مولانا ابوالکلام آزاد منفرد اسلوب تحریر کے حامل ایک بہترین ادیب

سفینہ عرفات فاطمہ

وقت‘ ایک ایسی کتاب ہے جس کے اوراق اتنی سرعت سے پلٹتے جاتے ہیں کہ انسان سوچتا ہی رہ جاتا ہے اور زندگی کی برف پگھل کر سانسوں کی حدتیں چھین لیتی ہے۔ ایک عام انسان اپنے ایک کردار ہی میں الجھا رہتا ہے‘ وہ کچھ کرنا بھی چاہے تو کبھی مسائل کے بھنور اس کے قدم روک لیتے ہیں تو کبھی حالات زنجیربن جاتے ہیں‘ کبھی وہ خواہشوں کا اسیر ہوتا ہے تو کبھی الجھنوں کا شکار۔ لیکن اس روئے زمین پر کچھ ایسے غیر معمولی انسان بھی جنم لیتے ہیں جو اسی مختصر اور مشکلوں سے گھری زندگی کا ساتھ نبھاتے ہوئے ‘بہ یک وقت مختلف کردار بڑی ہی خوش اسلوبی سے ادا کرکے عام انسانوں کو انگشت بہ دنداں کردیتے ہیں۔ اپنی بے پناہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے وہ ایک ہمہ گیر شخصیت کہلاتے ہیں۔ ایسی ہی ایک شخصیت کا نام ہے ۔۔۔مولانا ابوالکلام آزاد۔
مولانا ابوالکلام آزاد ایک عالم فاضل‘ مفسر‘ فلسفی‘ دانشور‘ مفکر‘ خطیب‘ مجاہد آزادی‘ سیاست داں‘ ماہر تعلیم کے علاوہ صحافی ‘ شاعر اور ایک بہترین ادیب بھی تھے۔ انہوں نے اردو نثر کو لطیف اور دلچسپ اسلوب عطا کیا‘ فصاحت وبلاغت ان کا خاصہ تھا۔ ان کے مخصوص اندازِ تحریر نے انہیں اردو کے بہترین انشاء پردازوں کی صف میں لاکھڑا کیا‘ ان کی تحریر میں ایک سحر ہوا کرتا تھا جو قاری کی توجہ کو اپنی جانب کھینچ لیتا تھا۔ خطوط پر مبنی ان کی تصنیف ’’غبار خاطر‘‘ اس کی بہترین مثال ہے۔
نہایت ہی کم عمری سے مولانا نے رسائل میں مضامین لکھنا شروع کردیا تھا۔ انہوں نے نیرنگ عالم‘ المصباح‘ لسان الصدق‘ الہلال اور البلاغ جیسے موقررسائل متعارف کروائے۔ انہیں مختلف رسائل میں مدیر یا نائب مدیر کی حیثیت بھی حاصل رہی۔
’’الہلال ‘‘ مولانا آزاد کی ذہنی صلاحیتوں کا مظہر تھا‘ اس میں مذہبی‘ ادبی‘ علمی‘ تاریخی اور سیاسی مضامین شائع ہوتے تھے۔غرض اس رسالے میں ذوقِ انسانی کی آسودگی کیلئے ہر سامان ہوا کرتا تھا۔ مولانا نے ’’الہلال‘‘ میں جو مضامین لکھے تھے‘ وہ ’’مقالات آزاد‘‘ کے نام سے دو جلدوں میں شائع ہوئے۔
لکھنؤ سے نوبت رائے نظر کی ادارت میں رسالہ ’’خدنگ نظر‘‘ شائع ہوا کرتا تھا‘ اس میں مولانا آزاد کی شعری اور نثری تخلیقات شائع ہوا کرتی تھیں۔ مذکورہ رسالے میں انہوں نے آثار قدیمہ پر سلسلہ وار مضامین لکھے‘ اسی رسالے میں ان کا ایک مضمون ’ایکس ریز‘ شائع ہوا‘ جس میں انہوں نے شعاعوں کی دریافت کا تاریخی پس منظر بیان کیا تھا۔ مولانا نے خدنگ نظر میں افغانستان پر ایک مضمون لکھا جو 1903ء میں شائع ہوا۔ اسی رسالے میں ایک مضمون ’’زمانۂ قدیم میں کبوتروں کی ڈاک‘‘ بھی لکھا۔ جنوری1903ء میں ’خدنگ نظر‘ میں مولانا نے نئے سال کی آمد پر ’’مبادلہ سنین‘‘ کے زیر عنوان ایک مضمون شائع کروایا‘ اس کا ایک اقتباس پیش ہے:
’’بار الہٰا! یہ نئی صورت کہاں سے وارد ہوئی؟ ابھی تو ہم اپنے گزشتہ مہمان ’1902ء‘ سے دل کھول کر نہیں ملنے پائے تھے‘ خیال تھا کہ اس کی رخصت اور دوسرے کی آمد میں 365 دن باقی ہیں مگر ابھی ہم خواب غفلت سے چوکنے بھی نہ پائے تھے کہ 365 دن ختم ہوگئے‘ اور یہ حضرت’1903ء‘ آموجود ہوئے!‘‘
مولانا کے طرز تحریر کی خصوصیت یہ ہے کہ جملے چاہے طویل ہوں‘ تسلسل اور توازن میں کوئی فرق نہیں آتا‘ عبارت میں ربط برقرار رہتا ہے۔ ان کی تحریر میں عربی اور فارسی کے الفاظ جابجا ملتے ہیں۔ علمی اور فلسفیانہ اصطلاحات کی آمیزش سے جو ادبیت جنم لیتی ہے وہ عبارت کو دلکشی اور موضوع کو بلندی عطا کرتی ہے۔ ان کی تحریر میں تشبیہہ اور استعارے اس برجستگی کے ساتھ وارد ہوتے ہیں کہ مضمون کی شگفتگی بڑھ جاتی ہے۔
مولانا آزاد اپنے اندازِ تحریر کی دلکشی کے ذریعہ مفاہم کو نہایت سہل طریقے سے ذہن نشین کرادیتے تھے‘ اور جب انفرادی اور روزمرہ کے امور کو عالم گیر اصولوں سے منسلک کرنے کی مساعی کرتے تو نہ صرف مضمون کی سطح بلند ہوتی بلکہ ذہنی صلاحیتوں کو بیداری کا موقع فراہم ہوتا اور نثر میں معنویت اور گہرائی پیدا ہو جاتی۔ مولانا کی تحریروں میں جوش وولولہ اور پیغام عمل ملتا ہے ‘ ان کے مضامین پڑھ کر انسان مایویسیوں کے سپرد نہیں ہوجاتا‘ مصائب اور مسائل کے باوجود بھی عمل اور کامیابی کی جانب قدم بڑھانے کا اسے پیام ملتا ہے۔ وہ اپنی پر اثر تحریروں سے تغافل آمیز سکوت کا دامن چاک کیا کرتے تھے۔ ان کی تحریروں میں موجود زندگی کی حرارت ان کی امتیازی خصوصیت اور انفرادیت کی غماز ہے۔ ان کی تحریریں گہری فکر‘ آگہی‘ شعور و بصیرت کی آئینہ دار ہیں۔
مولانا آزاد نے بے شمار عملی‘ ادبی‘ مذہبی‘ تہذیبی اور سیاسی موضوعات پر نہایت پرمغز مقالے تحریر کئے۔ تسلط اور جبرکے خلاف آواز بلند کرنے کی دعوت دی‘ اور جمود کی شکار قوم کو اپنی تحریروں کے ذریعہ متحرک کیا۔ ’الہلال‘ سے ایک اقتباس ملاخطہ ہو۔
’’اے کاش مجھے وہ صورِ قیامت ملتا جس کو میں لے کر پہاڑوں کی بلند چوٹیوں پر چڑھ جاتا‘ اس کی ایک صدائے رعد‘ آسائے غفلت شکن سے سرگشتگان‘ خوان ذات ورسوائی کو بیدار کرتا اور چیخ چیخ کر پکارتا کہ اٹھو کیوں کہ بہت سوچکے اور بیدار ہو کیوں کہ اب تمہارا خدا تمہیں بیدار کرنا چاہتا ہے‘ پھر تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ دنیا کو دیکھتے ہو پر اس کی نہیں سنتے جو تمہیں موت کی جگہ حیات‘ زوال کی جگہ عروج اور ذلت کی جگہ عزت بخشتا ہے۔ ‘‘( الہلال ‘ 13؍جولائی 1912ء)
’غبار خاطر‘ مولانا آزاد کے خطوط کا مجموعہ ہے‘ لیکن ان خطوط کو انشایئے کہا جاسکتا ہے۔ ان انشائیوں میں انسان کی جمالیاتی حس کی تسکین کا سامان موجود ہے۔ اس میں موسموں کی دلکشی کا ذکر بھی ہے‘ پھولوں کی لطافتوں کا تذکرہ بھی ‘ کہیں بلبل کے ترنم کا حوالہ تو کہیں چاند ستاروں کی باتیں‘ کہیں وادئ کشمیر میں بہار کی آمد کی دلکش منظرکشی تو کہیں صبح وشام کا توصیفی بیان۔ کہیں بچوں اور غباروں پر تبصرہ تو کہیں عرب کے کسی فلسفی کا ذکر ۔ غبارِ خاطر میں عربی کے علاوہ فارسی اشعار کی کثرت ملے گی۔
’’غبار خاطر‘‘ کے ایک خط میں مولانا آزاد نے لکھا ہے:
’’زندگی بغیر کسی مقصد کے بسر نہیں کی جاسکتی‘ کوئی اٹکاؤ‘ کوئی لگاؤ‘ کوئی بندھن ہونا چاہئے‘ جس کی خاطر زندگی کے دن کاٹے جاسکیں‘ یہ مقصد مختلف طبیعتوں کے سامنے مختلف شکلوں میں آتا ہے۔‘‘
ایک اور جگہ انہوں نے لکھا ہے:
’’کوئی اپنا دامن پھولوں سے بھرنا چاہتا ہے کوئی کانٹوں سے ‘ اور دونوں میں سے کوئی بھی پسند نہیں کرے گا کہ تہی دامن رہے‘ جب لوگ کامجوئیوں اور خوش وقتیوں کے پھول چن رہے تھے‘ توہمارے حصے میں تمناؤں اور حسرتوں کے کانٹے آئے۔ انہوں نے پھول چن لئے اور کانٹے چھوڑ دیئے‘ ہم نے کانٹے چن لے اور پھول چھوڑ دیئے۔ ( غبارِ خاطر)
مولانا آزاد نے حضرت شیخ جنید بغدادیؒ کے ایک چور سے حسن سلوک کے واقعہ کو ’’ درسِ وفا‘‘ کے زیر عنوان بہت ہی حسین پیرائے میں قلم بند کیا ہے۔
وہ لکھتے ہیں:
’’انسان کی بے مہریوں کی طرح اس کی دلچسپیوں کا بھی کیسا عجیب حال ہے‘ وہ عجیب عجیب اور غیر معمولی باتیں دیکھ کر خوش ہوتا ہے‘ لیکن اس کی پرواہ نہیں کرتا کہ اس کی دلچسپی کا یہ تماشہ کیسی کیسی مصیبتوں اور شقاوتوں کی پیدائش کے بعد ظہور میں آسکا؟ اگر ایک چور دلیری کے ساتھ چوری کرتا ہے تو یہ اس کیلئے بڑی ہی دلچسپی کا واقعہ ہے۔ وہ اس کی صورت دیکھنے کیلئے بے قرار ہوجاتا ہے۔ وہ گھنٹوں اس پررائے زنی کرتا ہے‘ اور وہ تمام اخبارات خریدلیتا ہے‘ جن میں اس کی تصویر چھپی ہویا اس کا تذکرہ کیاگیا ہو‘ لیکن اس واقعہ میں چور کیلئے کیسی شقاوت ہے اور جس مسکین کا مال چوری ہوگیا ‘ اس کیلئے کیسی مصیبت ہے؟ یہ سوچنے کی وہ کبھی زحمت گوارہ نہیں کرتا!‘‘
حضرت جنید بغدادیؒ نے ایک چور پر اس کی خامیوں کونظر انداز کرتے ہوئے مہرومحبت اور شفقت کے پھول برسائے تو اس کے دل کی دنیا ہی بدل گئی‘ اس نے چوری ترک کردی اور نیکی کی راہ اپنائی۔
مولانا آزاد کی اس تحریر کا حسن دیکھئے:
’’اس کی ساری زندگی گناہ اور سیہ کاری میں بسر ہوئی۔ اس نے انسانوں کی نسبت جو کچھ دیکھا سنا تھا وہ یہی تھا کہ انسان خود غرضی کا پتلہ اور نفس پرستی کی مخلوق ہے ‘ وہ نفرت سے منہ پھیر لیتا ہے‘ بے رحمی سے ٹھکرادیتا ہے‘ سخت سے سخت سزائیں دیتا ہے۔ لیکن وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ محبت بھی کرتا ہے اور اس میں فیاضی‘ بخشش اور قربانی کی بھی روح ہوتی ہے‘ لیکن اب اچانک اس کے سامنے سے پردہ ہٹ گیا۔ آسمان کے سورج کی طرح محبت کا بھی ایک سورج ہے‘ جب یہ چمکتا ہے تو روح اور دل کی ساری تاریکیاں دور ہو جاتی ہیں۔ ابن ساباط کو چالیس سال تک دنیا کی دہشت انگیز سزائیں نہ بدل سکیں‘ مگر محبت اور قربانی کے ایک لمحے نے چور سے اہل اللہ بنادیا‘‘۔ (درسِ وفا)
ایک سے زیادہ زبانوں پر عبور‘ مطالعہ کی وسعت ‘ گہری فکر‘ تیز مشاہدے کی آمیزش سے وجود میں آنے والی مولانا ابوالکلام آزاد کی تحریروں کا حسن قاری کوسحر زدہ کردیتا ہے‘ ان کے انشائیوں کو اردو ادب کے شہہ پارے کہا جائے تو کچھ مبالغہ نہ ہوگا۔

تبصرے بند ہیں۔