اپنا ماضی جو تھا وہ حال نہیں

جمال ؔ کاکوی

اپنا ماضی جو تھا وہ حال نہیں
ہند کا اب کوئی جلال نہیں

میں اکیلہ کھڑا ہوں ملبے پر
اپنی فطرت میں بھیڑچال نہیں

کون ہے جو یہاں نہیں فانی
کسنا ہونا ہے انتقال نہیں

شوربے سے بھی دور رہتے ہیں
کوئی مرغا اگر حلال نہیں

کھولہ ہے جس نے چور دروازہ
صاحبِِ میکدہ کلال نہیں

ان کے سکّے کی چوٹ جس پہ پڑے
وہ میرا کاسۂ صفال نہیں

اس کو انسان آپ مت کہئے
پائیے جس کوخوش خصال نہیں

کل ہزاروں سپاہ میری تھی
اب مرے پاس ایک ڈھال نہیں

زرد چہرا ہے لب بھی سوکھے ہیں
اپنی رفتار سے نڈھال نہیں

میں نے مانا جمالؔ تم ہی ہو
آئینہ میرا ہم خیال نہیں

تبصرے بند ہیں۔