فارسی کی یاد میں

طارق بابر

اسّی کی دہائی کے آغاز تک پاکستان کے سرکاری سکولوں کے نصاب میں مڈل سٹینڈرڈ تک فارسی بطور لازمی مضمون پڑھائی جاتی تھی۔ فارسی کی ان درسی کتب میں درج شیخ سعدی ؒ کی حکایات سکھاتیں کہ باد شاہ کہیں سے ایک انڈا ناحق کھالے تو اس کے لشکری ہزاروں مرغیاں مفت ہڑپ کر جائیں گے۔ چنانچہ معاشرے میں دیانتداری کے فروغ کیلئے ہر درجے کے حاکم کومثالی دیانتدارانہ کردار کا حامل ہونا چاہئے۔یوں نونہالانِ قوم کی اخلاقی تربیت میں فارسی کا اہم کردار رہا۔ پھر رفتہ رفتہ فارسی ملک بدر ہوتی گئی۔ بلاشبہ ، فارسی کی جگہ لینے والے جدید علوم نے معاشرے کو ترقی سے ہمکنار کر دیا مگر بغیر اخلاقی تربیت محض مادی ترقی کے نتائج ہمارا منہ چڑارہے ہیں۔ تب کے بدعنوان جاہل ، کم علم اور آٹے میں نمک برابرتھے۔ معاشرہ انھیں نفرت کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔ اب بددیانت اور مالِ ناحق کھانے والے جھوٹی شان وشوکت کے مالک ہیں ۔ طرح یہ کہ اکثر یونیورسٹیوں کے پوزیشن ہولڈر ، اعلیٰ اداروں سے فارغ التحصیل اور رؤساء کی اولاد ہیں۔

اسلامی دنیا میں فارسی وہ پہلی زبان تھی جس نے نظم ونثرپر عربی کی اجارہ داری کو چیلنج کیا۔ ابو القاسم فردوسی طوسی کے شاہنامہ کو فارس کی عظیم سلطنت (ایران بزرگ ) کا ملی نغمہ سمجھا جاتا تھا۔ مولانا جلال الدین محمد بلخی رومی المعروف مولانا روم ؒ کی مثنوی کے متعلق مولانا نورالدین عبدالرحمٰن جامیؒ نے فرمایاتھا: مثنوی مولوی معنوی، ہست قرآں در زبانِ پہلوی ، یعنی مولانا رومی ؒ کی مثنوی معنوی (توگویا) پہلوی (فارسی) زبان میں قرآن (کی تفسیر) ہے ۔ عمر خیام کی رباعیات، خواجہ شمس الدین محمد حافظ شیرازی کا دیوان اور ابو محمد مصلح الدین بن عبداللہ المعروف سعدی شیرازی ؒ کی حکایات بصورت گلستان اور بوستان ، فارسی ادب کے روشن چراغ ہیں۔

برصغیر پاک وہند میں فارسی ترک ، افغان ، منگول اور مغل فاتحین سے رواج پذیر ہوئی ۔ نصیرالدین ہمایوں شیر شاہ سوری سے شکست کھا کر پندرہ برس فارسی کے وطنِ اصلی ایران میں پناہ گزین رہا۔ چنانچہ ہمایوں کے دور کی ہاتھ سے لکھی فارسی کتابیں اور کیلی گرافی کے نمونے آج تک محفوظ ہیں ۔ سلطان محمود غزنوی اور نادر شاہ درانی کے ہندوستان پر حملوں کے دوران فارسی اور ترکی بولنے والے سپاہ گروں اور اور ہندوستان کی مقامی بولیاں بولنے والوں کے میل جول سے مسلح لشکریا چھاؤنی کی زبان اردوئے معلی وجود میں آئی جوبعد میں صرف اردو کہلائی۔ گویا اردو کو فارسی کی دختر نیک اختر کہا جاسکتا ہے۔ قدیم مساجد ، قلعوں اور تاریخی عمارات میں کندہ فارسی اشعار وقطعات اس کی عظمت رفتہ کی یاد دلاتے ہیں۔ صوفیاء کی حمدیہ ونعتیہ فارسی قوالیاں آج بھی سننے والوں کی روح تک اتر جاتی ہیں۔

انگریزوں کے ہندوستان پر قبضے سے پہلے ، کم و بیش چھ صدیوں تک فارسی متحدہ ہندوستان کی سرکاری ودرباری زبان اور جگت بھاشا (Lingua Franca) سمجھی جاتی تھی ۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے گورنر جنرل آف برٹش انڈیا ، لیفٹیننٹ جنرل لارڈ ولیم ہنری کیونڈش بینٹنک سے انگلش ایجوکیشن ایکٹ 1835ء منظور کروا کر فارسی زبان کی حیثیت کو بزور شمشیر انگریزی سے بدل ڈالا۔ مقامی لوگوں میں فارسی کی اہمیت کم کرنے کیلئے پڑھو فارسی بیچو تیل جیسے محاورے ایجاد کئے گئے۔تاہم فارسی کی محبت کو خواص و عام کے دلوں سے نکالا نہ جاسکا۔ امیر خسرو، مرزا اسداللہ خان غالب اور شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال ، جنھیں ایران میں اقبال لاہوری کہا جاتا ہے، کا فارسی کلام اس محبت کی واضح دلیل ہے۔

اردو کے علاوہ پنجابی، سندھی، ہندی، مراٹھی، گجراتی، راجستھانی اور بنگالی زبانوں پر فارسی کے اثرات بہت گہرے ہیں ۔ہماری روزمرہ گفتگو اور تحریروں میں آفتاب، گوشہ، اشک، آتش، آزادی، فردوس ، بندرگاہ، بازار، بوٹا ، چادر، کاروان سرائے، چوکھا (زیادہ)، برادری ، داستان ، دَف (آلہ موسیقی)، درگاہ ، دستور، دہقان، فرنگی، گوشت، ہفتہ، حیات، ہندوستان، پاکستان، ایوانِ بالا، ایوانِ زیریں، جہان، خواجہ، خدا حافظ، خوشحال، کوہِ نور، مے نوشی، مرض، مست، مرزا، نیلوفر، پرستان، سپہ سالار، پیری، پیر، روضہ، سردار، شاہنامہ، سیاحت، شاہ، شمشیر، شکستہ، شطرنج، تماشا، استاد، زردوزی اور زندہ بادجیسے لاتعداد الفاظ شامل ہیں جو دراصل فارسی زبان کے ہیں۔ 1952ء میں حکومت پاکستان نے 723ملی نغموں میں سے ابوالاثر حفیظ جالندھری کے فارسی میں لکھے ہوئے قومی ترانے کو مقابلے کی بنیاد پر منتخب کیا اور شاعر کو دس ہزار روپے انعام سے نوازا۔ آج پاکستانی قوم سینہ تان کر جس قومی ترانے کو فخر سے پڑھتی ہے اس میں قومی زبان اردو کا صرف ایک لفظ "کا” شامل ہے۔

فارسی زبان کا وطن اصلی ایران 651ء سے قبل اردشیر اول کی قائم کردہ عظیم ساسانی سلطنت اور زرتشت مذہب کے پیروکار پارسیوں کا مسکن تھا ۔ اسی حوالے سے فارسی کا پرانا نام پارسی تھا۔ 633ء میں حضرت خالد بن ولیدؓ اور 636ء کی جنگِ قادسیہ میں حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کی قیادت میں اسلامی لشکر نے ساسانی سپاہ کو عبرتناک شکست سے دوچار کیاتو مغربی ایران اسلامی خلافت کے زیرِ نگیں آگیا۔ کوہِ زاگراس ساسانی سلطنت اور اسلامی خلافت کے مابین قدرتی سرحد ٹھہرا مگر فریقین کے مابین امن قائم نہ ہوسکا۔ چنانچہ امیر المؤمنین عمر بن خطابؓ کی خلافت میں 642ء میں اسلامی فوج نے ساسانی سلطنت پر فیصلہ کن حملے شروع کئے ۔ یوں 651ء تک فارس مکمل طورپر خلافتِ راشدہ کا حصہ بن گیا۔ عربی حروف تہجی میں ‘پ’ موجود نہیں ۔ فارس کی فتح کے بعد عربی زبان کے اثرات کے تحت ‘پ’ کی جگہ اسی جیسے صوتی اثرات والا حرف ‘ف’ استعمال ہونے لگا ۔ یوں پارسی ، فارسی کہلانے لگی۔ فارس والے مسلمان ہوئے تو عربی اور عجمی کا فرق مٹ گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فضیلت کا معیار تقویٰ کو قرار دیتے ہوئے فرمایا تھا: کسی عربی کو عجمی پر، اور عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں۔ ترکی، عربی اور دیگر زبانوں کے ملاپ سے فارسی بین الاقوامی زبان بنتی چلی گئی۔ وینس کے مشہور سیاح مارکوپولو نے منگول سلطنت کا سفر اختیار کیا تو وہاں کے بادشاہ قبلائی خان کے دربار میں سمجھی اور بولی جانے والی واحد غیر یورپی زبان فارسی تھی ۔

تو میں عرض کر رہا تھا کہ فارسی کی درسی کتب میں درج شیخ سعدی ؒ کی حکایات سکھاتیں کہ باد شاہ کہیں سے ایک انڈا ناحق کھالے تو اس کے لشکری ہزاروں مرغیاں مفت ہڑپ کر جائیں گے ۔ مگر پھر۔ ۔ ۔ فارسی کی جگہ لینے والے جدید علوم نے معاشرے کو ترقی سے ہمکنار کر دیا مگر بغیر اخلاقی تربیت محض مادی ترقی کے نتائج ہمارا منہ چڑارہے ہیں۔ تب کے بدعنوان جاہل ، کم علم اور آٹے میں نمک برابرتھے۔ معاشرہ انھیں نفرت کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔ اب بددیانت اور مالِ ناحق کھانے والے جھوٹی شان وشوکت کے مالک ہیں ۔ طرح یہ کہ اکثر یونیورسٹیوں کے پوزیشن ہولڈر ، اعلیٰ اداروں سے فارغ التحصیل اور رؤساء کی اولاد ہیں۔ تو کوئی ہے جو ہمیں فارسی کے دور میں واپس دھکیل دے؟

تبصرے بند ہیں۔