نعتیہ شاعری اور اردو ادب

مکرمی!
عصرِ حاضر میں اردو پرچے اور رسائل قارئین کی کمی کے سبب گھٹتے جا رہے ہیں لہٰذا اردو مسائل بھی بڑھتے جا رہے ہیں نیز اردو کے پاؤ ں تلے اقتصادی زمین کھسکتی جا رہی ہے ۔ وہ دن دور نہیں جب عام کسانوں کی طرح اردو کے کسانوں کی بھی اپنے اپنے دفتر،دکانوں اور پریس میں پھانسی لگانے کی خبریں آنے لگیں گی ۔کہیں ایسا ہو نہ ہو ،اگریہی زبوں حالی رہی تو کم از کم شمالی ہندوستان (یوپی) میں ایسا ضرور ہوگا ۔شہزاد پور ،امبیڈکر نگر (یوپی) میں ایک پرانی دوکان ’حیات بک ڈپو‘ ہے ۔آج سے تقریبا آٹھ ،دس برس پہلے یہاں بہت زیادہ نہیں تاہم خاطر خواہ گاہک نظر آتے تھے لیکن اب یہاں اکثر اوقات سناٹا رہتا ہے ۔ ماہانہ اردو رسائل جیسے آتے ہیں ویسے ہی پڑے رہتے ہیں ،کوئی خریدار ہی نہیں آتا۔یہی وجہ ہے کہ اب وہاں دو چند جریدے اور ماہنا مے ہی آتے ہیں ،وہ بھی بک نہیں پاتے اسی لیے بسا اوقات اردو محبین کے لیے یہ شدید تکلیف کا باعث ہوتا ہے ۔

موجودہ دور کا المیہ یہ ہے کہ ہمارے اداروں میں مہنگے مہنگے سیمینار،مشاعرے تو خوب ہوتے ہیں مگر پرائمری کی سطح پر اساتذہ کا انتظام نہیں ہو پاتاہے کیوں کہ یہ صرف حکومت کی ذمہ داری ہے سیمینار اور مشاعرہ کرنے والوں کی نہیں ۔جب کہ موجودہ نسل کی اردو زبان سے اس قدر نا آ شنائی ہے کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ اردو کے لیے جنگی پیمانے پر کوئی ایسا لائحہ عمل، ذاتی طور پر تیار کیا جائے، جس کے ذریعے نئی نسل کو اردو زبان سے جوڑا جائے ،خوب واضح رہے جنگ میں کبھی یہ نہیں دیکھا جاتا کہ حکومتی امداد کتنی مل رہی ہے بلکہ جسم و جان کی تمام توجہ صرف ہدف یعنی دشمن پر ہوتی ہے ۔آج کے دور انحطاط میں بھی مذہبی شاعری پر اگر ذرا توجہ کریں تو مذہب کے اصلی تعلیمات کو اردو شاعری میں پہنچا کر اردوکو کھویا مقام دوبارہ حاصل ہوسکتا ہے اوران عناصر کے حوصلے بے جان پڑ جائیں گے جو مذہبی پیغامات کو غلط طریقے سے پہنچا کر ظلم و تشدد کا بازار گرم کرنے پر تُلے رہتے ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہندوستا نی سماج میں آج بھی مذہبی شاعری کی جارہی ہے اور عوام کو زباں زد بھی ہے لیکن یہ کد و کاوش اد ب کا حصہ نہ بن پانے کی وجہ سے اپنی موت آپ مر ا،جارہا ہے۔مسلمانوں میں مذہبی شاعری کے اصنافِ سخن حمد،نعت،اور منقبت جبکہ ہندو سماج میں گیت اور بھجن وغیرہ ہیں۔اردو ادب کی موجودہ تاریخ میں دو چند شعرا ء کا ہی ذکر اردو نظم کے دیگر اصنا فِ سخن کے ذیلی تذکرے یعنی صدقے میں مذہبی شاعری (نعتیہ شاعری ) کے حوالے سے ملتا ہے، ورنہ در حقیقت یہ ادب کا حصہ نہیں ہے ۔بعض شعراء کے قصیدے ،مرثیہ اوراہلبیت کی شان میں کہی گئی منقبت وغیر ہ دیگر مذہبی شاعری کے اصنافِ سخن ؛اردو ادب کا حصہ ہیں مگر اُنہی بحر و بر میں بعض دوسرے اہم شعرا ء کے کلام سے مجرمانہ چشم پوشی کرتے ہوئے انہیں نظر انداز کیا گیا ہے ،مثلََاامام احمد رضاؔ محدث بریلوی علیہ الرحمہ کا پورا دیوان’حدائقِ بخشش‘ نعتیہ شاعری کے لیے مشہور ہے ۔

جب کہ اِسی دیوان میں قصیدہ کی صنف موجو ہے اورقصیدہ معراجیہ قصیدہ ،نوریہ ہیں جو فنی لحاظ سے بہت ہی اہم ہیں مگریہ اردو ادب کا حصہ نہیں ہیں۔یہی حال نثر کا ہے فاضل بریلوی نے سیکڑوں کتابیں تصنیف کی ہیں جن میں فتاویٰ کے علاوہ علم جفر، سائنس ،تاریخ اور خطوط موجود ہیں۔محبِ اہلبیت، بیدم ؔ شاہ وارثی علیہ الرحمہ ،حضرت آسیؔ وغیرہ بہت سے اہم شعرا ء جو سر سید اور شبلی کے عہد کے ہیں تاہم ان کا ادب اب تک نا قابل قبول ہی ہے ۔ نعت کے لیے یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ نعت اس لیے ادب کا حصہ نہیں بن سکتا کیونکہ اس میں محبوب متعین ہوتا ہے جبکہ بعض نعت گو شعراء کو ادب کے طور پر شامل رکھا گیا ہے مثلا محسن ؔ کاکوروی۔

یہ بھی درست ہے کہ اسی باب میں بعض ایسے بھی شعرا ہیں جن کے کلام کو کسی خاص صنف کا نام نہیں دیا جا سکتا گو کہ وہ نعت کے طور پر مشہور ہیں جنہیں خانقاہی زبان میں معرفتی کلام کہا جا تا ہے،کم از کم ان کا مطالعہ ادب کے طور پر بہر حال ضرور ہونا چاہیے ۔ مثال کے طور پر بیدمؔ کے ایک کلام کا مطلع ہے:بے خود کیے دیتے ہیں انداز حجابانہ …. آ دل میں تجھے رکھ لوں اے جلوۂ جانا ں نا۔ اکثر اردو کی محفلوں سے یہ صدا بلند کی جاتی ہے کہ اردو پر الزام ہے کہ یہ طوائفوں کی زبان ہے ،اسے علم و سائنس کی زبان بنانے کی سمت میں کام ہونا چاہیے۔ اس وقت؛ ضرورت اس بات کی ہے کہ مذہبی شاعری کو شامل کر کے اردو ادب کے دامن کووسیع تر سے وسیع ترین کیا جائے اور سب سے اہم ؛اردو ادب کو ایک بار اس حیثیت سے مطالعہ کیا جائے کہ کیوں انورا جلال پوری نے گیتا کا اردو شعری ترجمہ کرنے کےبعد اسے دیوناگری رسم الخط میں شائع کیا ؟

واقعہ یہ ہے کہ اگر اردو ادب کا یہی رویہ رہا تو دھیرے دھیرے رسم الخط بدلتا جائیگا اور جس زبان کا اپنا رسم الخط نہ ہو بالآخر اس کو ایک دن گمنامی کی موت مرنا ہی ہوتا ہے ۔ کیا اردو ادب کو ہتھیا لیا گیا؟ آخر اردو ادب اتنا بے ظرف اور تنگ دل کیوں ہے ؟اور اس پرچند ہی اشخاص کی اجارہ داری کیوں ہے ؟نیز اردوکے تمام خدمتگاروں کو برابر کا حق کب ملے گا؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔