مولاناا سلم شیخوپوری شہید ؒ

حامد محمود راجا

  مولانا اسلم شیخوپوری سے پہلا تعارف اُن کی کتاب ندائے منبرو محروب کے ذریعے ہوا۔ میرے چچا مولانا منظور احمد خطبہ جمعہ کی تیار ی میں اس کتاب سے مدد لیا کرتے تھے ۔ فارغ اوقات میں مجھے بھی موقع ملتا کہ کتاب کے مندرجات کو دیکھ سکوں ۔۔مختلف موضوعات پر لکھی گئیں تقاریر اپنی طرف توجہ کو مبذول کرواتیں۔بیس سال سے زیادہ کا عرصہ گزرنے کے باوجود ایک عنوان”مسٹر اور ملا“آج بھی ذہن کی تختی پر نقش ہے ۔کچھ وقت گزرا کہ مولانا اسلم شیخوپوری ’پکار‘کے عنوان سے کالم لکھنے لگے ۔ بہت سے دوسرے قارئین کی طرح میں بھی اُن کا کالم دلچسپی سے پڑھا کرتاتھا۔ لیکن اِس وقت تک میرا اُن سے تعلق ’ون وے‘یکطرفہ تھا۔

 دوطرفہ تعلق کاآغاز اس وقت ہوا جب مولانا احمد یار لاہوری کے زیر ادارت ماہنامہ مطالعہ قراٰن کا اجراءہوا۔مطالعہ قراٰن کی افتتاحی تقریب قذافی اسٹیڈیم لاہورکے سامنے ایک میرج ہال میں ہوئی جس کے مہمان خصوصی مفتی محمد تقی عثمانی مد ظلہ تھے ۔ اس کے بعد دیگر علماءجنہوں نے مطالعہ قراٰن کی ترقی میں کردار ادا کیا ان میں مولانا زاہد الراشدی،مولانا الیاس گھمن اور مولانا اسلم شیخوپوری کے نام نمایاں ہیں۔مولانا اسلم شیخوپوری لاہور تشریف لاتے تو ہماری ٹیم کی اُن کے ساتھ لمبی بیٹھکیں جمتیں۔حاضرین مجلس اپنی علمی پیاس بجھاتے اور مولانا اپنے مخصوص دھیمے لہجے میں مسلسل گفتگو کرتے رہتے ۔

یہ وہی دورانیہ تھا جب مولانا شیخوپوری اپنی تفسیر ’تسہیل البیان ‘ پر کام کررہے تھے اور اس تفسیر کی ایک کے بعد دوسری جلد اہل علم تک پہنچ رہی تھی۔ ہم نے بھی تسہیل البیان کو پڑھنے کا شوق ظاہر کیا تو انہوں نے اپنا وزٹنگ کارڈ نکالا اور اُ سکی پشت پراردو بازار لاہور کے ایک کتب خانے کے ناظم کے نام پیغام لکھ بھیجا کہ حامل کارڈ کو تسہیل البیان کے چھ نسخے دے دیے جائیں اور اُن کی قیمت بل میں سے منہا کر لی جائے ۔ مولانا احمد یار لاہوری نے یہ کارڈ میرے حوالے کردیا کہ آپ مکتبہ سے جاکر نسخے وصول کرلیں ۔میری سستی سمجھی جائے یا خوش قسمتی کہ میں نے مکتبہ سے وہ کتب وصول نہ کیں اور اس طرح وہ کارڈ اب تک میرے پاس محفوظ ہے ۔ظاہر ہے کہ اگر میں کتابیں وصول کرنے جاتا تو ناظم مکتبہ مجھ سے یہ کارڈ لے کر اپنے پاس رکھ لیتا ۔

الحمرا ہال لاہور میں فہم قراٰن کورس سے فراغت حاصل کرنے والے طلبہ کے اعزاز میں ایک تقریب کا انعقاد کیاگیا تھا۔مولانا اسلم شیخوپوری اس تقریب میں شرکت کے لیے بالخصوص کراچی سے تشریف لائے تھے ۔مولانا گاڑی سے اترے تو میں نے خادم سے کہا کہ وہیل چیئر میرے حوالے کردیں چنانچہ میں اُن کو نشست گاہ تک چھوڑ کر تواضع کیلیے کچھ لینے چلا گیا۔گرمی کا موسم تھا اس لیے میں نے ٹھنڈے جوس کا انتخاب کیا اور مولانا کی خدمت میں پیش کردیا ۔ایک معروف نعت خوان نے جب مولانا کے ہاتھ میں جوس دیکھا تو اُن کواپنے گلاس کا پانی پھیکا محسوس ہونے لگا ۔کچھ ہی لمحے بعد اُن صاحب نے اپنا گلاس میری طرف بڑھا دیا اور کہنے لگے یہ ٹھنڈا نہیں ،کوئی اور ٹھنڈا مشروب لے آئیں ،میں نے خدمت پر موجود ایک طالب علم کو گلاس لے جانے کا کہہ دیا۔کچھ دیر بعد اُن صاحب نے بڑے اکھڑ لہجے میں پھر کسی’ ٹھنڈے مشروب ‘ کا تقاضا کیا جسے میں نے نظرانداز کردیا۔ لیکن جب تیسری دفعہ انہوں نے اور بھی زیادہ ترش لہجے میں اپنی بات دہرائی تو میرا پیمانہ صبر بھی لبریزہو گیا اور میں نے آداب مجلس اور مہمان نوازی کے اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے تیکھے لہجے میں جواب دیا’جناب! میں مولانا کی خدمت اپنی سعادت سمجھ کر کر رہاہوں اور میں کوئی ویٹر نہیں ہوں‘۔مجھے آج تک اپنے اس تیکھے مکالمے کا افسوس ہے ۔ اس وجہ سے نہیں کہ میں اُن صاحب کے ساتھ بد اخلاقی کے ساتھ پیش آیا تھا بلکہ اس وجہ سے کہ اس نوک جھونک کے بعد مولانا اسلم شیخوپوری نے اپنا مشروب اُن صاحب کے حوالے کردیا۔

مولانا ہمیشہ ایک مربی اور معلم کی طرح حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے ۔ میری ایک بے ربط تحریر مولانا کی نظروں سے گزری ۔انہوں نے اپنے تاثرات پر مبنی مراسلہ بھیجا ۔افسوس کہ اُن کے ہاتھ کا لکھا ہوا اصل مراسلہ محفوظ نہ رہ سکا ۔کمپوز شدہ الفاظ کا منتخب حصہ حسب ذیل ہے :’تازہ شمارہ ملا،مضامین کا انتخاب خوب تھا،مطالعہ قراٰن کا ایک سالہ سفر نے بالخصوص متاثر کیا،اللہ تعالیٰ تحریر میں مزید برکت عطا فرمائیں۔

تبصرے بند ہیں۔