مولانا اسرارالحق قاسمی کی حیات و خدمات پر کتاب کا اجرا

ممتاز عالم دین وقومی رہنمامولانا اسرارالحق قاسمی کی وفات پر آج غالب اکیڈمی میں مرکزی جمعیۃ علماکے زیر اہتمام ایک تعزیتی جلسے کا انعقاد کیاگیا، جس میں ملک بھر سے مختلف علمی، دینی، سیاسی و سماجی شخصیات نے شرکت اور انھوں نے مولانا کی بے مثال قومی و ملی خدمات کو خراج عقیدت پیش کیا۔

اس موقع پر اپنے صدارتی خطاب میں مدرسہ عبدالرب کے شیخ الحدیث اور آل انڈیاتعلیمی وملی فاؤنڈیشن کے نائب صدر مولانا افتخار حسین مدنی نے مولانا مرحوم سے اپنے دیرینہ روابط کاذکر کرتے ہوئے کہاکہ ان کی شخصیت اتنی جامع، ہمہ جہت اور ہمہ گیر ہے کہ اسے بیان کرنے کے لیے ہمارے پاس الفاظ نہیں ہیں، ہر طبقے اور مکتب فکر سے تعلق رکھنے والا آدمی ان سے محبت کرتا تھا، ان کی زندگی جہد مسلسل سے عبارت ہے اور وہ تاحیات قوم کی تعمیر و ترقی کے لیے سرگرم رہے۔ شاہ ولی اللہ اکیڈمی کے چیئر مین مولانا عطاء الرحمن قاسمی نے کہاکہ مولانا کی خورد نوازی اور نوجوانوں کو آگے بڑھانے کا جذبہ بے مثال تھا، انھوں نے نئی نسل کی تربیت کی اور انہیں قومی وملی خدمات کے میدان میں آگے کیا۔ فتویٰ آن موبائل سروس کے چیئر مین مفتی ارشد فاروقی نے کہاکہ مولانا اسرارالحق قاسمی جیسے متقی اور قوم کا درد رکھنے والے لیڈرکو ہمیں اپنے لیے مشعل راہ بنانا چاہئے اور ان کے نقشِ قدم پر چل کر ہمیں بھی قوم و ملت کے لیے اپنے آپ کو مفید بنانا چاہیے۔

ممبئی سے آئے مولانا عبدالرحمن ملی نے مولانا سے اپنے تیس سالہ روابط کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ مولانا قاسمی جیسے جدوجہدکرنے والے اور ملنسار افراد صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں، ان کی ان خصوصیات کی وجہ سے مولانا کوہمیشہ یاد کیاجائے گا۔ مٹیامحل دہلی کے کونسلر آل محمد اقبال نے اپنے تاثرات میں کہاکہ سیاست میں رہنے کے باوجود مولانا نے دین اور سنت سے اپنا مضبوط رشتہ قائم رکھا، وہ ہمیشہ غریبوں اور ضرورت مندوں کے کام آتے تھے اور جو کام کورٹ کچہری سے بھی نہیں ہوپاتا تھا، وہ اپنے گھر سے کردیا کرتے تھے۔ مولانا مرحوم کے خادم اور آل انڈیاتعلیمی وملی فاؤنڈیشن کے سکریٹری مولانا نوشیر احمد نے مولانا مرحوم سے اپنے دیرینہ تعلقات اور ان کے ساتھ مل کر کام کرنے کے حوالے سے اپنے تجربات کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ وہ نہایت سادہ اور عجز و انکساری کے پیکر تھے، وہ افراد سازی کاکام کرتے تھے، اس کے علاوہ مختلف مسالک و مکاتب فکر کو جوڑکر چلنے والے آدمی تھے، انھوں نے اپنے علاقے سے برادری واد کوبھی ختم کیا، اس کے علاوہ سرگرم سیاست میں رہنے کے باوجود وہ کبھی اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف بھی کسی قسم کی بدزبانی یا تنقید و تنقیص نہیں کرتے تھے، حتی کہ ان کے مخالفین اگر ان کے خلاف الزام تراشی کرتے توبھی وہ کہتے تھے کہ میں اپنا اوران کا معاملہ اللہ پر چھوڑتا ہوں، انھوں نے پوری زندگی نہ کسی سے انتقام لیا اور نہ کسی کے خلاف ایک لفظ کہا۔

جامعہ رحیمیہ مہندیان کے شیخ الحدیث مفتی عزیز الرحمن چمپارنی نے کہاکہ مولانا حوصلہ و ہمت کے ہمالیہ پہاڑتھے، ہمت شکن ماحول میں تعلیمی کوششوں کے ذریعے انہوں نے سب کو باور کرادیا کہ ان کی شخصیت کس قدر عظیم تھی۔ معروف صحافی عبدالقادرشمس نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ میں نے اپنی زندگی میں بے شمار اکابر علمااور بزرگوں کو دیکھاہے، مگر مولانا کی سیرت و شخصیت کو سامنے رکھتے ہوئے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ انہیں اسلاف و اکابر کی پہلی صف میں شمار کیاجاسکتاہے۔

دہلی پردیش کانگریس کے سکریٹری حاجی عمران انصاری نے کہاکہ مولانا کی ایک بڑی خوبی یہ تھی کہ انہوں نے سیاست میں رہنے کے باوجود اپنے دامن کو پاک رکھا، اس معاملے میں انہیں پورے ملک میں مثال کے طورپر پیش کیاجاسکتاہے۔ آل انڈیادینی مدارس بورڈ کے صدر مولانا یعقوب بلند شہری نے کہاکہ مولانا کی خدمات کو بہترین خراج عقیدت یہ ہوگا کہ ان کے چھوڑے ہوئے کاموں کو جاری رکھاجائے بلکہ انھیں مضبوطی کے ساتھ آگے بڑھایاجائے۔

مولانا مرحوم کے بڑے صاحبزادے سہیل اختر نے کہاکہ ہم اپنے والد کے نقش قدم پر چل کر قوم کی خدمت کریں گے اور کوشش کریں گے کہ انہی کے اخلاق و کردار کو اپناکر ملت کے لیے مفید ثابت ہوسکیں۔ مولاناکے معاون رہے منظر امام نے کہاکہ مولانا اپنی سادگی، شرافت اور حسن اخلاق میں بے مثال تھے، ان سے کوئی بھی آسانی سے مل سکتا تھا، وہ ہر شخص کی عزت نفس کا خیال رکھتے تھے۔ معروف صحافی سہیل انجم نے بھی مولانا کی قومی و ملی خدمات کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہاکہ ضرورت ہے کہ ان کے بعد ان کے پسماندگان اور متعلقین مولانا کے مشن کو آگے بڑھائیں۔

اس موقع پر مولانا اسرارالحق قاسمی کی حیات و خدمات پر مضامین کے ایک مجموعے کا اجرا بھی عمل میں آیا، جسے نایاب حسن قاسمی نے مرتب کیاہے۔ اخیر میں مرکزی جمعیۃ علماکے جنرل سکریٹری مولانا فیروز اختر قاسمی نے تمام مہمانوں اور شرکاے اجلاس کا شکریہ اداکیا۔

تبصرے بند ہیں۔