مولاناعبد الوہاب خلجی: ایک ستـارہ جـو ماہتـاب ھوا

ڈاکٹر محمد اسلم مبارک پوری

یہ ۱۹۹۲ ء کی بات ہے جب مجھے عالم اسلام کی عظیم درس گاہ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں داخلے کا اِشعار (اطلاع نامہ) ملا۔ میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ میں اسے الفاظ کے جامہ میں اتار نے سے قاصر ہوں۔ ہم سب اور اعزہ واقرباء نے اللہ رب العالمین کا بہت بہت شکر ادا کیا اور اب مجھے دیگر کارروائیوں کی تکمیل کے لیے دہلی جانا ناگزیر تھا۔ اس سے پہلے میں نے اپنے گاؤں ’’حسین آباد ‘‘کو چھوڑ کردور نزدیک کہیں کا سفر نہیں کیا تھا، اس لیے دلی کا سفر میرے لیے غیر مانوس ہونے کے ساتھ ساتھ میرا د ل خوف ووحشت کی ملی جلی عجیب کیفیت سے زیرو زبر ہو رہا تھا، مگر ایک گونہ تسلی یہ تھی کہ میرے پھوپھا زاد بھائی محترم اجمل رحمانی مبارک پوری کو بھی داخلہ کی ضروری کارروائیوں کے دہلی سفر کرنا ضروری ہو گا۔ اللہ کے فضل وکرم سے اسی سال ان کا بھی داخلہ ہوا تھااوردہلی سفر کے لیے انہیں والد محترم حضرت مولانا عبد الرحمن صاحب رحمانی حفظہ اللہ کی معیت حاصل ہو گی۔ میں بھی انہی کے ہمراہ رخت سفر باندھ لوں گااور ایسا ہی ہوا۔ الغرض یہ سہ نفری قافلہ دہلی کے لیے عازم سفر ہوا۔ جہاں تک یاد آرہا ہے کہ ہماری ٹرین بنارس سے تھی، کیونکہ اس وقت اعظم گڑھ کے راستے سے دہلی کے لیے کوئی ٹرین نہ تھی۔ لازماً بنارس ہو ہی کر سفر کرنا پڑتا تھا۔ سفر سفر ہوتا ہے۔ حدیث میں اسے عذاب کے ایک ٹکڑے سے تعبیر کیا گیا ہے۔

ویسے فی زماننا سفر کی جو سہولتیں اور آسانیاں میسر ہیں اس زمانہ میں نہ تھیں۔ بنارس سے دہلی کے لیے کم وبیش ایک دن لگ جایا کرتا تھا، حالانکہ یہ دوری آج چند گھنٹوں میں محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ خیر ہم لوگ تھکے ماندے کسی طرح دہلی پہنچے۔ اسٹیشن سے اتر کر اہل حدیث منزل کا قصد کیااور آٹو کے ذریعہ اردو بازار جامع مسجد میں واقع اہل حدیث منزل پہنچے۔ وہاں پہنچ کر سکون واطمینان کی سانس لی۔ نہا دھو کر اور ناشتہ سے فارغ ہو کر فارغ ہوئے تو اپنے ضروری کام میں لگ گئے۔ مرکزی جمعیت اہل حدیث میں ان چند طلبہ سے بھی ملاقات ہوئی جس کا جامعہ اسلامیہ میں داخلہ ہوا تھااور ضروری کارروائیوں کے لیے دہلی قدم رنجہ ہوئے تھے۔ جب کام دھام سے کچھ فرصت ملی تومولانا عبد الرحمن صاحب رحمانی حفظہ اللہ نے ناظم اعلی مولانا عبد الوہاب صاحب مدنی (رحمہ اللہ)سے ملاقات کرائی۔ غالبا اس وقت رحمانی صاحب مرکزی جمعیت اہل حدیث سے وابستہ ہو چکے تھے۔ ویسے بھی شیخ الحدیث رحمہ اللہ کے فرزند ہونے کی حیثیت سے علمی اور جماعتی حلقوں میں متعارف تھے۔ محترم ناظم اعلی صاحب سے ملاقات ہوئی۔ سلام مسنون ہوااور احوال وکوائف کا تبادلہ ہوا۔ آنے کا مقصد پوچھا تو مولانا رحمانی حفظہ اللہ نے ہم دونوں کا تعارف کرایا اور اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان دونوں کا داخلہ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں ہو گیا ہے انہی کی ضروری کارروائیوں کے لیے آنا ہوا ہے۔ ناظم اعلی صاحب نے دعاؤوں سے نوازا اور محنت سے تعلیم حاصل کرنے کی نصیحت کی۔ چونکہ ہم لوگوں کی آپ سے پہلی ملاقات تھی اس لیے گفتگو کم اور خاموش رہنے میں عافیت سمجھی، مگر مولانا رحمانی صاحب سے ناظم اعلی خلجی صاحب بڑے پر تپاک اور والہانہ انداز میں ملے۔ اس انداز سے اندازہ ہوا کہ آپ سے قدیم شناسائی ہے۔

جس وقت ہم لوگ خلجی صاحب سے ملاقات کے لیے ان کی آفس میں جو مرکزی دروازہ سے داخل ہوتے وقت بالکل سامنے اور مسجد کے بائیں طرف واقع تھی، داخل ہوئے تو آپ مصروف عمل تھے۔ لمبے تمبے اوردراز قد تھے۔ پنجابی سوٹ زیب تن کیے ہوئے تھے۔ اس کے اوپر صدری تھی۔ رنگ گورا اور صباحت لیے ہوئے تھا۔ خو ب صورت اور وجیہ چہرہ اورچہرے پر سادگی لیے ہوئے دل نواز مسکراہٹ، متانت وسنجیدگی، صداقت ومروت کا خوگراور نور ونکہت سے معمور کشادہ پیشانی، پیشانی پرذہانت وتحمل اورتدبر وتفکر کی نشانی، گفتگو میں بذلہ سنجی، کلام میں نرمی، مزاج میں شگفتگی، آنکھوں میں تمکن اورحسین وقار، کاروان صداقت کا قافلہ سالار، رفعت وبلندی سے مزین شخصیت اور عظمتوں کا عنوان، ہر مجلس میں میر کارواں ، مرکزی جمعیت اہل حدیث کے ناظم اعلی، جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے فارغ التحصیل۔ یہ ہے قائد ملت جناب مولانا عبد الوہاب خلجی رحمہ اللہ کا حلیہ اور اوصاف۔

مولانا عبد الوہاب صاحب خلجی رحمہ اللہ تعالی ایک مشہور ومعروف اور ہمہ جہت شخصیت تھی۔ آپ ہمہ جہت شخصیت کے ساتھ ہمہ گیر شخصیت کے بھی مالک تھے۔ آپ کا شمار جماعت اہل حدیث کے انتہائی سرگرم اور فعال قائدین کے ساتھ ساتھ شہر وریاست سے اوپر اٹھ کر ملک وقوم کے جید اور حذاق علماء میں ہوتا ہے۔ مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے پلیٹ فارم سے ایک لمبی مدت تک علمی، اصلاحی، تحقیقی، صحافتی، ملی، قومی اور انسانی خدمات انجام دی۔ اپنی اعلی اور کشادہ ظرفی، بلند اخلاق وکردار اور متنوع خدمات کی وجہ سے خاص وعام میں کافی مقبول اور ہر دل عزیزتھے۔ آپ نیک طینت، پر وقار، وضع دار، روشن خیال، خوش گو، انصاف پسند، فرض شناس، وسیع نظر، نیک خو اور زندہ دل انسان تھے۔ طبیعت میں ملنساری، انکساری، عاجزی، مستعدی، مہمان نوازی اور حاجت روائی بھری پڑی ہے۔ آپ کی شخصیت غیر معمولی جرأت، بے خوفی اورحد درجہ استقامت سے مزین اور بلند حوصلہ اور سخت محنت سے معنون تھی۔ جس کام کو ٹھان لیتے تھے اس میں پورے انہماک اورتوجہ کے ساتھ مشغول ہو جاتے تھے۔ ان کے متنوع کارنا موں اور مختلف سرگرمیوں کااحاطہ تو اس خاکسارکے لیے نا ممکن ہے۔ آپ کا دائرہ عمل وسیع اور مختلف گوشوں پر محیط ہے۔ آپ کی زندگی کا مقصددین وایمان اور مذہب سلف کی اشاعت اورمسلک اہل حدیث کا فروغ ہے۔ تعلیمی میدان میں سلفی منہج فکر اور نظر یات کے حامل تھے، جن کا اپنی تحریر وتقریر میں بر ملا اظہار کیا کرتے تھے۔ اسلامی شناخت اور دینی شعائر کے محافظ اور امین تھے۔ آپ اس دور میں سیاسی، تعلیمی، مذہبی اور ہر قسم کے علمی، قومی اور ملی مسائل میں نمایاں حصہ لیتے نظر آتے ہیں ۔ نوجوانوں میں تعلیمی اور سیاسی بیداری پیدا کرنے کے لیے ہمیشہ کوشاں رہتے تھے اور وقتا فوقتا جلسوں اور میٹنگوں کا انعقاد کرتے رہتے تھے۔

آپ گوناگوں خصوصیات کے حامل تھے۔ ایک اہم خصو صیت یہ تھی کہ آپ کی ذات جمود وتعطل، مسلکی رواداری، اور نسلی تعصب سے پاک تھی۔ ہر مسلک ومکتب کا احترام اور ان کی قابل قبول چیزوں کا کھلے دل سے اعتراف کرتے تھے۔ آپ مسلمانوں کے مختلف مسالک اور طبقات میں اتحاد اور یک جہتی پیدا کرنے کے لیے سر گرم رہے۔ نیز برادران وطن سے دوری اور بدگمانی کو ختم کرنے کے لیے آپ کی سرگرمیاں قابل ذکر ہیں ۔ خلجی صاحب کے عہد نظامت میں جب حکومت کی طرف سے ندوۃ العلماء لکھنو پر تعدی اور ظلم ہوا تو آپ تلملا اٹھے۔ افسردگی اوررنج وغم کے آثار آپ کے چہرے پر نظر آرہے تھے۔ آپ نے ندوہ العلماء کا بھرپور دفاع کیا اور اس کے شانہ بشانہ قدم سے قدم ملا کر کھڑے رہے اگر چہ آج اکابرین ندوہ جماعت اہل حدیث سے بیزاری کا راگ الاپ رہے ہیں ، حالانکہ مدیر تجلی مولانا عامر عثمانی صاحب لکھتے ہیں : ’’ہم بر ملا کہتے ہیں کہ ہمارے نزدیک اہل حدیث کی جماعت یقینا اہل حق کی جماعت ہے ‘‘۔ دیکھیں : جریدہ ترجمان دہلی، یکم جنوری ۱۹۶۳ء (ص: ۱۱)

مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند بھی آپ کی لازوال خدمات کو کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔ آپ نے سترہ(۱۷) سال تک اپنے خون جگر سے اس کی آبیاری کی۔ جامعہ اسلامیہ مدینہ سے فراغت کے بعد ہی جماعت سے وابستہ ہو گئے اور مولانا عبد الوحید صاحب سلفی کے دور امارت میں جب کہ مولانا عبد السلام صاحب رحمانی ناظم اعلی کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دے رہے تھے، خلجی صاحب نائب ناظم کے عہدہ پرمنتخب کیے گئے۔ ۱۹۸۷ء سے ۱۹۹۰ء تک قائم مقام ناظم اعلی کی ذمہ داریوں کو سنبھالتے رہے۔

۲۷/مئی۱۹۹۰ء سے ۱۴/اکتوبر ۲۰۰۱ ء تک ناظم اعلی کی حیثیت سے جماعت وجمعیت کی خدمت کی اور اپنے زمانہ نظامت میں جماعت اہل حدیث کو دنیا بھر میں متعارف کرایا۔ اعیان اہل حدیث سے خط وکتابت کی۔ اندرون اور بیرون ملک کا دعوتی دورہ کیا۔ علماء سے رابطہ کیا۔ ان سے صلاح ومشورہ کیااور مرکزی جمعیت کو ارتقاء اور بلندی تک لے جانے کی سعی کی۔ آپ کے دور نظامت میں متعددا ہم اجلاس، کانفرنسیں اور مسابقے ہوئے، جن میں حرمت حرمین کنو نشن، کل ہند مسابقہ حفظ قرآن کریم اورکل ہند مسابقہ حفظ حدیث جیسے اہم دینی اور علمی پروگرام قابل ذکر ہیں ۔ ان پروگروموں میں ملک اور بیرون ملک کی مقتدر اور عبقری شخصیتوں نے شرکت کی اور اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ حالات حاضرہ پر علماء اہل حدیث کانفرنس منعقد کی اور اس موقع پر علماء اہل حدیث کی خدمات پر مشتمل ایک یادگاری اور گراں قدر دستاویز بنام ’’نقش فکرو عمل‘‘ شائع کیا۔ آپ کے زمانہ میں دعوت وتبلیغ کا شعبہ نہایت سرگرم رہا۔ مسلک اہل حدیث کی ترویج اشاعت کے لیے دعاۃ مقرر کیا جو قریہ قریہ، گاؤں گاؤں جا کرتوحید کی دعوت دیتے اور اسلامی تعلیمات اور دین کے احکام ومسائل کی تبلیغ کرتے۔ علاوہ ازیں جریدہ ترجمان جو پہلے سے ہر پندرہویں دن شائع ہو ہی رہا تھا آپ نے ’’ ہفت روزہ‘‘ کیا اور اسے خوب سے خوب تر بنانے میں متعدد اصلاحات کیں ۔ خود بھی لکھا اور دوسروں کو لکھنے کی ترغیب دی۔ ان اصلاحات کے بعد آپ نے سماج کی اصلاح کے لیے قدم بڑھایااوراسلامی تعلیمات کی تبلیغ واشاعت کے لیے ہندی زبان میں ’’ اصلاح سماج ‘‘نامی رسالہ جاری کیا، جو آج بھی کامیابیوں کے ساتھ جاری ہے اور آپ کے لیے صدقہ جاریہ بنا ہوا ہے۔

آپ ملک کی دیگر اسلامی اداروں اور تنظیموں سے وابستہ رہے۔ آل انڈیا ملی کونسل کے بانیوں میں سے تھے اور اس کے معاون سکریٹری اور بعد میں نائب صدررہے۔ ملک ہندوستان کے علاوہ دیگر ممالک کی سلفی جماعتوں اور جمعیتوں (مثلا سری لنکا اور لندن) سے بھی اچھی وابستگی رہی۔ عالمی اسلامی کونسل لندن کی مجلس عاملہ، کل ہند مسلم مجلس مشاورت کے رکن اور تا وفات آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈکے سر گرم ممبر رہے۔ اس کے پروگراموں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے آپ کی کوششوں کو بورڈ کے ذمہ داران نے وقعت اور قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ آپ کی خاطر خواہ عزت کی۔ آپ ہی کی تجویزاور مشورہ سے مولانا عبد اللہ سعودصاحب سلفی، ناظم اعلی جامعہ سلفیہ بنارس کو مسلم پرسنل لا بوڑد کا ممبر بنایا گیا۔ جماعت اہل حدیث کی مرکزی درس گاہ اور تعلیم وتربیت کا حسین گہوارہ جامعہ سلفیہ (مرکزی دارالعلوم)بنارس کے بھی ممبر رہے اور اس کی میٹنگوں میں شرکت کرکے جامعہ کی تعمیر وترقی میں اپنا گراں قدر تعاون پیش کرنے کو اپنا فرض سمجھتے تھے۔

ماہ جنوری ۱۹۵۶ میں مالیر کوٹلہ (پنجاب)میں پیدا ہونے والی یہ عظیم اور عبقری شخصیت مالیر کوٹلہ میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد۱۹۷۰ء میں اعلی تعلیم کے لیے مدرسہ سبل السلام پھاٹک حبش خان دہلی میں داخلہ لیا۔ یہاں مولانا عبد الصمد رحمانی(جوجامع معقول ومنقول مولانا نذیر احمد رحمانی املوی کے خوشہ چین تھے) مولانا فضل الرحمن بن رحم اللہ اور منصور کھنڈیلوی رحمہم اللہ کی مسند درس بچھی ہوئی تھی۔ آپ نے ان کے سامنے زانوے تلمذ تہہ کیا اور کچھ عرصہ تک رہ کر علم وعرفان کے موتی اخذ کرتے رہے۔ پھرجامعہ رحمانیہ مدن پورہ بنارس میں جہابذہ علم وفن سے خوشہ چینی کی۔ جامعہ رحمانیہ بنارس میں جن علمائے کرام سے کسب فیض کیا ان میں مولانا عزیز احمد ندوی، مولانا عبد السلام رحمانی، مولانا امر اللہ رحمانی اور مولانا قرۃ العین فائق مبارک پوری رحمہم اللہ تعالی کے اسماء گرامی قابل ذکر ہیں ۔ بعدازاں عالم اسلام کی عظیم الشان دانش گاہ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کی شاخ دارالحدیث میں داخلہ کے لیے آرزو مند ہوئے۔ یہ خواب بھی شرمندہ تعبیر ہوا اور مولانا عبد الغفار حسن رحمانی رحمہ اللہ کی کوششوں سے داخلہ مل گیا۔ اس کے بعد جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں داخل درس ہوکر سند فراغت حاصل کی۔ یہاں آپ کا داخلہ کلیۃ الدعوہ واصول الدین میں ہوا۔ چار سال اساطین علم اور جہابذہ فن علماء سے کسب فیض کیا جن میں شیخ عمر محمد فلاتہ اور شیخ عبد الصمد الکاتب مشہور ہیں ۔ فراغت کے بعد قوم وملت اور جماعت وجمعیت کی کی خدمت میں لگ گئے اور ایک مدت تک خدمت کرتے رہے۔ ۱۳/ اپریل ۲۰۱۸ء بروز جمعہ اس دار فانی کو الوداع کہا۔ آپ کے انتقال سے نہ صرف جماعت اہل حدیث بلکہ پوری قوم وملت ایک فعال اور متحرک قائد سے محروم ہو گئی۔

اللہ تعالی نے آپ کو جن گوناگوں خصوصیات سے نوازا تھا، ان میں فصاحت وبلاغت کے ساتھ عربی بولنے اور لکھنے کی مہارت تھی۔ مضمون نگاری اور تجزیہ نگاری میں دستگاہ اورقدرت تھی۔ الدارالعلمیہ کی سرپرستی تھی۔ تقریر کی صلاحیت تھی۔ خطابت میں سحر انگیزی تھی۔ الغرض خلجی صاحب کی زندگانی کے اور بھی درخشاں پہلو ہیں ۔ سب کااحاطہ اس مختصر مضمون میں تومشکل ہے۔ ’’نورتوحید‘‘ کے ان خصوصی صفحات میں ان کا ذکر جا بجا ملے گااور عمدہ انداز میں ملے گا۔ ہم اللہ سبحانہ وتعالی سے دست بدعا ہیں کہ ان کی لغزشوں کو معاف فرمائے اور کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے، آمین۔

تبصرے بند ہیں۔