مودی کی سیاسی چال: اپنوں کو باخبر غیروں کو بے خبر کی پالیسی

عبدالعزیز

مسٹر نریندر مودی ’الف‘ سے لے کر ’ی‘ تک آر ایس ایس کے زعفرانی رنگ سے رنگے ہوئے ہیں۔ آر ایس ایس ہندستان میں ہٹلر کی نمائندہ جماعت ہے۔ ہٹلر نے دنیا پر حکمرانی کیلئے وہ سارے کام کئے جو غیروں کیلئے ضرر رساں اور تکلیف دہ ہے۔ اپنا سکہ جمانے کیلئے اس نے وہ سارا کام انجام دیا جس سے اپنوں کا بھلا ہو۔
مودی نے پرانے پانچ سو اور ہزار روپئے کے نوٹوں کے رد کرنے کے بارے میں اعلان کیا ہے کہ اس سے چور بازاری یعنی بلیک روپئے کو ختم کیا جاسکے، دہشت گردوں کے پاس جو نقلی اصلی روپئے جمع ہیں ان کابھی وارا نیارا ہوجائے گا جبکہ حقیقت سامنے آگئی ہے کہ وہ آر ایس ایس اور بی جے پی کو مالی حیثیت سے مضبوط سے مضبوط تر کرنا چاہتے ہیں اور دیگر سیاسی جماعتوں کی مالی حیثیت کمزور سے کمزور تر بنانا چاہتے ہیں۔
سی پی ایم کے روزنامہ ’’گن شکتی‘‘ اپنے اخبار کے ذریعہ زعفرانی پارٹی کا پردہ فاش کر رہا ہے۔ سی پی ایم کے مغربی بنگال کے ترجمان گن شکتی نے خبر شائع کی ہے کہ 500 اور 1000 روپئے کے نوٹوں کو ایک کروڑ 40 لاکھ اور 60 لاکھ دو قسطوں میں بی جے پی کے اکاؤنٹ میں 8 نومبر کو جمع کیا گیا ہے۔ اکاؤنٹ نمبر 554510034 میں بی جے پی کے بینک اکاؤنٹ انڈین بینک (Indian Bank) سی آر ایونیو برانچ میں جمع کیا گیا ہے۔ یہ کام نریندر مودی کے اعلان کے چند گھنٹوں پہلے انجام دیا گیا ہے۔
سی پی ایم مغربی بنگال کے سکریٹری سوریہ کانت مشرا نے پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ ان کے پاس بین ثبوت موجود ہے جو دیکھنا چاہتا ہے، دیکھ سکتا ہے۔ یکم نومبر سے 8نومبر تک بی جے پی نے 3 کروڑ روپئے جمع کئے ہیں۔ بی جے پی کی بنگال کی ریاستی یونٹ ہندستان کی دوسری جگہوں کی بہ نسبت سب سے کمزور ہے۔ آخر چھ سات دنوں میں اتنی رقمیں کہاں سے آئی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب بی جے پی کے سب سے کمزور یونٹ کی طرف سے یکم نومبر سے 8 نومبر تک 3 کروڑ کی رقمیں جمع ہوئیں تو دیگر یونٹوں کی طرف سے جن ریاستوں میں بی جے پی حکومت کر رہی ہے ہزاروں کروڑ روپئے جمع کئے گئے ہوں گے۔ مغربی بنگال کی سی پی ایم کی طرف سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن جانچ کرے کہ یہ بلیک منی (Black Money) کہاں سے آئی ہے۔ بی جے پی کے نائب صدر جے پرکاش مجمدار نے اعتراف کیا ہے کہ 3کروڑ رقمیں جمع کی گئی ہیں مگر یہ محض اتفاقیہ ہوا ہے یعنی مرکزی بی جے پی یا مودی نے انھیں خبر نہیں دی تھی۔
مسٹر نریندر مودی جاپان کے دورے پر ہیں اور ہندستان میں ہاہاکار مچا ہوا ہے۔ کثیر آبادی نوے فیصد سے زائد بینکوں کے قریب قطار میں روزانہ کھڑی نظر آرہی ہے۔ کوئی برانچ رقم دے دیتی ہے تو کوئی کہہ دیتی ہے کہ رقم ختم ہوگئی۔ چار چار گھنٹے لائن میں کھڑے لوگ مایوس ہوکر اپنے گھروں کو لوٹ آتے ہیں۔ یہ سلسلہ تقریباً چار دنوں سے جاری ہے اور نہ جانے کتنے دنوں تک جاری رہے گا۔ مارکیٹ کے اندر پرانے نوٹوں کو کوئی لینے والا نہیں ہے۔ اسپتال اور میڈیسن کی دکانیں یا ریلوے کاؤنٹر اعلانیہ 72گھنٹے پہلے ہی ہزار، پانچ سو پرانی کرنسی لینے سے انکار کرچکے ہیں۔ یہاں عوام در بدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔مودی سرکار نے جو اپنا کرتب اور رنگ دکھایا ہے اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ مودی ہٹلر کے نقش قدم پر گامزن ہیں۔
ایسا اندازہ ہوتا ہے کہ مودی جی کی سیاست جو انسانیت دشمنی اور عوام دشمنی پر مبنی ہے وہ 2019ء تک بلا شرکت غیر جاری رہے گی۔ خواہ انسانوں یا ہندستانیوں کو جس قدر بھی مصیبت اور تکلیفیں جھیلنی پڑے۔ بدقسمتی سے ملک میں جے پرکاش نرائن جیسی کوئی شخصیت نہیں ہے جو مودی سرکار کو چیلنج کرسکے۔ اتر پردیش میں ملائم سنگھ در پردہ مودی کی حمایت کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں جب بہار میں عظیم اتحاد کی بات تھی تو بی جے پی نے آنکھ دکھائی۔ ملائم سنگھ نے ’جنتا پریوار‘ میں شامل ہونے کی منظور دینے کے بعد پیٹھ دکھا دی۔ اس وقت یوپی میں وہی کر رہے ہیں جو چاہ رہے ہیں کہ کسی سے اتحاد نہ ہو۔ سب ان کی پارٹی میں ضم ہوجائے۔ ایسی پارٹی جو نٹوں کی طرح آپسی چپقلش کی شکار ہے جو اپنے گھر کو ٹھیک نہیں کر پارہی ہے وہ دوسروں کو اپنے گھر میں پناہ دینا چاہتی ہے۔ یہی ملائم سگھ کی سیاست ہے۔ راقم بہت دنوں سے ملائم سنگھ اور نریندر مودی کی ملی بھگت کا پردہ فاش کر رہا ہے۔ ملائم کی کمزوری ہے کہ ان کی دکھتی رگ بی جے پی کے پنجہ میں ہے۔ وہ پنجہ ہے سی بی آئی کا، ان کو جب مرکزی حکومت چاہے گی شکنجہ کس سکتی ہے، لہٰذا وہ بی جے پی کے اشارے پر سارا کام کر رہے ہیں۔ 250 سے زائد فسادات اپنے بیٹے کی حکومت کے دوران کراچکے ہیں۔ مسلمان سب سے زیادہ اکھلیش حکومت میں پریشان رہے ہیں جو لوگ سماج وادی پارٹی سے ٹکٹ پانے کے آرزو مند ہیں اور مسلمان ہیں ان کو مسلمان یا مسلم ملت سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ ان کو محض ایک ٹکٹ یا ایک عہدہ کا سوال ہے۔
بی ایس پی سربراہ مایا وتی نے صحیح کہا ہے کہ سماج وادی پارٹی کا ساتھ دینا اس وقت بی جے پی کا ساتھ دینا ہے۔ سماج وادی پارٹی کو ووٹ دینا بی جے پی کو ووٹ دینا ہے۔ وہ مسلمان جو ملت اور انسانیت کا خیال کرتے ہیں وہ کسی قیمت پر سماج وادی پارٹی کو ووٹ نہیں دیں گے۔ جو دلال قسم کے لوگ ہیں یا حاشیہ بردار ہیں وہ تو ملائم ملائم کریں گے تاکہ ان کی جھولی میں بھی ایک دو روٹی ملائم سنگھ یا شیو پال یادو ڈال دیں۔ مسلمان عوام مریں یا بھوکے رہیں۔ مظفر نگر ہو یا دادری ان سے انھیں کوئی مطلب نہیں۔ ایسے لوگ انسانیت اور اسلام کے دشمن ہیں، مسلمانوں کو ان کی باتوں میں ہر گز آنا نہیں چاہئے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔