مولانا رومؒ

ریاض فردوسی

خون کا سیلاب راستہ بناتا ہوا مسلمانوں کے سر سبز و شاداب علاقوں سے گزر رہا تھا،تاتاریوں نے حضرت شیخ فرید الدین عطارؒ جیسے بزرگ کو بھی شہید کر دیا۔دوسری جانگداز خبر آئی کہ حضرت شیخ نجم الدین کبریٰؒ نے بھی جامِ شہادت پی لیا۔ اس طرح کہ آپ نے خانقاہ سے باہر آ کر آخری سانس تک ہلاکو کی فوج سے جنگ کی اور مرتے وقت اپنی قوم کو ایک ہی پیغام دیا کہ مکانوں کو چھوڑ کر میدانِ کار زار میں نکل آؤ۔اب ہلاکو خان کے لہو آشام لشکر کا رخ روم کے شہر ”قونیہ” کی جانب تھا۔ جس کی سالاری بیچو خان کو سونپی گئی تھی۔ بیچو خان نے قونیہ کا مکمل محاصرہ کر لیا۔ جب محاصرے نے طول پکڑا تو قونیہ کے باشندوں کا سامانِ رسد بند ہو گیا، جس سے ہر طرف بد حواسی پھیل گئی،ایسے پر خطر ماحول میں دنیا پرستوں کو اسی مرد مومن کی یاد آئی،جو انکی حرص و حوس کی اس دنیا سے بے خبر اللہ واحد اور یکتا کی عبادت میں محو ہے ۔لوگوں کے کافی منت و سماجت اور آہ بکا نے نے ان کا دست مبارک اللہ وحدہ لا شریک کی بارگاہ میں دعا کے لئے اٹھانے پر مجبور ہے ،جو ہاتھ خود کی خواہشوں اور تمناؤں کے لئے کبھی نہ پھیلے وہ دست اللہ کے حضور گریہ و ذاری کے ساتھ ،پرنم آنکھوں سے محو دعا ہے اللہ نے انکی فریاد کو قبول کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ظالم و جابر فوج شہر سے لوٹ گئی۔عوام الناس خوشی و شادمانی کے گیت گا رہی تھی، لیکن اللہ کا یہ بندہ اپنے رب کے حضورسجدہ میں ریز ہو کر یہ فریاد کر رہا تھا کہ ’’آپ نے مجھ خاکسار کی عزت رکھ لی۔ آپ نے میری عزت رکھ لی‘‘۔

یہ مرد مومن مولانا جلال الدین رومی ہیں نام۔۔ محمد ابن محمد ابن حسین حسینی بلخی تھا۔ اور آپ جلال الدین، القاب سے نوازے گئے۔ لیکن مولانا رومیؓ کے نام سے مشہور ہوئے۔ جواہر مضئیہ میں سلسلہ نسب اس طرح بیان کیا ہے: محمد بن محمد بن محمد بن حسین بن احمد بن قاسم بن مسیب بن عبد اللہ بن عبد الرحمن بن ابی بکرن الصدیق۔ اس روایت سے حسین بلخی مولانا کے پردادا ہوتے ہیں لیکن سپہ سالار نے انہیں دادا لکھا ہے اور یہی روایت صحیح ہے۔ کیونکہ وہ سلجوقی سلطان کے کہنے پر اناطولیہ چلے گئے تھے جو اس زمانے میں روم کہلاتا تھا۔ ان کے والد بہاؤ الدین بڑے صاحب علم و فضل بزرگ تھے۔ ان کا وطن بلخ تھا اور یہیں مولانا رومی 1207ء بمطابق 6 ربیع الاول 604ھ میں پیدا ہوئے….مولانا رومی اپنے دور کے اکابر علما میں سے تھے۔ فقہ اور مذاہب کے بہت بڑے عالم تھے۔ لیکن آپ کی شہرت بطور ایک صوفی شاعر کے ہوئی۔ دیگرعلوم میں بھی آپ کو پوری دستگاہ حاصل تھی۔ دوران طالب علمی میں ہی پیچیدہ مسائل میں علمائے وقت مولانا کی طرف رجوع کرتے تھے۔ شمس تبریز مولانا کے پیر و مرشد تھے۔ مولانا کی شہرت سن کر سلجوقی سلطان نے انھیں اپنے پاس بلوایا۔ مولانا نے درخواست قبول کی اور قونیہ چلے گئے۔ وہ تقریباً 300 سال تک تعلیم و تربیت میں مشغول رہے۔ جلال الدین رومی ؒ نے 3500 غزلیں 2000 رباعیات اور رزمیہ نظمیں لکھیں۔ان کی سب سے مشہور تصنیف ’’مثنوی مولانا روم‘‘ ہے۔ اس کے علاوہ ان کی ایک مشہور کتاب ’’فیہ مافیہ‘‘ بھی ہے۔مثنوی، دیوان شمس تبریزی،بھی اس میں شامل ہیں۔فیہ ما فیہ یا مقالات مولانا مولانا جلال الدین محمد بلخی رومی کا فارسی زبان میں ایک نثری تصنیف ہے۔ فارسی ادب میں تیرہویں صدی عیسوی کی اِس کتاب کو شاہکار خیال کیا جاتا ہے۔
آپ کے مؤثر میں بہائالدین زکریا ملتانی، عطار، سنائی، ابو سعید، خواجہ ابوالحسن خرقانی، بسطامی، شمس تبریزی وغیرہ ہیں۔۔۔رحمتہ اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین

علامہ محمد اقبال مولانا رومی کو اپنا روحانی پیر مانتے تھے۔ کشف اور وجدان کے ذریعے ادراک حقیقت کے بعد صوفی صحیح معنوں میں عاشق ہو جاتا ہے کہ بہ رغبت تمام محبوب حقیقی کے تمام احکام کی پیروی کرتا ہے۔ رومی نے جوہر عشق کی تعریف اور اس کی ماہیت کی طرف معنی خیز اشارے کیے ہیں۔ صوفی کی ذہنی تکمیل کا مقام کیا ہے اس کے متعلق دو شعر نہایت دل نشیں ہیں:

’’آدمی دید است باقی پوست است
دید آں باشد کہ دید دوست است
جملہ تن را در گداز اندر بصر
در نظر رو در نظر رو در نظر

علامہ اقبال نے اس کی یوں تشریح کی ہے:

’’خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں
ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں

مثنوی کا لفظ، عربی کے لفظ ’’مثنیٰ‘‘ سے بنا ہے اور مثنیٰ کے معنی دو کے ہیں۔ اصطلاح میں ہیت کے لحاظ سے ایسی صنفِ سخن اور مسلسل نظم کو کہتے ہیں جس کے شعر میں دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوں اور ہر دوسرے شعر میں قافیہ بدل جائے، لیکن ساری مثنوی ایک ہی بحر میں ہو۔ مثنوی میں عموماً لمبے لمبے قصے بیان کیے جاتے ہیں نثر میں جو کام ایک ناول سے لیا جاتا ہے، شاعری میں وہی کام مثنوی سے لیا جاتا ہے، یعنی دونوں ہی میں کہانی بیان کرتے ہیں۔ مثنوی ایک وسیع صنفِ سخن ہے اور تاریخی، اخلاقی اور مذہبی موضوعات پر کئی ایک خوبصورت مثنویاں کہی گئی ہیں۔مثنوی مولانا رُوم” جو ”مثنوی مولوی معنویسے بھی معروف ہے یہ کتاب ہے جس نے مولانا کے نام کو آج تک زندہ رکھا ہوا ہے اور جس کی شہرت اور مقبولیت نے ایران کی تمام تصانیف کوپیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اس کے اشعار کی مجموعی تعداد، جیسا کہ کشف الظنون میں ہے 26666 ہے۔ مشہور یہ ہے کہ مولانا نے چھٹا دفتر ناتمام چھوڑ تھا اور فرمایا تھا کہ

باقی ایں گفتہ آید بی گماں
در دل ہر کس کہ باشد نور جاں

اس پیشن گوئی کے مصداق بننے کے لیے نے بہت لوگوں نے کوششیں کیں اور مولانا سے جو حصہ رہ گیا تھا اسے پورا کیا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ مولانا نے بیماری سے نجات پا کر خود اس حصے کو پورا کیا تھا اور ساتواں دفتر لکھا تھا جس کا مطلع یہ ہے

اے ضیا الحق حسام الدیں سعید
دولتت پائندہ عمرت بر مزید

مثنوی مولانا روم ؒ کو جس قدر شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی، فارسی کی کسی کتاب کو آج تک نہیں ہوئی۔ آپ کے کلام میں تصوف، اخلاقیات، فلسفیانہ خیالات اور قرآنی تفسیر و تشریح جابجا دکھائی دیتی ہے۔ عشق کی وارفتگی کا بیان جس خوبصورتی سے ان کے کلام میں نظر آتاہے کہیں اور کہاں مل پائے گا۔فرماتے ہیں:

چوں قلم اندر نوشتن می شتافت
چوں بعشق آمد قلم برخود شگافت
چوں سخن در وصف ایں حالت رسید
ہم قلم بشکست و ہم کاغذ درید

یعنی عشق کا جذبہ اس قدر طاقتور ہے کہ جب قلم نے لکھنے کا قصد کیا اور جب لفظ ’’عشق‘‘ لکھنے لگا تو اس میں شگاف پڑ گیااور جب عشق کے رستے پر چلنے سے پیش آنے والے حالات کا ذکر آیا تو قلم ٹوٹ گیا اور کاغذ پھٹ گیا۔

اُن کے نزدیک اصل عشق، عشقِ حقیقی ہے۔ وہ عشق جو پائیدار ہے اُس میں نجات ہے۔ظاہری حسن سے عشق میں ذلت و رسوائی ہے۔ انھوں نے یہ نصیحت اُس لونڈی کے عشق کی حکایت میں کی، جو کہ سنار کے ظاہری حسن پر فریفتہ تھی اور جب اُس کا حسن باقی نہ رہا تو عشق کا جذبہ سرد پڑ گیا۔ مولانا اس موقع پر فرماتے ہیں:

عشقہائے کز پئے رنگے بود
عشق نبود عاقبت ننگے بود

مولانا رومی کے نزدیک عشق کی تشریح میں عقل ناکام رہتی ہے اور عشق و عاشقی کی شرح بھی خود عشق کرتا ہے۔
گویا اس مقام پر مولانا عقل کو عشق کے مقابلے میں محدود اور کم تو قرار دیتے ہیں۔

مولانا رومی علامہ اقبال کے روحانی پیر ومرشد تھے۔ اقبال نے بارہا اس بات کا اظہار کیا کہ وہ انھیں اپنا روحانی مرشد مانتے ہیں اور انھوں نے بارہا اپنے کلام میں ان کاتذکرہ کیاہے۔انھوں اپنے کلام میں پیرِ رومی، پیر یزدانی، پیرِ حقیقت سرشت اور پیرِ عجم کے نام سے یاد کیااور ان سے عقیدت کا اظہار کیا جیسے:

رازِ سمنی مرشد رومی کشود
فکر من آستانش در سجود

اقبال کے یہاں اکثر و بیشتر مقامات پر مولانا رومی کے موضوعات پر کلام دکھائی دیتا ہے جیسے عشق و عقل میں عشق کو ترجیح دینا، جبر وقدر کے موضوع میں عمل اور جہد مسلسل کو بہتر جاننایا اخلاقی موضوعات کا بیان۔اقبال بڑی حد تک ایسے موضوعات میں مولانا رومی سے متاثر دکھائی دیتے ہیں۔اقبال نے اپنی نظم پیر و مرید میں مولانا رومی کے اشعار میں اپنی الجھنوں کا حل تلاش کیا ہے۔ جیسے ایک مقام پر فرماتے ہیں:
اقبال:

زندہ ہے مشرق تری گفتار سے
اُمتیں مرتی ہیں کس آزار سے؟

پیر رومی:

ہر ہلاکِ اُمت پیشیں کہ بود
زانکہ بر جندل گماں بردند عود

اقبال رومی کی مثنوی کے عظیم خیالات سے بے حد متاثر ہیں۔

رنگ آہن محو رنگ آتش است آتشی می لا فد و آہن وش است

رومی نے اکثر جگہ عشق کو آگ سے تشبیہ دی ہے۔ عشق ایسا شعلہ ہے جو چیزوں کو اپنے اندر جذب کر لیتا ہے اور عاشق ایسا فولاد ہیں جو آگ میں داخل ہوتا ہے۔ آگ کی تب و تاب و سوز سے گرم ہو جاتا ہے اور گویا اس کے مثل ہو جاتا ہے۔ یہی خیال عاشق کا ہے، وہ آتش عشق یعنی محبوب حقیقی میں اپنے آپ کو اس قدر مدغم کر دیتا ہے کہ محبوب کی تمام صفات یعنی گرمی و روشنی سے منصف ہو جاتا ہے۔ دوسرے معنوں میں اس میں اوصاف خداوندی پیدا ہو جاتا ہے۔

من آن روز بودم کہ اسما نبود نشان از وجود مسما نبود
نما شد مسما واسما پد ید درآن روز کا نجامن ومانبود

اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان روح تھا اور ارواح میں خدا کے قریب تھا، پھر انسان کو جسم عطا ہوا اور وہ مادی زندگی سے آلودہ ہو کر اس دنیا میں آ گیا۔ آپنے مرکز سے جدا ہو گیا۔ دنیا کی دلچسپیاں اسے خدا سے غافل کر دیتی ہیں اور وہ ان میں الجھ کر اپنی اصلیت سے دور ہو جاتا ہے۔ لیکن اپنی حقیقت سے با خبر روح اپنے اصل کی طرف جانے کے لیے بے قرار رہتی ہے اور اس جسد عنصری سے آزاد ہو کر پھر اپنے مقدس عالم ارواح میں چاہتی ہے مولانا جلالالدین اپنی مشنوی کا آغاز تمشلا اس بے قررار روح کی فریاد سے کیا ہے۔

جملہ معشوق است و عاشق پردہ ای
وحدت شہود کے متعلق آہن اور آہن کی مشال مثنوی میں مو جود ہے۔۔۔

رنگ آہن محو رنگ آتش است 
زآتشی می لا فد وہ آہن وش است

چون بہ سرخی گشت ہمچو زرکان پس انا النار است لافش بیگمان

وحدت الوجود کا مطلب یہ ہے کہ اللہ ایک ہے۔ اس کے سوا کوئی اور الہ نہیں ہے۔ اللہ کا کوئی اور شریک نہیں۔ اہل تصوف کا یہ عقیدہ ہے کہ ہمہ اوست، کائنات میں صرف اللہ ہی کی ذات ہے اس کے سو ا اور کچھ نہیں۔ جو کچھ ہمیں نظر آتا ہے سب اللہ ہی اللہ ہے۔ کائنات کی تمام اشیاء جو جسم اختیار کیے ہوئے محدود صورت میں ہمیں نظر آتی ہیں، یہ سب خداوندی کی مظاہر ہیں۔ صوفیا کا یہ عقیدہ ہمہ اوست کہلاتا ہے۔ اسے نظریہ وحدت الوجود بھی کہتے ہیں۔ وحدت وجود میں شخصیت فنا ہو جاتی ہے۔ وحدت شہود میں شخصیت قائم رہتی ہے۔ مشلاَ چراغ، آفتاب کی روشنی میں کم ہو جاتا ہے لیکن اپنی روشنی قائم رکھتا ہے اور لوہا آگ میں آگ کی طرح سرخ ہو جا تا ہے لیکن وہ آگ نہیں بن جاتا۔ جب یہ صفات نہیں رہتی تو لوہا اپنی ہستی الگ قائم رکھتا ہے۔ مولانا جلال الدین رومی ؒ کی مثنوی میں وحدت الوجود اور وحدت الشہود دونوں قسم کے خیا لات کا اظہار ہوا ہے۔مولانا ہدایت اور تعلیم کو سخن پردازوں اور شاعری کی نسبت زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ ان کے پیش نظر عالم وعارف بھی ہیں اور مبتدی اور عالی بھی۔ ان کا روئے سخن سب کی طرف ہے۔ اس لیئے زبان بھی ایسی استعمال کی ہے جو سب کی سمجھ میں آسکے۔
صاحب مجمع الفصحا نے لکھا ہے کہ ایران میں چار کتابیں جس قدر مقبول ہوئیں، کوئی نہیں ہوئی۔
شاہ نامہ
گلستان
مثنوی روم
دیوان حافظ

ان چاروں کتابوں کا موازنہ کیا جائے تو مقبولیت کے لحاظ سے مثنوی کو ترجیح ہوگی۔ مقبولیت کی ایک بڑی دلیل یہ ہے کہ علما و فضلا نے مثنوی کو جس قدر اہمیت دی اور کسی کتاب کو نہیں دی۔ کشف الظنون ایک مشہور شرح ہے جس کے بعد بھی کئی شرحیں لکھی گئی مثلا شرح محمد افضل الہ آبادی، و ولی محمد، و عبد العلی بحر العلوم و محمد رضا وغیرہ وغیرہ۔
ہندوستان سے شاہ بو علی قلندر پانی پتی ؒ بھی مولانا کی صحبت میں رہے۔یہی وجہ ہے کہ ہندوستان میں فرقہ قلندریہ بھی ایک درجہ میں مولانا رومی سے منسوب کیاجاتاہے۔

گزشتہ آٹھ صدیوں سے سے مثنوی مولانا رُوم مسلمانانِ عالم میں عقیدت و احترام سے پڑھی جارہی ہے۔ مولانا جلال الدین رومی ؒ کی شخصیت اور ان کا کلام دونوں ہی کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ مثنوی مولوی معنوی، تصوف اور عشق الہی کے جملے، موضوعات کو انتہائی سادگی روحانی اور عام فہم انداز مین بیان کرتی ہے۔ عشق الہی اور معرفت کے انتہائی مشکل و پیچیدے نکات سلجھانے کے لیے مولاناؒ نے سبق آموز حکایات و قصے کہانیوں سے مدد لی ہے، جو بھی لکھا ہے قرآن و حدیث نبوی ﷺ سے اس کی سند بھی بیان کی جاتی ہے اس لیے آج آٹھ سو سال گزر جانے کے باوجود بھی ان کے کلام کی اہمیت و افادیت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ابن بطوطہ نے اپنے سفرنامے میں لکھا ہے کہ ان کے فرقے کے لوگ جلالیہ کہلاتے ہیں۔ چونکہ مولانا کا لقب جلال الدینؒ تھا اس لیے ان کے انتساب کی وجہ سے یہ نام مشہور ہوا ہوگا۔ لیکن آج کل ایشیائے کوچک، شام، مصر اور قسطنطنیہ میں اس فرقے کو لوگ مولویہ کہتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم سے قبل بلقان، افریقہ اور ایشیا میں مولوی طریقت کے پیروکاروں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی۔ یہ لوگ نمد کی ٹوپی پہنتے ہیں جس میں جوڑ یا درز نہیں ہوتی، مشائخ اس ٹوپی پر عمامہ باندھتے ہیں۔ خرقہ یا کرتا کی بجائے ایک چنٹ دار پاجامہ ہوتاہے۔ ذکر و شغل کا یہ طریقہ ہے کہ حلقہ باندھ کر بیٹھتے ہیں۔ ایک شخص کھڑا ہو کر ایک ہاتھ سینے پر اور ایک ہاتھ پھیلائے ہوئے رقص شروع کرتا ہے۔ رقص میں آگے پیچھے بڑھنا یا ہٹنا نہیں ہوتا بلکہ ایک جگہ جم کر متصل چکر لگاتے ہیں۔ سماع کے وقت دف اور دوسر ے ساز بھی بجاتے ہیں۔ان کے 800 ویں جشن پیدائش پر ترکی کی درخواست پر اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تعلیم، ثقافت و سائنس یونیسکو نے 2007ء کو بین الاقوامی سالِ رومی قرار دیا۔ اس موقع پر یونیسکو تمغا بھی جاری کیا۔

حوالہ جات!

(کلیدِ مثنوی،جلد اوّل، دفتر اوّل، از مولانامحمد اشرف علی تھانوی، ادارہ تالیفاتِ اشرفیہ،ملتان مفتاح العلوم، مثنوی مولانا روم،دفتر اوّل، مترجم: مولوی مرزا محمد نذیر، لاہور، قریشی بک ایجنسی، سوانح مولانا روم از شبلی نعمانی ، اللہ کے سفیر، و دیگر کتابوں سے ماخوذ)

1 تبصرہ
  1. وصی احمد براری کہتے ہیں

    ما شا الله بهت بهترین مضمون هے پڑھ کر معلومات میں اضافه هوا ۔ایک جگه لکها هے ٣٠٠ سال تک
    تعلیم وتربیت میں مشغول رهے میرے خیال سے ٣٠ سال هو گا جو غلطی سے ٣٠٠ هوگیا۔۔۔۔۔۔۔

تبصرے بند ہیں۔