مولانا ابوالکلام آزاد کا اسلوب بیان

ڈاکٹر جاوید اختر

مولانا ابوالکلام آزاد ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے۔ بہ یک وقت وہ ایک بلند خیال صحافی ایک اچھے عالم دین، ماہر تعلیم اور دور اندیش سیاست داں تھے۔ ساتھ ہی وہ اردو کے ایک عظیم نثار بھی تھے۔ اب تک ان پر بہت سارے مضامین اور مقالے لکھے جاچکے ہیں۔ ان کی حیات اور خدمات پر بہت سی کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ ان کا ادبی سرمایہ ان کی نثری تصانیف ہیں جو تبصروں، اداریوں، مقالوں، بیانوں، خطبوں اور کتابوں کی شکل میں موجود ہیں۔

مولانا آزاد کا ایک منفرد اسلوب تھا جن سے اردو کے ادیب متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ ان کے اسلوب نگارش کا پرتو ادیبوں کی ایک پوری نسل پر پڑا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ اسلوب بیان کو شخصیت کے اظہار کی ایک علامت سمجھا جاتا ہے۔ ایک محاورہ ہے کہ ہر شخص کا بولا اور لکھا ہوا ہر لفظ اس کی مخصوص شخصیت کا اشاریہ ہوتا ہے۔ یعنی کوزے سے وہی چیز ٹپکتی ہے جو اس کے اندر ہوتی ہے۔

مولانا ابوالکلام آزاد کا ایک مقصد ِحیات، ایک نظریہ، ایک نصب العین تھا جس کی تکمیل کے لیے انہوں نے اپنے آپ کو وقف کردیا تھا۔ اپنے پیغام کو وہ تقریر و تحریر، خطبے اور بیانات کے ذریعہ تمام لوگوں تک پہنچا دینا چاہتے تھے۔ ڈاکٹر عبدالمغنی کی یہ بات بہت حد تک درست ہے:

’’وہ باغی بھی تھے، انقلابی بھی، مصلح بھی مجاہد بھی۔ ان کے شعور و کردار میں ایک شان اجتہاد تھی۔ ۔ ۔ ۔ ایک عالم دین، مدبر اور سیاست داں کی حیثیت سے وہ حکومت کے ساتھ ساتھ سماج کا نقشہ بدل دینا چاہتے تھے۔ ‘‘(مولانا ابوالکلام آزاد کا اسلوب نگارش، ڈاکٹر عبدالمغنی، ایجوکیشنل بک ہائوس، علی گڑھ،  ۱۹۹۱ء، ص: ۳۱)

بیسویں صدی شروع ہونے سے پہلے ہی ہندوستانی معاشرہ ایک طرح سے منتشر ہوچکا تھا، غیر ملکیوں کی طاقت کا رعب و دبدبہ اتنا غالب ہوچکا تھا کہ حالات کے خلا ف جدو جہد کرنے کا حوصلہ باقی نہ رہ سکا تھا۔ نتیجے کے طور پر لوگوں کے اندر جمود کی کیفیت طاری ہونے لگی تھی۔ ایسے حالات اور ایسی فضا سے مولانا ابوالکلام آزاد پریشان تھے۔ ایسے ماحول کو بدلنے کے لئے ان کے اندر ایک آگ سی لگی ہوئی تھی۔ اس فضا کو بدل کر ایک نئی فضا قائم کرنے کے لیے انہوں نے تقریر و تحریر ور اقدام و عمل کے ہر ممکن وسیلے کو بروئے کار لانے کی جان توڑ کوشش کی۔ اپنے مقصد اور پیغام کے اظہار میں انہوں نے ابلاغ کے وہ سبھی طریقے استعمال کئے جن میں فصاحت کے ساتھ ساتھ بلاغت کے محاسن بھی تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ان کی نثر نے لوگوں کے دلوں پر اثر کیا۔ ان کے اندر نئے حوصلے پیدا کئے اور نئے جذبے ابھارے۔ مرزا اسد اللہ خاں غالب، سرسید احمد خاں، شبلی نعمانی اور الطاف حسین حالیؔ وغیرہ نے اردو ادب کو جس مقام تک پہنچایا تھا مولانا ابوالکلام آزاد نے اسے آگے بڑھایا۔

’’لسان الصدق‘‘ کے دور میں مولانا ابوالکلام آزاد کے طرزز تحریر میں جو سادگی اور بے تکلفی ہے وہ ’’الہلال‘‘ کے دور میں نہیں ہے لیکن ’’ترجمان القرآن ‘‘ اور ’’غبار خاطر‘‘ کا دور سلاست و نفاست کا ایک اعلیٰ نمونہ کہا جاسکتا ہے۔ یہی ان کا حقیقی اسلوب ہے۔

انیسویں صدی کے اواخر میں انہوں نے بہت سے اخبارات سے وابستہ ہوکر متنوع موضوعات پر مضامین لکھے۔ ۱۹۰۳ء میں کلکتہ سے ایک پندرہ روزہ ’’لسان الصدق‘‘ جاری کیا جن کے مطالعے کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ یہ ان کے اسلوب نگارش کا پہلا دور ہے جو سلیس، شستہ اور رواں ہے۔

’’ہندوستان کی تعلیم یافتہ جماعت کو ہمیشہ یہ الزام دیا جاتا ہے کہ وہ ولایت کی یونیورسٹیوں سے ڈگریاں حاصل کرکے، بجائے اس کے کہ اپنی ملکی زبان میں بھی ترقی کر کے اپنے جدید معلومات سے اسے فائدہ پہنچائیں، وہ اپنی ملکی زبان سے بھی متنفر ہوجاتے ہیں۔ حالانکہ ان کا غیر اقوام کی زبانوں سے اس قدر واقف ہونا اور اپنی ملکی اور مذہبی زبانوں سے غفلت کرنی، کبھی ان کو کامل تعلیم یافتہ اور مہذب نہیں ہونے دے گی۔ ‘‘(’’مضامین لسان الصدق‘‘ مرتبہ عبدالقوی دسنوی مطبوعہ نسیم بک ڈپو لکھنو، ۱۹۶۷ء)

۱۹۱۲ء میں کلکتہ ہی سے مولانا ابوالکلام آزاد نے ’’الہلال‘‘ نکالنا شروع کیا جو نہ صرف اردو زبان و ادب اور صحافت بلکہ سیاست، مذہب اور معاشرت کے لیے صور اسرافیل کی سی کیفیت لے کر نمودار ہوا۔ اسی سلسلے میں ایک نقاد نے کتنا درست فرمایا ہے کہ ’’الہلال‘‘ کی نثر کے جوش و خروش، منطق و استدلال اور دعوت و تبلیغ نے اردو داں معاشرے میں ایک زلزلہ سا ڈال دیا۔ اس کے طرز بیان کی خطابت نے قارئین کے رگ و پے میں بجلیاں دوڑا دیں۔ ایسی جاندار اور شاندار نثر اس سے پہلی کم ہی لکھی گئی تھی۔

مولانا ابولکلام آزاد کے اس اسلوب نگارش کو جہاں ایک طرف قرآن مجید کے حوالوں نے اعتبار بخشا وہیں دوسری طرف اشعار نے اس میں چاشنی اور دلکشی پیدا کی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ راقم کے دل کی آگ نے الفاظ کے شعلوں کو اس طرح ہوادی کہ پڑھنے والوں کے حوصلے بلند ہوئے اور کچھ کر گزرنے کے جذبات ابھرے:

’’غور کرو! ایک بے دست و پا اور مظلوم و محصور جماعت جس کے قلعے مسمار کیے جاچکے تھے، جس سے ہتھیار چھین لیے گئے تھے، جس کو تمام قوائے جنگ و دفاع سے ایک پر نوچے بکوتر کی طرح محروم کر دیا گیا تھا اور جس کے موجودہ مادی قویٰ کل کائنات اتنی تھی کہ چند عمارتوں کے لوہے سے بنائے ہوئے ہتھیار تھے یا عورتوں کے بالوں سے ہٹ کر تیار کئے ہوئے کمانوں کے چلے، مگر وہ دنیا کی عظیم الشان متمدن قوم اور رومیوں جیسی فاتح و مہیب فوج کو تین سال تک ایک انچ آگے بڑھنے نہیں دیتی۔۔۔‘‘  (قدیم ترین محاصرے اور مدافعت، ص:۱۱۱)

’’الہلال‘‘ کی زبان میں ایک طرف عربی اور فارسی کے الفاظ شامل ہیں تو دوسری طرف کھڑی بولی کی سادگی بھی ہے۔ ’’الہلال‘‘ کے بعد رانچی میں نظر بندی کے دوران انہوں نے ’’تذکرہ‘‘ تصنیف کیا۔ اس کی عبارت ’’الہلال‘‘ اور ’’البلاغ‘‘ کی زبان سے بھی زیادہ دقیق ہے:

’’پھولوں نے زبان کھولی، پتھروں نے اٹھ اٹھ کر اشارے کیے۔ خاک پامال نے اڑاڑ کر گہرافشانیاں کیں، آسمان کو بارہا اترنا پڑا تاکہ سوالوں کا جواب دیں۔ زمین کو کتنی ہی مرتبہ اچھالنا پڑا تاکہ فضائے آسمانی کے تارے توڑ لائیں۔ فرشتوں نے بازو تھامے کہ کہیں لغزش نہ ہوجائے، سورج چراغ لے کر آیا کہ کہیں ٹھوکر نہ لگ جائے۔ سب نے نقاب اتار دیئے، سارے پردے چھلنی ہوگئے۔ ‘‘(تذکرہ مولانا ابولکلام آزاد، مطبوعہ ساہتیہ اکادمی، نئی دہلی، ۱۹۶۸ء، ص: ۱۲۹)

بیسویں صدی کی دوسری دہائی کے بعد ان کا اسلوب و طرز نقطۂ عروج پر پہنچ گیا۔ ۱۹۲۲ء میں کلکتہ کی عدالت کے سامنے مولانا آزاد نے برطانوی حکومت کے ایک سیاسی باغی اور قیدی کی حیثیت سے جو مشہور تاریخی بیان دیا تھا وہ بعد میں ’’قول فیصل‘‘ کے نام سے چھپا۔ وقت کے تقاضے کے مطابق اس کی زبان زیادہ سلیس، عام فہم اور رواں دواں ہے۔

’’جو سزا دی جاسکتی ہے بلا تامل دے دو، میں یقین دلاتا ہوں کہ سزا کا حکم لکھتے ہوئے جس قدر جنبش تمہارے دل میں پیدا ہوگی اس کا عشر عشیر اضطراب بھی سزا بن کرمیرے دل کو نہ ہوگا، مجسٹریٹ ! اب اور زیادہ وقت کو رٹ کا نہ لوں گا۔ یہ تاریخ کا ایک دلچسپ اور عبرت انگیز باب ہے جس کی ترتیب میں ہم دونوں یکساں طور پر مشغول ہیں۔ ہمارے حصے میں یہ مجرموں کا کٹہرا ہے، تمہارے حصے میں وہ مجسٹریٹ کی کرسی، میں تسلیم کرتا ہوں کہ اس کام کے لیے وہ کرسی بھی اتنی ہی ضروری ہے جس قدر یہ کٹہرا۔ آئو اس یادگار اور افسانہ بننے والے کام کو جلد ختم کردیں۔ ‘‘(مولانا ابوالکلام آزاد، ذہن و کردار، ڈاکٹر عبدالمغنی، مطبوعہ انجمن ترقی اردو ہند، نئی دہلی، ۱۹۸۹ء، ص:۴۳)

’’ترجمان القرآن‘‘ ۱۹۳۱ء کی نثر ادبی اسلوب کی روایات میں ایک اضافہ ہے۔ مولانا آزاد نے اپنی پوری زندگی قرآن مجید کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کی۔ لہٰذا ان کی شخصیت کے اظہار کی ادا قرآن مجید کے مضامین کے ساتھ ساتھ اس کے طرز بیان سے بھی متاثر ہوئی:

’’ہر گروہ دوسرے گروہ کو جھٹلاتا ہے اور صرف اپنے ہی کو سچائی کا وارث سمجھتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس نزاع کا فیصلہ کیونکر ہو؟ اگر کوئی ایک گروہ ہی سچا ہے تو کیوں وہی سچا ہو، دوسرے سچے نہ ہوں ؟ اگر سب سچے ہیں تو پھر کوئی بھی سچا نہیں ؟ کیونکہ ہر گروہ دوسرے کو جھٹلارہا ہے۔ اگر سب جھوٹے ہیں تو پھر خدا کی سچائی گئی کہاں ؟‘‘  (’’ترجمان القرآن‘‘ جلد دوم، اشاعت ثانی، ۱۹۷۶ء، ص:۷۷)

ترجمان القرآن کی تصنیف کے بعد مولانا ابوالکلام آزاد کے طرز ادا کا ارتقا مکمل ہوگیا۔ اس کے بعد جو بھی تحریر آئی وہ اس ارتقا کا تسلسل ہے۔ ’’غبار خاطر‘‘ ۱۹۴۶ء کی زبان بھی وہی ہے جیسی ’’ترجمان القرآن‘‘ کی ہے۔ گرچہ اس میں شوخی ادا زیادہ نمایاں ہے اس لیے کہ یہ کلام اللہ کی ترجمان نہیں ہے۔

’’پانچ گرفتاریوں کی اگر مجموی مدت شمار کی جائے تو سات برس آٹھ مہینے سے زیادہ نہیں ہوگی۔ عمر کے پینتیس برس جو گزر چکے ہیں ان سے یہ مدت وضع کرتا ہوں تو ساتویں حصے کے قریب پڑتی ہے۔ گویا زندگی کے ہر سات دن میں ایک قید خانے کے اندر گزرا۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ہفتہ کا ساتواں دن تعطیل کا مقدس دن سمجھا جائے گا۔ ‘‘  (’’غبارِ خاطر‘‘ مولانا ابوالکلام آزاد۔ ساہتیہ اکادمی دہلی، ۱۹۸۳ء، ص:۳۴)

اس طرح مولانا ابوالکلام آزاد کا اپنا ایک مخصوص اور منفرد اسلوب ہے۔ ان کی نثر تخلیقی اوصاف بھی رکھتی ہے۔ ان کی تقریریں اور تحریریں اذبیت سے مملو ہیں۔ ان میں تشبیہ، استعارہ، کنایہ، ضرب المثل، محاورہ اور ظرافت سب کچھ ہے۔

مختصراً یہ کہ مولانا ابوالکلام آزاد اردو کے عظیم ترین نثاروں میں ایک ہیں۔ صاحب طرز ادیبوں کے درمیان ان کا مقام بہت اونچا ہے۔ ان کے اسلوب نگارش کا پرتو اردو ادیبوں کی ایک پوری نسل پر پڑ ا ہے۔ اردو نثر کے ارتقا میں ان کی نثر سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔

تبصرے بند ہیں۔