مولانا آزادؒ کے سائنسی مضامین اور مسلمان

تحریر: ڈاکٹر وہاب قیصر، ترتیب: عبدالعزیز

 ڈاکٹر وہاب قیصر کی کاوش سے مولانا ابوالکلام آزادؒ کے سائنسی مضامین پر مشتمل ایک کتاب خدا بخش لائبری، پٹنہ نے شائع کی ہے۔ مولانا نے سائنسی موضوعات پر تقریباً 50 مضامین لکھے جو ان کے اخبار ’’خدنگ نظر‘‘ سے ’’الہلال‘‘ اور ’’البلاغ‘‘ میں تسلسل کے ساتھ شائع ہوتے رہے۔ ان مضامین نے نہ صرف اردو زبان کے دامن کو وسیع کیا بلکہ اردو قارئین کے اندر سائنسی مزاج (Scientific temperament) کے فروغ میں مدد پہنچائی۔ اگر چہ ان مضامین کی اشاعت کئی دہائی پہلے ہوچکی ہے اور ان میں شامل معلومات اور حقائق میں اس عرصہ میں کافی تبدیلی ہوئی ہے لیکن ان مضامین کی دستاویزی حیثیت اور افادیت اب بھی برقرار ہے۔

 ڈاکٹر وہاب قیصر قابل ستائش ہیں کہ انھوں نے مولانا آزاد کے سائنسی مضامین میں سے 45منتخب مضامین کو اپنی مرتب کردہ کتاب ’’مولانا آزاد کے سائنسی مضامین‘‘ میں شامل کیا ہے اور اس پر ایک جامع مقدمہ بھی لکھا ہے۔ مقدمہ مولانا کے سائنسی مضامین پر ایک مختصر سا تبصرہ ہے۔ مطالعہ کیلئے پیش خد مت ہے۔(ع-ع)

 مقدمہ: مولانا ابوالکلام آزاد کی زندگی پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو پتہ چلے گا کہ عمر کی ہر منزل پر وہ ہم عصر شخصیتوں سے بہت آگے رہے۔ بچپن میں نہ وہ دوسرے بچوں کی طرح کھیل کود میں وقت گزارا کرتے اور نہ لڑکپن میں ان کے اعادات و اطوار دوسرے لڑکوں جیسے ہوتے۔ ایسا لگتا ہے کہ بچپن سے وہ سیدھے جوانی میں داخل ہوگئے؛ بلکہ یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ مولانا آزاد بچپن سے ہی مولانا صفات کے مالک تھے۔ مولانا بھی ایسے کہ سمجھ بوجھ میں ، طور طریقوں میں اور مسائل کو پرکھنے اور حل کرنے میں  دوسرے مولانا حضرات سے بالکل مختلف تھے۔ نہ ہی وہ دقیانوسی خیالات کے حامی تھے اور نہ اتنے جدید ذہن کے کہ ان پر مغرب پرستی کا الزام لگایا جاسکے۔ غرض وہ اپنے عالمانہ اور فاضلانہ خیالات کو جدید طرز سے برتتے تھے۔ اپنی زندگی میں اچھی تبدیلیوں کے داخلہ کے معاملہ میں وہ ہمیشہ تیار رہتے۔ جہاں سے بھی جس زبان و ادب سے جو بھی علم کی روشنی مل سکتی تھی اس کو انھوں نے حاصل کی اور جن علوم و فنون میں بھی دلچسپی لی انھیں فن کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔ چاہے وہ نثر نگاری کا معاملہ ہو کہ صحافت نگاری کا، تعلیم کا معاملہ ہو کہ تفسیر کا، ان میدانوں میں انھوں نے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں ۔ یہی وجہ رہی کہ ان کی شبیہ ایک ہمہ پہلو شخصیت کے طور پر ابھری ہے۔ مولانا میں اکتساب کا سلسلہ یوں تو عمر بھر جاری رہا لیکن ابتدائی تعلیم و تربیت سے فارغ ہونے کے بعد اس دور کے اور نوجوانوں کی طرح وہ بھی شعر کہنے کی طرف مائل ہوئے۔

 مولانا آزاد نے 1898ء میں گیارہ سال کی عمر میں شعر کہنا شروع کیا اور آزاد کو انھوں نے تخلص کے طور پر اختیار کیا۔ ان کی پہلی غزل جنوری 1899ء میں ’’ارمغانِ فرخ‘‘ میں شائع ہوئی۔ اس کے بعد ملک کے مختلف شہروں سے شائع ہونے والے گلدستوں میں ان کا کلام شائع ہونے لگا اور کلکتہ کے مشاعروں میں انھوں نے اپنا کلام سنایا۔ یہاں تک کہ 1899میں ’’نیرنگ عالم‘‘ کے نام سے خود انھوں نے گلدستہ کی اشاعت عمل میں لائی، لیکن بہت جلد ہی ان کی طبیعت شاعری سے اوب گئی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی رہی کہ ان کے خیال میں شاعری سے زیادہ اہم نثر نگاری اور صحافت نگاری تھی؛ چنانچہ عبدالرزاق ملیح آبادی کی روایت پر مبنی کتاب ’’آزاد کی کہانی، خود آزاد کی زبانی‘‘ میں ان دونوں اصناف کے تئیں ان کا مطمع نظر صاف نظر آتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :

  ’’سب سے زیادہ بلند تر مقام جو کسی انسان کیلئے ہوسکتا ہے، یہ نظر آتا ہے کہ مضامین لکھے جائیں اور وہ ہمارے نام سے شائع ہوں ۔ اس کے بعد اس سے بلند تر مقام یہ تھا کہ اخبار یا رسالے کے ایڈیٹر ہوں ‘‘۔ (صفحہ 274)

 چنانچہ مولانا آزاد نے شعر کہنا ترک کردیا اور اپنا ایک ہفتہ وار اخبار ’’المصباح‘‘ کے نام سے شاید 22 جنوری 1901ء کو نکالا۔ اس میں پہلی بار انھوں نے ’’مدیر کے قلم سے‘‘ کے زیر عنوان سائنسی موضوعات نیوٹن اور پھر مسئلہ کشش ثقل پر کالم لکھے۔ ان مضامین کی تلاش میں ، میں نے ملک بھر کی کئی ایک لائبریریوں کا دروازہ کھٹکھٹایا لیکن ان کے حصول میں مجھے کامیابی نہیں ملی۔ کامیابھی ملتی بھی تو کیسے ؟ بقول ابو سلمان شاہجہاں پوری ’’المصباح‘‘ کے پرچے کسی کو دستیاب نہیں ہوسکے۔ وہ لکھتے ہیں :

  ’’المصباح کا کوئی پرچہ ابھی تک کسی صاحب کو دستیاب نہیں ہوا۔ اس لئے اس کے اجرا اور بندش کی صحیح تاریخوں کا قطعی تعین نہیں کیا جاسکتا ہے۔ مولانا کے اس مطبوعہ مضامین بھی نایاب ہیں ‘‘۔ (ارمغان آزاد، صفحہ 100)

اردو کے عام قاری کے ذہن میں یہ خیال ضرور آسکتا ہے کہ مولانا آزاد کی دلچسپی سائنسی موضوعات کے مطالعہ کرنے میں اور ان پر مضامین لکھنے میں کیونکر پیدا ہوئی۔ تو عرض ہے کہ انھیں سائنسی موضوعات میں رغبت سرسید احمد خاں کی تحریروں کے مطالعہ سے ہوئی۔ خاص کر جدید تعلیم کے بارے میں سرسید احمد خاں کے خیالات کا ان پر بہت اچھا اثر پڑا اور انھوں نے محسوس کیا کہ جب تک کوئی شخص جدید سائنس کا اچھا مطالعہ نہ کرے وہ صحیح معنی میں تعلیم حاصل نہیں کرسکتا۔ اس خیال کا آنا تھا کہ مولانا آزاد، سائنسی علوم پڑھنے اور ان کے موضوعات پر لکھنے کی طرف مکمل طور پر وقف ہوگئے؛ چنانچہ انھوں نے ابتدا میں ایک مضمون ’’زمانہ قدیم میں کبوتروں کی ڈاک‘‘ تحریر کیا تھا جو نوبت رائے نظرؔ کی ادارے میں لکھنؤ سے شائع ہونے والے ماہنامہ ’’خدنگ نظر‘‘ کے مئی 1902ء کے شماروں میں قسط وار شائع ہوا۔ اس مضمون میں انھوں نے تاریخ کی روشنی میں کبوتروں کے ذریعہ بھیجی جانے والی ڈاک پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور بتایا کہ اس ڈاک کے نظام کو 567ہجری میں سلطان نور الدین زنگی کے عہد میں عربوں نے رائج کیا تھا۔ اس مضمون کی تیاری میں مولانا آزاد نے علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کی ’’حسن المحاضرہ‘‘ علامہ ابن فضل اللہ دمشقی کی ’’التعریف با لمصطلح التشریف‘‘ کے علاوہ مصنفات قاضی محی الدین اور کاتب عماد اور بعض مغربی تصنیفات سے استفادہ کیا تھا۔

 اردو کے قارئین کو سائنسی مضامین کے پڑھنے میں اکثر یہ دقت پیش آتی ہے کہ یا تو وہ ان کی سمجھ سے باہر ہوتے ہیں یا اتنے خشک ہوتے ہیں کہ کسی بھی رسالے کے پڑھنے والے جب ان مضامین پر نظر ڈالتے ہیں تو شجر ممنوعہ کی طرح فوراً صفحات الٹ دیتے ہیں ۔ اگر کوئی قاری کسی مضمون کے عنوان سے متاثر ہوکر پڑھنے کی کوشش کرتا ہے تو ایک یا دو پیرا گرف پڑھنے کے بعد ہی اس کو چھوڑ دیتا ہے۔ اس بارے میں میرا یہ مشاہدہ ہے کہ سائنسی موضوعات پر مضامین لکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہوتی ہے جو کسی انگریزی ماخذ سے مواد راست لے لیا یا ترجمہ کر دیا۔ سائنسی علوم سے ناواقفیت انھیں اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ متن میں خود سے کچھ اضافہ کرسکیں اور مضمون کو عام فہم بنا سکیں ۔ ان ہی وجوہات کی بنا پر سائنسی موضوعات پر لکھے گئے اکثر مضامین قارئین کیلئے خشک اور سمجھ سے بالاتر ہوتے ہیں ۔ جہاں تک مولانا آزاد کے لکھے گئے سائنسی مضامین کا تعلق ہے وہ ان تمام باتوں سے یکسر مختلف ہوتے ہیں ۔ سائنس کے تمام شعبوں پر مولانا کی نظر تھی اور ان میں سائنسی علوم کا ادراک تھا۔ ادراک بھی ایسا تھا کہ سائنس کے جس کسی شعبہ سے تعلق رکھنے موضوع پر جب وہ رقمطراز ہوئے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس شعبہ کے ماہر ہیں ۔ مضمون لکھنے کیلئے مواد تو وہ بھی کسی نہ کسی انگریزی ماخذ سے لیتے، لیکن سب سے پہلے اس موضوع پر تمہید باندھتے اور مضمون کے متن میں حسب ضرورت مثالوں ، احادیث اور قرآنی آیتوں کا حوالہ دیتے اور اپنے فہم و ادراک سے اور خوبصورت طرز تحریر سے اس کو اتنا سہل بنا دیتے کہ پڑھنے والا شروع سے لے کر آخر تک پڑھتا اور لطف اندوز ہوتا۔ وہ اتنے پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ آسانی سے سمجھ میں نہ آنے والے سائنسی اصولوں کی وضاحت کو، سائنس کی انگریزی اصطلاحات کی تشریح کو اور اردو میں ان اصطلاحات کی متبادلات کو کسی کسی مضمون کے فٹ نوٹ میں بیان کردیتے تھے۔

 مولانا آزاد کے سائنسی مضامین میں جہاں ہمیں سائنسی اصول اور حقائق صاف طور پر سمجھ میں آجاتے ہیں وہیں پر ان کی تحریروں میں گاہے ماہے عربی آمیز اردو الفاظ کا استعمال متن کے سمجھنے میں کہیں کہیں دشواریاں پیدا کر دیتا ہے؛ چونکہ مولانا آزاد کی مادری زبان عربی تھی اس لئے جانے انجانے میں ایسے الفاظ خود بخود گرفت تحریر میں آجاتے رہے ہوں گے۔ پھر مولانا آزاد جس دور کی نمائندگی کرتے ہیں اس میں تو عام اردو پڑھنے والوں کی زبان اس معیار کی ضرور تھی کہ ان کیلئے ان الفاظ کو سمجھنا دقت کا باعث نہیں ہوتا تھا۔ یوں بھی تو جس کسی دور میں جو بھی لکھا جاتا ہے، اس کیلئے ان الفاظ کو سمجھنا دقت کا باعث نہیں ہوتا تھا۔ یوں بھی تو جس کسی دور میں جو بھی لکھا جاتا ہے اس کیلئے اس دور کے قارئین کو پیش نظر رکھا جاتا ہے۔ آج کے دور میں ایک عام آدمی کے اردو زبان کا معیار ویسا نہیں رہا جیسا کہ مولانا آزاد کے دور میں تھا؛ چنانچہ مولانا کے دیگر مضامین کی طرح سائنسی مضامین کے پڑھنے میں بھی کہیں کہیں لغت کا سہارا ضرور لینا پڑتا ہے۔

 مولانا آزاد کا تحریر کردہ ایکس ریز پر ایک مضمون ’خدنگ نظر‘ کے شماروں مئی 1903ء اور جولائی 1903ء میں بالاقساط شائع ہوا تھا۔ ایکسریز کو ایک جرمن ماہر طبیعیات رونجن نے 1895ء میں دریافت کیا تھا۔ اس مضمون میں ایکس ریز کی دریافت، اس پر کئے گئے تجربات کی تفصیلات اور بنی نوع انسان کیلئے اس کے استعمالات خاص کر محکمہ محصول کیلئے بند صندوق میں موجود اشیاء کی جانکاری اور علم طب میں مختلف امراض کی تشخیص کیلئے اس سے استفادہ حاصل کرنے پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔مولانا آزاد نے ایکسریز کیلئے ایک اصطلاح ’’ضؤ غیر مرئی‘‘ تجویز کیا تھا اور اس مضمون کیلئے عنوان بھی یہی دیا تھا؛ البتہ 1918ء میں جامعہ عثمانیہ کے قیام کے بعد وہاں پر اس کیلئے ایک اصطلاح ’’لاشعاعیں ‘‘ تدوین کی گئی تھی۔ مولانا آزاد کے اس مضمون کی دونوں قسطوں کی ابتدا میں نوٹ شائع کئے گئے تھے۔ پہلی قسط میں نوٹ کے نیچے ’’آزاد دہلوی‘‘ اور دوسری قسط میں نوٹ کے نیچے ’اسسٹنٹ ایڈیٹر، کلکتہ‘‘ درج تھا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ 1903ء میں مولانا آزاد نے خدنگ نظر کیلئے اسسٹنٹ ایڈیٹر کے فرائض کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ پہلی قسط پر اس طرح کا نوٹ شائع ہوا تھا:

’’اس مضمون میں دراصل ہمیں اس غیر مرئی روشنی کا حال لکھنا ہے جسے پروفیسر روفتکین نے دریافت کیا اور جس روشنی کے ذریعے سے مقفل صندوق اور انسان کے اندرونی جسم کی تمام کیفیت نظر آتی ہے۔ اردو میں اس وقت بڑا نقص (جو تراجم علوم کا دروازہ روکے ہوئے ہے) یہ ہے کہ اصطلاحات علمی اور اسما کیلئے اکثر الفاظ اردو میں نہیں ملتے اور مجبوراً اصل انگریزی یا کسی اور زبان کے لفظ پر توجہ کرنی پڑتی ہے؛ چنانچہ اس روشنی کا نام بھی اردو میں کوئی نہیں ہے اور شخصی کوشش قرار دے بھی نہیں سکتی۔ مجبوراً ہم بجائے اصل انگریزی لفظ کے عربی لفظ (جس سے اردو اس قدر غیر مانوس نہیں ہے) یہاں لکھتے ہیں اور ہمارے نزدیک اور لفظوں سے ’ضؤ غیر مرئی‘ بہت بہتر ہے‘‘۔ (آزاد دہلوی)

  ’’ضؤ غیر مرئی‘‘مضمون کے بارے میں ابو سلمان شاہجہاں پوری لکھتے ہیں کہ مولانا آزاد کا یہ مضمون اگر چہ 16، 17 برس کا ہے لیکن یہ ایسا نہیں ہے کہ اسے یک قلم نظر انداز کردیا جائے۔ علامہ شبلی نعمانی کی جو رائے مولانا آزاد کے بارے میں قائم ہوئی تھی اس کی بنیاد اسی زمانے کی مضمون نگاری پر تھی؛ چنانچہ اسی مضمون کے مشاہدہ کے بعد انھوں نے مولانا آزاد سے نہ صرف ’’الندوہ‘‘ کیلئے ایسے مضامین لکھنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا بلکہ اس رسالے کے ’’معاون مدیر‘‘ کا پیش کش بھی کیا تھا۔

 مولانا آزاد نے نومبر 1903ء کو اپنی ادارت میں ایک ماہنامہ رسالہ ’’لسان الصدق‘‘ کی اشاعت عمل میں لائی۔ دیگر مقاصد کے ساتھ سائنسی معلومات کی فراہمی بھی اس میں شامل تھی۔ لسان الصدق کے جملہ 8 یا 9شمارے نکلے۔ ان میں صرف جون 1904ء کا شمار ایسا ہوتا تھا جس میں ’’دلچسپ معلومات‘‘ فزکس سے متعلق، پانی کی قدرتِ الٰہی کا عجیب نمونہ ہے‘‘ شائع ہوا تھا۔ آخر میں ماہرین طبقات الارض کے حوالے سے دنیا میں کتنے آتش فشاں پہاڑ کن ممالک میں کتنی تعداد میں ہیں ، ظاہر کئے گئے تھے۔  (جاری)

تبصرے بند ہیں۔