مولانا اسرارالحق قاسمی: صالح عالمِ دین اور مخلص رہنما

راحت علی صدیقی قاسمی

  رنگ گندمی سیاہی مائل، چہرہ گول، آنکھیں رعب و وجاہت کی علم بردار، چینیوں کی طرح بہت زیادہ چھوٹی تھیں، نہ پیالہ نما، دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا تھا، جیسے آنکھیں نہیں دیے ہیں، جن کی روشنی میں ہندوستانی مسلمانوں کا مستقبل نظر آتا تھا، پیشانی کشادہ، جو نیک بختی کی علامت سمجھی جاتی ہے، ماتھے پر عبدیت کا اظہار زیور کی طرح سجتا تھا، جو دور سے ہی نظر آتا تھااور مولانا کے چہرے پر اچٹتی ہوئی نظر بھی اس دلکش زیور کو دیکھ لیتی تھی اور دیکھنے والا اس برگزیدہ بندے کے تعلق مع اللہ کا قائل ہوجاتا تھا، گال تھوڑے تھوڑے ابھرے ہوئے تھے، جو آپ کے چہرے کو ایک خاص وضع عطا کرتے تھے، ڈاڑھی بالکل سفید اور چمکدار تھی، سر کے بال بھی مکمل طور پر سفید ہوچکے تھے، گفتگو کا مخصوص لب و لہجہ تھا،جس سے بات کرتے، وہ آپ کا اسیر ہوجاتا، خطابت میں ملکہ حاصل تھا، جب خطاب کرتے، تو مختلف رنگ آپ کی خطابت میں ابھرتے ہوئے دکھائی دیتے، زبان میں حلاوت و چاشنی تھی، جوش و جذبے میں تقریر کرتے، تو بھی لہجے میں کرختگی پیدا نہیں ہوتی تھی، ہندستانی مسلمانوں کے مسائل کو موضوع گفتگو بناتے،ان کے مشکلات و مصائب کے ازالہ کی تدابیر بیان کرتے، تعلیم کی اہمیت بخوبی سمجھتے اور لوگوں پر بھی اس کی وقعت عیاں کرنے کی حتی الامکان کوشش کرتے، عملاً اس میدان میں خاصے سرگرم تھے، جس اسٹیج پر قدم رکھتے، وہاں سے عوام کے قلوب فتح کرکے اور ان کا اعتماد حاصل کرکے واپس لوٹتے، وضع قطع میں سادگی تھی، سادہ سا کرتا اور کبھی کبھی ایک معمولی قسم کی صدری زیب تن کئے رہتے، نہ سر پر بڑا سا پگڑ ہوتا اورنہ چال سے ہم چنیں دیگرے کی نیست کی بو آتی تھی، مجسم سادگی تھے، ہاتھوں سے پائجامَہ اٹھا کر کیچڑ میں بھی داخل ہوجاتے تھے، ممبر پارلیمنٹ ہونے کے باوجود سیاسی بازیگروں جیسا طور طریق انہوں نے کبھی نہیں اپنایا، ہمیشہ عالمانہ وقار و وجاہت کو ملحوظ خاطر رکھا، جو انہیں انفرادیت عطا کرتا تھا، کسی جگہ جاتے، تو حفاظتی دستوں کا لاؤ لشکر نہیں ہوتا، گاڑیوں کا ہجوم نہیں ہوتا تھا،جن پروگراموں میں شرکت کرتے، جن لوگوں سے ملاقات کرتے، واپسی پر ہر شخص ان کا گرویدہ ہوتا، دوبارہ ان سے ملاقات کی خواہش قلب میں پیدا ہوتی، بندہ نے کئی مرتبہ ان کا خطاب سنا اور اس کا تاثر قلب پر محسوس کیا اور ہمیشہ تشنگی باقی رہی۔

 وہ دنیا سے بھی اسی طرح رخصت ہوئے کہ ہر شخص کو تشنہ چھوڑ گئے، کون تصور کرسکتا تھاکہ جو شخص رات بارہ بجے تک اپنے چہیتوں کے درمیان ہشاش وبشاش تھا، خطابت سے لوگوں کے قلوب کو تازگی بخش رہا تھا، صبح اس کا آخری دیدار ہوگا، یہ خطاب ان کا آخری خطاب ہوگا،اس کے بعد کبھی یہ آواز ہمارے کانوں میں نہیں گونجے گی، پھر سے ہمیں وہ امن کا داعی اور محبت کا پیامبر دکھائی نہیں دے گا،شاعر نے درست ہی کہا ہے:

زیست کا اعتبار کیا ہے میر

آدمی بلبلا ہے پانی کا

 مولانا اسرارالحق قاسمی 15 فروری42 19 کو پورنیہ کمشنری کے ایک چھوٹے سے گاؤں ٹپو کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے،جہاں ترقی کی وہ شاہراہیں نہیں تھیں، جو بڑے شہروں یا ان سے متصل علاقوں میں ہوتی ہیں اور نا ہی آپ کسی عظیم ترین گھرانے کے فرزند تھے کہ آبا واجداد کا مرہون سفر حیات بآسانی طے ہوجائے اور بہت معمولی محنت پروہ تمام تر آسائشیں مہیا ہوجائیں، جن کا حصول عام آدمی کے لیے آسان نہیں ہوتا، البتہ آپ کے والدین دین دار تھے، دینی تعلیم سے والہانہ تعلق اور لگاؤ رکھتے تھے، علماے دیوبند اور اکابرِ دیوبند کے عاشق تھے، اسی کا ثمرہ تھا کہ آپ کے لیے دینی تعلیم کا انتخاب ہوا،

آپ کا تعلیمی سفر اپنے گاؤں کے مکتب سے شروع ہوا، اس کے بعد یہ سفر آگے بڑھااور آپنے قریبی گاؤں میں ابتدائی عربی تعلیم حاصل کی، مشیت ایزدی نے طے کر لیا تھا کہ آپ اس خطے میں قید ہوکر نہیں رہیں گے اور آپ کو علمی میدان میں پختگی حاصل ہوگی، آپ کا فیض ملک گیر ہوگا ؛چنانچہ تعلیم کی تکمیل کے لیے اللہ تبارک و تعالی نے عالمی شہرت یافتہ ادارے دارالعلوم دیوبند کو آپ کی تعلیم گاہ کے طور پر منتخب کیا، آپ نے اس ادارے کی علمی فضا سے سات سال تک استفادہ کیا، فقہ، حدیث وتفسیر، منطق وفلسفہ، بلاغت وادب کے شناوروں کو دیکھا اور ان سے بھرپور استفادہ کیا، مولانا فخرالدین، مولانا فخرالحسن اور مولانا شریف الحسن، قاری طیب اور مولانا انظر شاہ جیسی عظیم شخصیات کے سامنے زانوئے تلمذ طے کیااور علمی صلاحیت پیدا کی،1964 میں آپنے دارالعلوم دیوبند سے سند فضیلت حاصل کی، اس کے بعد تدریس سے وابستہ ہوگئے،1966 میں درس و تدریس کا آغاز کیا اور محنت و خوش اسلوبی سے سات سال تک اس کار خیر میں مشغول رہے، اس درمیان آپ مدرسہ کے ناظم تعلیمات بھی رہے، جس سے آپ کی نظم و نسق کی صلاحیتیں مزید نکھر گئیں، اس درمیان جہاں آپ نے معلم و منتظم کے فرائض انجام دئیے وہیں آپ کا قلب انسانی ہمدردی سے بھی مملو رہا، جس کی بنا پر آپ سماجی خدمات انجام دینے میں مشغول رہے۔

 آپ نے انسانی ہمدردی ورواداری کے رشتہ کو بھرپور نبھایا، غریبوں، مفلسوں، کمزوروں، ناداروں کا تعاون کیا، مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کا علاج تلاش کرنے کی کوشش کی، پوری محنت، توجہ اور مشقت کے ساتھ ملت اسلامیہ کی فلاح وکامیابی کے لئے کوشاں رہے اور بیگوسرائے سیلاب متاثرین کے لئے آپ نے جو خدمات انجام دیں وہ مثالی ہیں، اور آپ انسانی ہمدردی کے جذبہ کو عیاں کرتی ہیں، کس طرح آپ نے لوگوں کی مشکلات کو حل کرنے کی کوشش کی، غلاظت صاف کرنے بھی پرہیز نہیں کیا، مولانا کی محنت و مشقت اور سماجی خدمات سے متاثر ہو کر مولانا اسعد مدنی نے انہیں جمیعت علماء ہند سے وابستہ ہونے کی دعوت دی، انہوں نے اس دعوت کو قبول کیا، اور جمعیت کے پلیٹ فارم سے عظیم ترین خدمات انجام دیں، آپ جمعیت علماء ہند سے 1973 میں وابستہ ہوئے، جمعیت میں آپ کے کارناموں کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہاں ناظم عمومی کے عہدہ سے سرفراز کئے گئے، 1992 میں آپ جمیعت سے علاحدہ ہوگئے اور اس کے بعد ملی کونسل کے رکن اساسی رہے، آپ نے مختلف اداروں کے تحت انسانی خدمات انجام دیں، آپ کی خدمت کا دائرہ پورے ملک کو محیط تھا، جہاں بھی آسمانی آفت آتی یا انسان جانور بن کر ملک کی صورت حال خراب کرتا، وہ اپنی بساط سے بڑھ کر تعاون کرتے تھے۔

مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی دور کرنے کے لیے انہوں نے 2000 میں آل انڈیا تعلیمی و ملی فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی، اور مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی دور کرنے کے لئے اسکول اور مدارس کا جال بچھایا، جس سے خاطر خواہ نتائج سامنے آئے اور خاص طور پر لڑکیوں کی تعلیم کا نظم کیا، جو اس خطے کے لئے بہت بڑی نعمت تھی اور اسی پر بس نہیں، مولانانے جہد مسلسل کے ذریعے کشن گنج میں ایم یو کا سینٹر قائم کرایا، جو کشن گنج کے باشندوں کے لئے نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں ہے۔

مولانا کی خدمات کا اندازہ لگانے کے اتنا کافی ہے کہ جب آپنے کانگریس کے ٹکٹ کر انتخابی میدان میں قدم رکھا، تو تاریخ ہماری نگاہوں کے سامنے تھی، اور یہ خیالات ہمارے ذہنوں میں تھے کہ ہندوستانی مسلمان علما کی وعظ ونصیحت پر چندہ تو دے سکتے ہیں، لیکن ووٹ دینا ممکن نہیں ہے اور اس کا ہم کئی انتخابات میں مشاہدہ کرچکے تھے، لیکن مولانا نے کامیابی حاصل کی، یہ بات ذہن میں آسکتی ہے کہ کانگریس کا اثر تھا، جس کو 2014 کے انتخاب نے جھٹلا دیا، مودی لہر، بدلاؤ کا انتخاب، بڑے بڑوں کے لئے اپنی سیٹ بچانا ٹیڑھی کھیر تھا، اس وقت مولانا اسرارالحق قاسمی نے واضح کامیابی حاصل کی اور عیاں ہوگیا کہ عوام اپنے سچے خادم کو کبھی نہیں بھلا سکتے، مولانا نے جو خدمات انجام دیں، وہ یقیناً ناقابلِ فراموش ہیں، وہ ایک عظیم الشان عالم دین، قلم کار، خادم قوم، سیاسی رہبر کی حیثیت سے اپنی شناخت قائم کرگئے، انہیں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

  بے انتہا مشغولیت اور کثیر اسفار کے باوجود آپ نے قلم کا سفر بھی جاری رکھا اور دینی علمی سیاسی و سماجی موضوعات پر امت کی رہنمائی کرتے رہے، اور دوٹوک اپنی بات رکھتے رہے، آپ کے مضامین کا مجموعہ ملت کے لئے گراں قدر سرمایہ ہوگا، مسلم پرسنل لا سے متعلق آپ کی کتاب بھی اہل علم کے درمیان سند حاصل کرچکی ہے اور اس موضوع پر بہت وقیع معلومات اپنے دامن میں رکھتی ہے،مولانا اسرارالحق نے عظیم خدمات انجام دیں اور مختلف جہات سے امت کو فائدہ پہنچایا، ان خدمات کے لئے وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے۔

تبصرے بند ہیں۔