھی پرامن معاشرے کی جان ہوتا ہے۔ جہاں مفاد پرستی اور ہوائے نفس پروان چڑھنے لگے وہاں بدامنی اور انتشار کا پنپنا لازمی امر ہے۔ دنیا کے جتنے بھی معاملات خوش اسلوبی سے طے پاتے ہیں ، ان میں خلوص کارفرما ہوتا ہے اور جتنے بھی معاملات مختلف خرابیوں کا شکار ہوتے ہیں ، ان میں مفاد پرستی کا عنصر شامل ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی ہر کامیاب تحریک کی کامیابی کا سہرا اس کے کارکنان کے خلوص کے سر ہوتا ہے۔ اپنے بھائیوں کے لیے دل کو صاف رکھنا خلوص ہے اور خلوص امن و امان کی جان ہے۔ اسی لیے عہد نامۂ قدیم میں یہ حکم دیا گیا ہے:
’’ تو اپنے دل میں اپنے بھائی سے بغض نہ رکھنا۔ ‘‘(احبار، 19:17)
ایک مقام پر تو عدمِ خلوص کو چوری اور جھوٹ کے ساتھ ملا کر اس کی قباحت و شناعت بیان کی گئی ہے:
’’تم چوری نہ کرنا اور نہ جھوٹ بولنا اور نہ ایک دوسرے کو دھوکا دینا۔ ‘‘(احبار، 19:11)
یعنی جس طرح چوری اور جھوٹ کی موجود گی میں بدامنی اور انتشار پیدا ہوتا ہے ، اسی طرح خلوص کی عدم موجودگی میں بھی بدامنی اور فساد کو راہ ملتی ہے۔
2۔ پڑوسی سے حسن سلوک : حقوق العباد کی ادائیگی کے بغیر نہ کوئیمعاشرہ ترقی کر سکتا ہے نہ کوئی سلطنت قائم رہ سکتی ہے۔ اگر لوگ ایک دوسرے کے حقوق کا خیال نہیں رکھیں گے تو ضروری طور پر دھینگا مشتی ، دنگا فساد اور قتل و غارت کا راج ہوجائے گا۔ اس سلسلے میں پڑوسی کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اپنے والدین ، بہن بھائیوں اور اولاد کے بعد عام لوگوں میں سے سب سے اہم حق پڑوسی ہی کو حاصل ہے ، کیونکہ اگر پڑوسی ایک دوسرے کے حقوق کا لحاظ نہیں کریں گے تو صرف دو گھروں کا امن برباد نہیں ہوگا، بلکہ دو خاندانوں میں فساد پڑے گا جو بڑھتا بڑھتا پورے معاشرے کے امن و امان کو بھسم کر دے گا۔ اسی لیے عہدنامہ قدیم میں ہے :
’’تم اپنے پڑوسی کو مت ٹھگنااور نہ ہی اسے لوٹنا۔ ‘‘ (احبار، 19:13)
’’اور نہ اپنے پڑوسی کی زندگی کو خطرے میں ڈالنا۔‘‘ (احبار، 19:16)
پڑوسی سے حسن سلوک کا انداز کیسا ہو؟ اس کے بارے میں عہدنامۂ قدیم میں ہے:
’’انتقام نہ لینا اورنہ اپنی قوم کے کسی شخص سے کینہ رکھنا، بلکہ اپنے پڑوسی سے اپنی مانند محبت کرنا۔‘‘ (احبار، 19:18)
3۔ مزدور کی مزدوری کی فوری ادائیگی: مزدور کسی بھی معاشرے کے بنیادی افراد ہوتے ہیں۔ ان ہی کی محنت اور مشقت سے باقی افراد کی زندگی پرآسائش بنتی ہے۔ اس لیے مزدوروں کے حقوق کا خیال رکھنا نہایت ضروری ہوتا ہے۔ اگر ان کے حقوق کا استحصال ہونے لگے تو وہ معاشرے کی خدمت درست انداز سے نہیں کرسکتے۔ یوں اس بنیادی طبقے کی پریشانی سے سارے معاشرے میں خرابی پیدا ہو جاتی ہے۔ مزدوروں کے حقوق میں سے ایک اہم حق ان کی مزدوری اور اجرت کو پورا پورا اور وقت پر ادا کرنا ہے۔ عہد نامۂ قدیم میں ہے:
’’اور نہ کسی مزدور کی مزدوری رات بھر روکے رکھنا۔‘‘ (احبار، 19:13)
4۔ معذورں سے حسن سلوک: کسی بھی معاشرے میں جہاں باصلاحیت اور صحت مند افراد ہوتے ہیں ، وہاں معذور افراد بھی لازمی طور پر موجود ہوتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی تقسیم ہے کہ کسی کو صحت و عافیت سے نواز دے اور کسی کو معذوری جیسیآزمائش میں ڈال دے۔ جو لوگ صحت مند ہوتے ہیں ان کا یہ فرض ہے کہ اپنی تندرستی کا شکر معذوروں سے تعاون کی صورت میں ادا کریں۔ اگر تعاون نہ ہو سکے تو کم از کم ان کو مزید دکھ دینے سے گریز کرنا چاہیے۔ عہد نامۂ قدیم میں ہے:
’’تو بہرے کو نہ کوسنا اور نہ اندھے کے آگے کوئی ایسی شَے رکھنا جس سے اسے ٹھیس پہنچے ، بلکہ اپنے خدا سے ڈرنا۔ میں خدا ہوں۔‘‘ (احبار،19:41)
5۔ ناپ تول میں برابری : ہر انسان اپنی زندگی کی بقا کی خاطر دوسرے انسانوں سے لین دین کا محتاج ہے۔ اس کے بغیر کوئی بھی انسان اپنی ضروریاتِ زندگی پوری نہیں کر سکتا۔ فطرتِ سلیمہ، الہامی مذاہب اور امن وامان سب کا تقاضا ہے کہ خرید و فروخت میں دیانت داری سے کام لیا جائے اور لینے اور دینے کے باٹ ایک ہی رکھے جائیں۔ اگر ناپ تول میں کمی کی جائے گی تو دوسروں کا استحصال ہو گا۔ یوں معاشرے کا امن تباہ ہو جاتا ہے۔ عہد نامۂ قدیم میں اس سلسلے میں یہ ہدایات دی گئی ہیں:
’’تم وزن ، مقدار اور ناپ تول کے لیے ناقص پیمانوں کو استعمال میں نہ لانا۔ اور ٹھیک ترازو ، ٹھیک باٹ ، پورا اَیفہ اور پورا بِین استعمال کرنا۔‘‘
(احبار، 19:35)
6۔ پردیسیوں سے اچھا برتاؤ : اپنا وطن بہت بڑی دولت ہے۔ اجنبی پن ایک مصیبت ہوتا ہے، جس کا احساس صرف وہی شخص کر سکتا ہے جو کہیں اجنبی زندگی گزار رہا ہو۔ پردیسی کو ایک تو اپنے دیس اور اپنے رشتہ داروں کی یادیں ستا رہی ہوتی ہیں دوسرے اگر دیس والے بھی اس کے ساتھ بدسلوکی روا رکھنے لگیں تو اس بے چارے کی زندگی اجیرن ہو جاے گی۔ اس سلسلے میں عہدنامۂ قدیم میں کہا گیاہے:
’’کوئی پردیسی تمہارے ساتھ تمہارے ملک میں رہتا ہو تو اس کے ساتھ بدسلوکی نہ کرنا۔ جو پردیسی تمہارے ساتھ رہتا ہو اس سے دیسی جیسا برتاؤ کرنا، بلکہ تم اس سے اپنے ہی مانند محبت کرنا، کیونکہ تم بھی مصر میں پردیسی تھے۔ میں خداوند تمہارا خدا ہوں۔ ‘‘ (احبار، 19:33)
تالمود میں تعلیماتِ امن
یہودیوں کا اہم فقہی ماخذ تالمود بھی امن کا داعی ہے۔یہودی ربیوں کے اقوال اور روایات سے اخوت و محبت، فیاضی و کشادہ دلی کا اظہار ہوتا ہے۔ وہ یہودی قوانین، جن میں امن کوسب سے اہم قرار دیا گیا ہے ان کا خلاصہ درج ذیل ہے:
۔ پیارو محبت میں تھوڑی سی جگہ بھی کافی ہوتی ہے، جب کہ نفرت میں کشادہ مکان بھی تنگ لگے گا۔
۔ دوسروں کے لیے اپنی مرضی کی قربانی دے، تا کہ وہ تیرے لئے اپنی مرضی کی قربانی کو انجام دے سکیں۔
۔ جو انسان کو پیار کرتا ہے وہ خدا کو پیار کرتا ہے۔
تلمود میں ایک مقام پر یہ الفاظ موجود ہیں:
ربی یو سی نے کہا کہ:’’ بائبل مقدس ہمیں امن قائم رکھنے کے لیے دی گئی ہے۔5؂
یہودیت کا مقصد بنی نوع انسان کو علیٰحدہ کرنا نہیں، بلکہ متحد کرنا ہے اور یہ ربی مئیر کی زندگی کا ایک عظیم اصول تھا۔6؂
ربّی مئیر نے کہا:
’’ہر آدمی انکساری اور حلیمی میں چلے، نہ صرف اپنے ہم مذہب کے ساتھ، بلکہ ہر انسان کے ساتھ۔ ‘‘ 7؂
کاہن اعظم ربّی اسماعیل نے کہا:
’’جب ایک آدمی سچائی اور انصاف کی راہ پر چلتا ہے تو خدا اسے آگے بڑھنے میں مدد دیتا ہے، لیکن اگر وہ گناہ کی راہ کو چنتا ہے تو خدا کہتا ہے کہ میں نے تجھے عقل اور مرضی دی اور تو اپنی راہ پر چل رہا ہے۔‘‘8؂
لمحۂ فکریہ
تعلیماتِ موسوی اپنے نزولی دور میں الہامی تعلیمات تھیں اور الٰہی احکام کی تعمیل میں امن کا قیام ان کا مقصود تھا۔باوجود تحریف و تغیر کے عہدنامۂ قدیم میں اس امن کی کچھ تعلیمات ابھی تک باقی ہیں، لیکن کیا یہود ان پر عمل پیرا ہیں؟یہود کی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ وہ تورات کے احکام سے ہمیشہ پہلو تہی کرتے رہے اور موقع پرستی اور دنیوی اقتدار کے لیے ان تعلیمات کو پس پشت ڈالتے رہے۔کون نہیں جانتا کہ قیامِ اسرائیل عدل و انصاف کی دھجیاں بکھیرنے کا عمل ہے اور آج بھی اہل فلسطین کی فغانِ نیم شبی اقوامِ عالم کو تڑپائے ہوئے ہے۔ نظری اعتبار سے آج بھی یہود کا دعویٰ امن کا ہی ہے، یہاں تک کہ وہ ڈھٹائی سے اسرائیل کے قیام کو بھی امن سے تعبیر کرتے ہیں، لیکن حقائق اس کے برعکس ہیں۔
حواشی و مراجع
1؂ Violence, Terrorism and Teachings of Islam,Dr M Imtiaz Zafar, P:38.
2؂ قاموس الکتاب ،ص528
3؂ ایضاً
4؂ یہی مضمون میکاہ، 4:1۔5 میں بھی بیان ہوا ہے۔
5؂ تالمود ، انگریزی (مترجم ایچ پولانو228 اردو مترجم سٹیفن بشیر)، مکتبہ عناویم پاکستان ، گوجرانوالہ ، 2006ء، ص، 212
6؂ تالمود ، انگریزی (مترجم ایچ پولانو228 اردو مترجم سٹیفن بشیر)، ص 141
7؂ ایضاً ، ص141
8؂ ایضاً ، 140

تبصرے بند ہیں۔