مولاناابو الکلام آزاد تاریخ پیدائش کا علمی محاکمہ

 ڈاکٹر شمس کمال انجم

11/نومبر 1988ء سے لے کر 11 نومبر 1989ء تک پورے ملک میں مولانا آزاد صدی تقاریب کا اہتمام کیاگیا۔اس کے افتتاحی اجلاس میں اس وقت کے صدر جمہوریۂ ہند ، وزیر اعظم ہنداور وزیر برائے فروغ انسانی وسائل نے اپنے اپنے خطبات کے ذریعے مولانا کو خراج عقیدت پیش کیا۔ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نے ’’مولانا ابو الکلام آزاد ایک ہمہ گیر شخصیت ‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب مرتب کروائی۔ پوسٹل ٹکٹ کا اجراء کیاگیا۔ سیمینار منعقد کیے گئے۔ یادگاری کتب شائع کی گئیں۔ مولانا آزاد اور جنگ آزادی کے آخری مراحل سے متعلق ایک نمائش کا بھی اہتمام کیاگیا۔ مختلف صوبوں میں متنوع قسم کی رنگا رنگ تقاریب کا اہتمام کیاگیا۔ہر سال یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کی طرف سے اعلی تعلیمی اداروں کے نام اعلانیہ جاری کرکے نومبر کے مہینے میں ملک کے پہلے وزیر تعلیم مولاناابو الکلام آزاد سے متعلق مختلف قسم کی علمی وادبی اور ثقافتی تقاریب کے انعقاد کی گذارش کی جاتی ہے۔یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کی ہدایت پر میں نے بھی اپنی یونیورسٹی میں نومبر 2011ء میں مولانا کی حیات وخدمات پر ایک سیمینار کا انعقاد کیا تھا۔
مولانا آزاد نے اپنی معرکۃ الآراء کتاب تذکرہ میں اپنی پیدائش کے بارے میں لکھا ہے:
’’یہ غریب الدیار عہد وناآشائے عصر ،وبے گانۂ خویش ،ونمک پروردۂ ریش، معمورۂ تمنا وخرابۂ حسرت کہ موسوم بہ احمد ومدعو بابی الکلام ہے۔۱۸۸۸ء مطابق ذو الحجہ1305ھ میں ہستی عدم سے اس عدم ہستی نما میں وارد ہوا اور تہمت حیات سے متہم۔۔۔ والد مرحوم نے تاریخی نام ’’فیروز بخت‘‘ رکھا تھا اور مصرعۂ ذیل سے ہجری سال کا استخراج کیا تھا:
جواں بخت وجواں طابع ، جواں باد‘‘ (تذکرہ ص 310)
یہی تاریخ پیدائش مولانا کی زندگی کی کہانی کے راوی اور مولانا کے رفیق خاص عبد الرزاق ملیح آبادی نے بھی ذکر کی ہے۔ (دیکھیے آزاد کی کہانی آزاد کی زبانی ص ۶31)
مولانا کے مذکورہ بالا بیان کے مطابق آپ کا عیسوی سال ولادت 1888ء اور ہجری ماہ وسال ولادت ذی الحجہ1305ھ ہے۔تاریخی نام ’’فیروز بخت‘‘ اور فارسی مصرعے ’’جواں بخت وجواں طابع، جواں باد‘‘ سے بھی سال ولادت 1305ھ نکلتا ہے۔ مولانا نے یہاں عربی سال اور مہینے کا ذکر کیا ہے مگر تاریخ اور دن کا ذکر نہیں کیا۔ اسی طرح انھوں نے عیسوی سال توذکر کیا مگر تاریخ اور مہینے کے ذکر سے اعراض کیا۔
محقق مولانا آزاد مالک رام کہتے ہیں ’’وہ ہجری تاریخ ولادت لکھنے پر مجبور تھے کیونکہ در اصل یہی (تاریخ )انہیں بتائی گئی ہوگی۔ وہ مکہ میں پیدا ہوئے جہاں کی پوری معاشرت اسلامی تھی۔ ان کے نانیہال اور دادیہال دونوں گھرانے بھی ٹھیٹ اسلامی بلکہ علماء کے تھے۔ پس تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ دونوں جگہ ہجری کے سوائے کوئی اور تقویم استعمال ہوتی ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں ذی الحجہ کا مہینہ ملتاہے۔یقیناًبتانے والے نے انہیں دن اور تاریخ بھی بتائی ہوگی جو وہ بھول گئے ‘‘ (کچھ ابو الکلام کے بارے میں ص 32)
مالک رام کی بات قرین قیاس بھی ہے کیونکہ آج بھی جن ممالک میں جو تاریخیں لکھی جاتی ہیں ا ن کے علاوہ تاریخوں کی جانکاری عام طور سے نہیں ہوتی۔سعودی عرب جیسے عرب ممالک میں عیسوی تاریخ اور ہندوستان جیسے ملک میں ہجری تاریخ کم ہی لوگوں کو پتہ ہوتی ہے۔
مولانا آزاد کے سوانح نگاروں نے ذو الحجہ 1305ھ کے مطابق عیسوی تاریخ پیدائش کے استخراج میں بڑی عرق ریزی کی۔مالک رام لکھتے ہیں: ’’1305ھ کا ذی الحجہ 9/ اگست سے 6 ستمبر1888ء تک تھا۔ لہذا ہم کہیں گے کہ وہ اگست یا ستمبر 1888ء میں پیدا ہوئے۔ چونکہ ذی الحجہ کی ٹھیک تاریخ معلوم نہیں اس لیے عیسوی مہینے کی تاریخ کا تعین بھی ممکن نہیں‘‘ (کچھ ابو الکلام آزادکے بارے میں ص 23)
ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں: ’’مولانا غلام رسول مہر نے اپنے ایک خط میں لکھا ہے کہ مولانا آزاد نے ایک موقع پر خود انھیں اپنی صحیح تاریخ ولادت ۸ یا 9ذی الحجہ1305ھ بتائی تھی۔ انھوں نے اسے 17 یا 18/ اگست 1888ء کے مطابق قرار دیا ہے۔ یہ اس جنتری کے مطابق ہوگا جو ان کے سامنے تھی۔ میں نے جس جنتری کا حوالہ دیا ہے اس کی رو سے یہ تاریخیں 16 اور 17/ اگست کو پڑیں گی۔ ان تقابلی جنتریوں میں ایک آدھ دن کا تفاوت عام طور پر ملتاہے۔ خود میں نے ایک مرتبہ مولانا مرحوم سے اس مسئلے سے متعلق بات کی تھی۔ انھوں نے کسی تاریخ کا تعین تو نہیں کیا، لیکن میں نے ان کے بتائے ہوئے کوائف سے اندازہ کیاتھاکہ وہ بدھ 22/ اگست1888ء یعنی 14/ ذی الحجہ 1305ھ کو پیدا ہوئے تھے‘‘ (کچھ ابو الکلام آزاد کے بارے میں ص 42)
مولانا کے تقریبا تمام سوانح نگار اس بات پر متفق ہیں کہ مولانا 9/ اگست تا 6 ستمبر کے درمیان پیدا ہوئے۔جن لوگوں نے 9/ اگست تا 6 ستمبر کی رائے دی ہے ان میں مالک رام(کچھ ابو الکلام آزادکے بارے میں ص 32) ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری (انڈیا ونس فریڈم ص 85) عبد القوی دسنوی (تلاش آزاد ص13، یادگار آزاد ص13)عرش ملسیانی (جدید ہندوستان کے معمار ابو الکلام آزاد ص 16)رشید الدین (ابو الکلام آزاد ایک ہمہ گیر شخصیت ص 19، مولانا ابو الکلام آزادشخصیت، سیاست، پیغام ص 146)شورش کاشمیری (ابو الکلام آزاد ص18) خلیق انجم (مولانا ابو الکلام آزاد شخصیت اور کارنامے ص 22)وغیرہ قابل ذکر ہیں۔مالک رام 17،18 یا 22 / اگست 1888ء کی طرف بھی میلان رکھتے ہیں۔ (کچھ ابو الکلام آزاد کے بارے میں ص 24) ریاض الرحمن شیروانی لکھتے ہیں ’’ا ن کی ولادت کے انگریزی مہینے کے بارے میں اختلاف رائے ہے۔ غلام رسول مہر اور مالک رام کی تحقیق کے مطابق اگست کو ترجیح حاصل ہے‘‘ (میر کارواں مولانا ابو الکلام آزاد ص 25) کچھ نے 17/ اگست 1888ء (قاضی افضل قرشی ماہنامہ ایوان اردو مولانا ابو الکلام آزاد نمبر ص 17) کچھ نے 22 / اگست مطابق 14 ذی الحجہ 1305ھ (مولانا ابو الکلام آزاد اور قوم پرست مسلمانوں کی سیاست ص 13) بھی ذکر کیا ہے۔
کچھ لوگ اس سے ہٹ کر 11/ نومبر کو مولانا کی تاریخ پیدائش مانتے ہیں۔ظفر احمد نظامی (مولانا آزاد کی کہانی ص 10) فیروز بخت (ابو الکلام آزاد شخصی پہلو ص ۵)اور جمشید قمر (جہان آزادص 34) وغیرہ نے اس کی تائید کی ہے۔ حکومت ہند کے بھی ریکارڈ میں 11/ نومبر 1888ء درج ہے اورسرکاری حلقوں میںیہی معتبر ومعتمد تاریخ مانی جاتی ہے۔
شورش کاشمیری لکھتے ہیں ’’ تذکرۂ مولانا آزاد، آزاد کی کہانی (ملیح آبادی) اور انڈیا ونس فریڈم (ہماری آزادی) میں سن پیدائش یہی ہے لیکن مولانا کی دوسری برسی کے موقع پر حکومت ہند نے مولانا سے متعلق مختلف مفکرین ومستشرقین کے مضامین کا ایک مجموعہ مرتبہ ہمایوں کبیر شائع کیا تو اس میں سال پیدائش تو 1888ء ہی ہے لیکن تاریخ پیدائش 11 / نومبر لکھی ہے۔معلوم نہیں تاریخ کے اس تعین کا ماخذ کیا ہے۔ 1305ھ کے ذی الحجہ کی رو سے ۸ / اگست تا ۶ دسمبر کی تاریخ پڑتی ہے۔ (ابو الکلام آزاد ص18)
رشید الدین لکھتے ہیں: ’’بعض لوگو ں نے 16۔17 یا 22 / اگست کی تاریخ مقرر کی ہے جن میں مالک رام شامل ہیں۔ بعض نے ستمبر کا مہینہ بتایاہے جیسے ’آثار ابو الکلام‘ میں قاضی عبد الغفار نے۔البتہ حکومت ہند کی مطبوعہ کتاب ’’مولانا ابو الکلام آزاد، کتاب التذکرہ(جس کو انگریزی میں پروفیسر ہمایوں کبیر نے Maulana Abul Kalam Azad; A Memorial Volume کے نام سے شائع کروایا اور جس کا ترجمہ اردو میں ڈاکٹر میر ولی الدین نے فرمایا) میں مطبوعہ تاریخ پیدائش 11 / نومبر1888ء دی گئی ہے جو اس لیے غلط ہے کہ 1305ھ کے آخری مہینہ ذی الحجہ میں مولانا پیدا ہوئے جس پر کوئی اختلاف نہیں ہے بلکہ ان کے تاریخی نام ’’فیروز بخت‘‘ سے بھی یہی سنہ نکلتا ہے اور جنتری کے لحاظ سے 1305ھ ۶ ستمبر کو ختم ہوجاتا ہے۔ اس لحاظ سے لازمی ہے کہ تاریخ پیدائش کا تعین صرف 9 /اگست اور 6 ستمبر کے درمیان ہی ہوسکتا ہے۔ (مولانا ابو الکلام آزادشخصیت، سیاست، پیغام ص167۔146)
اس تاریخ کے تعین کا سب سے اہم ماخذ مولانا ابو الکلام آزاد کے ترجمان اور انڈیا ونس فریڈم کے راوی و مولف پروفیسر ہمایوں کبیرہی ہیں جو 1945ء سے مولانا کے سکریٹری کی حیثیت سے مولانا کے ساتھ رہے (انڈیا ونس فریڈم ص 9) انھوں نے انڈیا ونس فریڈم میں لکھا ہے کہ ’’مولانا آزاد کی خواہش تھی کہ یہ کتاب نومبر 57ء میں ان کی سترویں سالگرہ کے دن شائع ہو لیکن مشیت الہی کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ اب کتاب شائع ہوگی تو وہ ہم میں موجود نہ ہوں گے‘‘ (انڈیا ونس فریڈم ص68)
مالک رام اس پر تعقیب کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’اس عبارت نے مولانا آزاد کی ولادت کو ایک متنازع فیہ مسئلہ بنادیا۔ ایک تو تحریر انگریزی میں اور اس پر لکھی ہوئی ہمایوں کبیر کی۔ ہمارے سرکاری حلقوں نے تحقیق کیے بغیر اس پر اعتماد کرلیا۔ خدا معلوم بعد کو کس نے اور کس کی شہ پر مہینہ نومبر پر تاریخ گیارہ کا اضافہ کرکے اسے 11 / نومبر 1888ء بنادیا اور یوں 11/ نومبر مولانا آزاد کی تاریخ ولادت تسلیم کرلی گئی۔ یہ تاریخ غلط ہے‘‘(کچھ ابو الکلام آزادکے بارے میں ص23) وہ مزید لکھتے ہیں: ’’تعجب ہوتا ہے کہ پروفیسر ہمایوں کبیر نے کیسے ان کی ولادت نومبر 1888ء لکھ دی اور حکومت ہند کی طرف سے بھی جو تقریبات مولانا آزاد کی پیدائش کے سلسلے میں ہوتی ہیں ان کے لیے 11 /نومبر ہی کی تاریخ مقرر کی گئی ہے حال آنکہ نومبر کی صورت میں ہجری سال 1306ھ ہوجاتا ہے۔ میرے علم میں خود مولاناآزاد نے اپنی تاریخ ولادت تذکرہ کے سوائے اور کہیں نہیں لکھی اور وہاں انھوں نے صراحت سے ذو الحجہ 1305ھ ہی لکھا ہے جو اگست، ستمبر 1888ء کے مطابق ہے پس نومبر 1888ء کی تاریخ کسی طرح درست نہیں‘‘(کچھ ابو الکلام آزادکے بارے میں ص 32)
عرش ملسیانی کا خیال ہے: ’’ہمایوں کبیر صاحب نے ان کی تاریخ پیدائش سرکاری انتظامات سے مطبوعہ یادگاری انگریز ی کتاب میں 11/ نومبر1888ء لکھ دی یہ کسی طرح بھی درست نہیں مانی جاسکتی کیونکہ اس کا کوئی اور ثبوت نہیں ملتا‘‘ (جدید ہندوستان کے معمار ابو الکلام آزاد ص 61)
ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری لکھتے ہیں’’ہمایوں کبیر کا انگریزی مہینہ نومبرقرار دینا ہرگز درست نہیں۔ ۷ ستمبر 1888ء سے تو 1306ھ شروع ہوگیا تھا‘‘ (انڈیا ونس فریڈم ص ۵۸) آپ مزید لکھتے ہیں’’ اس میں (انڈیا ونس فریڈم کی پہلی جلد کے خلاصے میں) مولانا آزاد کے حالات وسوانح یا ان کے خاندان کے بارے میں جو معلومات ہیں وہ خود مولانا کی تحریروں کے برعکس ہیں۔ اسی طرح الہلال کی ضمانت کی ضبطی ، اس کی بندش ، پریس کی ضبطی، الہلال اور البلاغت کی درمیانی مدت، مولانا آزاد کی اہلیہ اور بہن کے سنین وفات اور بعض دیگر اسماء وتواریخ کے بارے میں جو غلطیاں ہیں جن سے مولانا آزاد کا تعلق ہے اور تاریخ کے خلاف ہیں ان سب کے بارے میں کیا کہا جائے گا؟ کیا ان اغلاط کی ذمہ داری مولانا آزاد پر ڈالی جاسکتی ہے؟ واقعہ یہ ہے کہ مولانا آزاد کو اس کے لیے ذمہ دار قرار نہیں دیاجاسکتا۔ در اصل یہ ہمایوں کبیر کے تسامحات ہیں جو کتاب کی تالیف میں واقع ہوئے ہیں اور ان کے لیے وہی ذمہ دار ہیں۔۔۔بلاشبہ ہمایوں کبیر کو کچھ عرصہ مولانا کا قرب حاصل ہورہا تھا۔ انھیں مولانا کا اعتماد حاصل ہوگیا تھا۔ انہیں مولانا سے محبت اور عقیدت بھی تھی ۔ وہ مولانا کے افکار وخدمات قومی سے متاثر بھی تھے، وہ مولانا کی عظمت کے قائل بھی تھے۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ مولانا کے حالات وسوانح مولانا کی صحافت ، الہلال کا اجراء، مقاصد ، خدمات وغیرہ ان کا موضوع نہیں تھے۔ اردو زبان وادب سے بھی انھیں دلچسپی نہ تھی اور نہ وہ ادب میں مولانا کے مقام اور خدمات سے آشا تھے۔ ان امور میں ان کی رائے مولانا کی شہرت پر مبنی تھی، اس بارے میں ان کے صرف اعتقادات تھے کہ مولانا بہت بڑے ادیب ہیں۔ بلند پایہ مصنف ہیں، اردو کے عظیم صحافی ہیں، وہ اس دور میں ایک نامور عالم دین اور مفسر قرآن ہیں۔ مولانا آزاد کی زندگی کے یہ پہلو اور ان کی یہ مختلف حیثیات کبھی ہمایوں کبیر کا علمی موضوع نہیں رہی تھیں اس لیے دیباچے کے مضمون اور پہلی جلد کے خلاصے کی تالیف میں ان سے یہ تسامحات واقع ہوگئے‘‘ (انڈیا ونس فریڈم ص 38)
مولانا آزادماقبل ومابعد آزاد ہند کے ایک عظیم مذہبی وسیاسی رہنما تھے۔وہ نجیب الطرفین تھے۔ ایسے خانوادے میں انھوں نے آنکھیں کھولی تھیں جو علم وادب کی شمع زرنگار سے ضوفشاں تھا۔بیسویں صدی کی چھٹی دہائی کے اخیر تک جب تک مولانا زندہ رہے پورے ہندوستان بلکہ پوری دنیاپران کی علمیت وادبیت اور دینی وسیاسی حیثیت کا سکہ بیٹھا رہا۔ ملک کے پہلے وزیر تعلیم کی حیثیت سے انھوں نے بڑے اہم کارنامے انجام دیے۔ ٹکنکل ایجوکیشن کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ تعلیم بالغاں کا منصوبہ بنایا اور چلایا۔ تعلیم نسواں پر زور دیا۔ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن قائم کیا۔ انڈین کاؤنسل فار کلچرل رلیشنز(آئی سی آر) کی بنیاد رکھی۔ ساہتیہ اکیدمی کی داغ بیلی۔ عربی رسالے ثقافۃ الہند کا اجراء کیا جو آج بھی جاری وساری ہے۔ آل انڈیا ریڈیو کے عربی شعبے کے معیار کو بہتر بنایا۔ (مولانا ابوالکلام آزاد ذہن وکردار ص 28) ملک کے اتنے بڑے سیاسی رہنما کی تاریخ پیدائش کے تعین میں اس قدر تساہل کا پایا جانا واقعی تعجب خیز امر ہے۔گرچہ 11/ نومبر کی تاریخ کو سرکاری ریکارڈ میں معتبر ماناجاتاہے لیکن اتنی عظیم شخصیت، بھارت کے اتنے عظیم سپوت کی حقیقی یوم پیدائش کی صحیح تاریخ کا اعلامیہ جاری کیاجائے تو یہ اس عظیم قومی رہنما کے لیے بہت بڑا خراج عقیدت ہوگا۔

تبصرے بند ہیں۔