مودی کی فتح مسلم ووٹروں کی بے وزنی کا مظہر

ندیم عبد القدیر

یونانی سائنسداں ارشمیدس نے دریافت کیا تھا کہ پانی میں ہر شئے کا وزن کم ہوجاتا ہے ۔ اگر آج ارشمیدس بقید ِ حیات ہوتا تو دیکھتا کہ 19ء3؍فیصد آبادی رکھنے والی مسلمانوں کا سیاسی وزن بغیر پانی کے کیسے کم ہوجاتا ہے ؟

بہار کی طرز پر فرقہ پرستی کو تباہ کرنے کا فلسفہ یوپی میں بارآور نہیں ہوسکا۔وطن پرستی کے جنون میں سیکولرزم محاذ تنکے کی طرح بہہ گیا۔ سماج وادی پارٹی کا کانگریس سے ہاتھ ملانا بھی کام نہیں آیا۔بہن جی کے ہاتھ بھی ایک بڑی ناکامی لگی۔پنجاب کی مٹی اور گوا کے ساحل سے کانگریس کو کچھ طمانیت حاصل ہوئی ہے۔

یہ مودی کی ہنرکاری کا ثمر ہے یا موسموں کی سازگاری کا اجر۔اسے فرقہ پرستی کی جیت کا عنوان دیں یا سیکولرزم کی شکست کا نام۔ اسے مودی کی چرب زبانی کا حاصل کہیں یا حب الوطنی کا جوشِ جنون۔سماج وادی پارٹی کے اندرونی خلفشار کو ذمہ دار ٹھہرائیں یا کانگریس کی زوال آمادہ روش کوالزام دیں۔باتوں کو الفاظ کا چاہے جو جامہ پہنا لیں چاہے جو جواز تراش لیں۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ملک کی سب سے بڑی ریاست یوپی اور اتراکھنڈ میں بھگوا رتھ نے سیکولرزم کے تانے بانےکو کچل کر رکھ دیا۔ ای وی ایم مشینوں کے دریچوں سے برآمد ہونے والے نتائج نے خوش فہمی کے سارے بت پاش پاش کردئیے۔

1977ء کے یوپی اسمبلی انتخابات میں جنتا پارٹی کو 352؍نشستیں ملی تھیں جبکہ یہ اس وقت کی بات ہے جب اتراکھنڈ یوپی سے الگ نہیں ہوا تھا۔ اس کے 40؍سال بعد پہلی بار کسی ایک پارٹی کو یوپی میں 300؍سے زائد نشستیں حاصل ہوئی ہیں۔ اندازہ لگائیے کہ کامیابی کی شدت کیا ہے۔ بی جےپی اس سے پہلے 1991ء میں ایل کے اڈوانی کی رتھ یاترا کے باعث سب سے زیادہ یعنی 221؍نشستیں حاصل کی تھیں۔ اس کے بعد سے بی جے پی یوپی میں مسلسل زوال پذیر تھی۔ 93ء میں 177، پھر 1996ء میں 186 ،اس کے بعد2002 ء میں مزید کم ہوکر88 ؍پر پہنچ گئ۔ 2007ء میں بھی زوال پذیری کا سلسلہ جاری رہا اور پارٹی 51؍ پر سمٹ گئی ۔ 2012ء میں 47؍ پر آکر بی جےپی ہانپ گئی تھی اور اب 2017ء میں ناقابل یقین جست کے ساتھ 300؍سے زیادہ نشستیں پار کرکے پارٹی نے پورے ملک کو انگشت بدنداں کردیا۔

بی جےپی کی فتح کا کوئی ایک سبب نہیں ہے بلکہ کئی وجوہات ہیں۔ اس میں سب سے بڑی وجہ سیکولر پارٹیوں جیسے سماج وادی پارٹی ، کانگریس کی عروج پر پہنچ چکی نااہلی ہے اور دوسری طرف بی جےپی کا اپنے آپ کو متبادل کے طور پر پیش کردینے کی کامیابی۔

یوپی کے ووٹ بینک کو ہم چار اہم حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ اعلیٰ ذات (برہمن اور ٹھاکر)، او بی سی ، دلت اور مسلمان۔ برہمن اور ٹھاکر مل کر اعلیٰ ذات بنتے ہیں۔ آزادی کے بعد سے یہ ووٹ بینک کانگریس کا وفادار رہا اور کچھ حصہ آر ایس ایس کو ملتا رہا۔ 80ء کی دہائی کے بعد سے اعلیٰ ذات ووٹ بینک کانگریس سے بی جےپی کو منتقل ہونے لگا۔ 90ء کی دہائی کے بعد سے یہ ووٹ بینک بی جےپی کا وفادار ہوگیا۔

اس کے بعد او بی سی کی باری آتی ہے۔ او بی سی یوپی میں 40؍فیصد کے ساتھ سب سے بڑی آبادی ہے ۔ منڈل سفارشات کے بعد سے یہ ووٹ بینک سماج وادی کے ساتھ ہوگیا۔ 2014ء اور اس کے بعد او بی سی میں ’غیر یادو‘ ووٹ بینک بی جے پی طرف راغب ہوگیا۔ یہاں سماج وادی پارٹی کو بہت بڑا نقصان ہوا۔ اس کے بعد دلت ہیںجو 2011ء کی مردم شماری کے مطابق یوپی میں 21ء1؍فیصد ہیں۔ یہ بہوجن سماج پارٹی کا ووٹ بینک تھا۔ مایاوتی ’جاٹو‘ ذات سے تعلق رکھتی ہیں جوکہ دلتوں کی ایک ذات ہے ۔ یہاں پر بی جےپی نے ایک سیاسی داؤ کھیلا اور اس نے کانشی رام کے پرانے ساتھی اوم پرکاش راجبھر کی پارٹی ’بھارتیہ سماج پارٹی‘ کے ساتھ مفاہمت کرلی ۔ ’غیر جاٹو‘ ذات کے ووٹ اس گٹھ بندھن کو مل گئے ۔ دونوں ہی پارٹیاں اس سے مستفید ہوئیں۔

اس کے بعد صرف مسلم ووٹ ہی بچے ۔2011ء کی مردم شماری کے مطابق یوپی میں مسلمانوں کی آبادی 19ء3؍فیصد ہے ۔ اس کےلئے بی جےپی کو کچھ خاص محنت نہیں کرنی پڑی۔ وہ ووٹ خودبخود بہوجن سماج اور سماج وادی و کانگریس کے درمیان تقسیم ہوگئے۔ یعنی اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کے پورے ووٹ اور اوبی سی میں’ غیر یادو‘ ذات ، دلتوں کے’ غیر جاٹو‘ ذات کے ووٹوں کے ساتھ بی جےپی کا دامن ووٹوں سے بھر گیا ۔ دوسری طرف سماج وادی ، کانگریس اور بہوجن سماج پارٹی کے صندوقوں میں اوبی سی ، دلتوں اور مسلمانوں کی تقسیم شدہ وفاداریاں آئیں۔اگر بہار کی طرز پر یو پی میں بھی ایک مہا گٹھ بندھن وجود میں آتا تو شاید بی جے پی نمونہ عبرت بن جاتی۔

سیاست دو اصولوں پر چلتی ہے ۔ ایک نظریات اور دوسری شخصیت۔ ساری دنیا میں یہی صورتحال رواں دواں ہے۔ جہاں شخصیت عروج پاتی ہے وہاں نظریات دم توڑ دیتے ہیں اور جہاں نظریات کے درو بام کشادہ ہوتے ہیں وہاں شخصیتیں آتی جاتی رہتی ہیں۔ یہ دونوں نکات ایک ساتھ شاذ ونادر ہی نظر آتے ہیں۔ یہ بات تو اظہر من الشمس ہے کہ آزاد ہندوستان میں سب سے زیادہ مدت تک حکومت کرنے والی کانگریس کا آغاز تو نظریات سے ہوا تھا لیکن دھیرے دھیرے یہ پارٹی شخصیت پرستی کے جال میں قید ہوگئی ۔ کانگریس پارٹی پہلے نہرو اور پھر اندر گاندھی کی شخصیت کے سحر میں قید ہوکر رہ گئی ۔ 84ء کی ناقابل یقین فتح بھی شخصیت پرستی کا ہی نتیجہ تھی۔ بی جےپی کا معاملہ اس کے برعکس ہے ۔ یہ پارٹی سنگھ پریوار کے سخت ہندوتوا نظریات کے کھونٹے سے بندھی پارٹی ہے ۔ بی جےپی میں ایل کے اڈوانی کی شخصیت ایک وقت میں عروج پائی لیکن ایک سطح پر پہنچ کر یہ شخصیت بھی اپنا کرشمہ کھوبیٹھی ۔ ایل کے اڈوانی نے جب محمد علی جناح کو سیکولر کہا تھا،توآر ایس ایس چراغ پا ہوگیااور اس نے پھر سے سبق یاد دلایا ’’ویکتی (شخصیت )کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو ،وہ وچار دھارا (نظریات) سے بڑا نہیں ہے‘‘۔ اس کے بعد سے آر ایس ایس اور بی جےپی میں دونوں ،یعنی شخصیت اور نظریات ماند پڑتےہوئے نظر آنے لگے۔

بی جےپی شخصیت سے محروم رہی۔ ایک لمبے عرصے تک پارٹی قحط الرجال سے دوچار رہی لیکن پھر نریندر مودی کا عروج ہوا۔ مودی کے روپ میں سنگھ پریوار کو ایک کرشماتی شخصیت ہاتھ لگ گئی ۔ اس کے ساتھ ہی بی جے پی کو وہ طاقت حاصل ہوگئی جو شاذ و نادر ہی کسی پارٹی کو مل پاتی ہے یعنی’ نظریات‘ اور ’کرشمائی شخصیت‘ دونوں۔ بچی کھچی کسر کمزور اپوزیشن نے پوری کردی۔

کانگریس کے پاس نہ ہی نظریات بچے اور نہ ہی شخصیت۔راہل گاندھی کی شخصیت اس جادوسے محروم ہے جو عوام اپنے لیڈر میں دیکھنے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ سماج وادی پارٹی کے پاس شخصیت تو ہے لیکن نظریات میں ،نام کے علاوہ اس پارٹی میں سماج واد کہیں نہیں بچا۔مایا وتی کے پاس ایک نظریہ بھی ہے اور ان کی شخصیت بھی ، لیکن یہ دونوں ہی اعداد وشمار کے کھیل میں بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔

اترا کھنڈ اپنے قیام سے جمہوریت کا حسن بنا رہا ہے ۔ یہاں ایک بار کانگریس اور ایک بار بی جےپی کی حکومت بنتی ہے ۔پچھلی بار کانگریس کی حکومت تھی تو اس بار بی جےپی کی حکومت کے امکانات تھے، لیکن یہ اتنی بڑی تعداد میں ہوگی اس کی امید نہیں تھی۔ ہریش راوت کے سیاسی کیرئیر پر بھی سوال ہے کیونکہ آزاد ہندوستان میں پہلی بار ایسا ہوا کہ موجودہ وزیر اعلیٰ دو نشستوں سے انتخابات لڑا اور دونوں ہی جگہ سے ہار گیا۔

بہر حال پنجاب کی مٹی سے کانگریس کو فتح کی خوشبو ملی ہے ۔ پنجاب کے ووٹروں نے کانگریس کی عزت بچالی۔117؍نشستوں کے ایوان میں 77؍ سیٹوں کے ساتھ کانگریس آسانی سے حکومت بنا لے گی۔ عام آدمی اپنی ساتھی پارٹی کے ساتھ مل کر 22؍نشستیں حاصل کرکے حزب اختلاف کا کردار نبھائے گی ۔ گوا کے ساحل بھی کانگریس کو راس آئے۔ یہاں کانگریس نے بی جےپی پر سبقت حاصل کرلی اور عین ممکن ہے کہ کانگریس یہاں حکومت بنالے۔ آخری بات، یوپی میں 300؍ سے زائد ایم ایل اے کی طاقت سے بھارتیہ جنتا پارٹی کیلئے راجیہ سبھا میں بھی اپنا وزن بڑھانے کی را ہ آسان ہوگئی جو اس کی ایک بہت بڑی کامیابی ہے ۔ قانون سازی میں راجیہ سبھا کی طاقت انتہائی اہم ہوتی ہے ۔ رہی بات مسلمانوں کی تو ،

یونانی سائنسداں ارشمیدس نے دریافت کیا تھا کہ پانی میں ہر شئے کا وزن کم ہوجاتا ہے ۔ اگر آج ارشمیدس بقید ِ حیات ہوتا تو دیکھتا کہ 19ء3؍فیصد آبادی رکھنے والی آبادی کا سیاسی وزن بغیر پانی کے کیسے کم ہوجاتا ہے ؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔