شعبۂ اردو (چو دھری چرن سنگھ یو نیورسٹی) کا سولہواں یوم تاسیس

شعبۂ اردو کے سولہویں یوم تاسیس پرسلام بن رزاق اور ڈا کٹرشہاب ظفر اعظمی ڈا کٹر منظر کاظمی نیشنل ایوارڈ سے سرفراز
شعبۂ اردو، چو دھری چرن سنگھ یو نیورسٹی، میرٹھ نے بڑے تزک و احتشام سے اپناسولہواں یوم تاسیس منایا۔ اس مو قع پر شعبۂ اردو نے چوتھا ڈاکٹر منظر کاظمی نیشنل ایوارڈ معروف فکشن نگارسلام بن رزاق،ممبئی کو(برائے فکشن)اور ڈا کٹر شہاب ظفر اعظمی(فکشن تنقید )کو دیے گئے۔ ساتھ ہی ایک ادبی نشست کا اہتمام بھی کیا گیا۔ اسی دوران میرٹھ کے معروف بزرگ شاعر انوار الحق شاداں کے دوسرے شعری مجمو عے’’رفعت خیال‘‘ کا اجراء بھی عمل میں آیا۔

ڈاکٹر منظر کاظمی نے اپنے افسانوں میں علامتی انداز میں زندگی کو پیش کیا ہے : پروفیسر اسلم جمشید پوری

پروگرام کی صدارت پروفیسر اسلم جمشید پوری نے کی۔ مہمان خصوصی کے طور پر یونیورسٹی کے ڈپٹی لائبریرین ڈاکٹر جمال احمد صدیقی نے شرکت کی مہمانان ذی وقار کے بطورپرو فیسر دنیش کمار،سماجی کار کن حاجی عمران صدیقی اور اکرام بالیان شریک ہوئے۔ نظا مت کے فرائض ڈا کٹر آصف علی اور مہمانوں کا استقبال شوبی رانی نے اداکیا۔ اس سے قبل صدر شعبۂ اردو ڈا کٹر اسلم جمشید پوری نے پروجیکٹر پر شعبے کا سولہ سالہ سفر پیش کیا۔ جسے نا ظرین نے خوب سرا ہا۔

پروگرام کا آ غازمحمد شاکر نے تلاوت کلام پاک سے کیا۔ مہمانوں کا پھولوں کے ذریعے استقبال کیا گیا۔ اس موقع پر سعید احمد سہارنپوری نے غالب کی غزل سناکرسامعین کو محظوظ کیا۔ اورمہمانوں نے مل کر شمع رو شن کی۔ بعد ازاں اس سال کے ڈاکٹر منظر کاظمی نیشنل ایوارڈ پیش کیے گئے۔ سلام بن رزاق کا تعارف مفتی راحت علی صدیقی نے پیش کیا۔ جب کہ دوسرے ایورڈی ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی کا تعارف ڈاکٹر شاداب علیم نے پیش کیا۔

شعبۂ اردو نے کم وقت میں بین الاقوامی شناخت قائم کی ہے : پروفیسر دنیش کمار

پرو گرام میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے مہمان خصوصی ڈا کٹر جمال احمد صدیقی نے کہا کہ واقعی پروفیسر اسلم جمشید پوری کی قیادت میں شعبۂ اردو نے بہت کم وقت میں اپنی ایک مستحکم اور پائیدار شناخت قائم کی ہے اور یہ شعبہ دن دونی رات چوگنی ترقی کی طرف گامزن ہے۔ میں دل سے دعا گو ہوں اور امید کرتا ہوں کہ مستقبل میں بھی یہ شعبہ اسی استقلال اور محنت و لگن کے ساتھ مزید کامیابی کی جانب قدم بڑھا تا رہے گا۔

پروفیسر دنیش کمار نے کہا کہ شعبۂ اردو نے محض اپنے سولہ سالہ سفر میں نمایاں ترقی کی ہے اور نہ صرف قومی بلکہ بین الاقوامی سطح پر اپنی شناخت قائم کی ہے۔ آج شعبۂ اردو کے بہت سے فارغین طلبا قومی و بین الاقوامی سطح پر مختلف میدانوں میں کارہائے نمایاں انجام دے رہے ہیں۔

اپنے صدارقی خطبے میں پروفیسر اسلم جمشید پوری نے کہاکہ یوم تاسیس در اصل اپنا احتساب کرنے کا دن ہو تا ہے کہ ہم نے اب تک کیا کام کیے اور کون سے کام اب تک نہیں کر پائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ شعبۂ اردو کا جشن در اصل اردو کا جشن ہے اور جشن ہمیشہ چاہنے والے ہی مناتے ہیں۔ اردو کو آج ایسے فرزانوں کی ضرورت ہے جو اس کی سچی اور دلی خد مت کر سکیں۔ ڈاکٹر منظر کاظمی کے تعلق سے انہوں نے کہا کہ منظر کاظمی نے اپنے افسا نوں میں علامتی انداز میں زندگی کو پیش کیا ہے۔ ان کے نام پر جا ری یہ ایوارڈ ان کو چھو ٹا سا خراج عقیدت ہے۔ انہوں نے ایوارڈ یافتگان کو مبارک باد پیش کی۔

اسی دوران قصبہ پھلاؤدہ، میرٹھ کے معروف اور بزرگ شاعر انوار الحق شاداں کے دوسرے شعری مجمو عے’’ رفعت خیال‘‘ کا اجراء بھی مہمانوں کے ہاتھوں عمل میں آیا۔ پرو گرام کے آخر میں ایک ادبی نشست منعقد کی گئی۔ جس کی مجلس صدارت پر،نائب شہر قاضی زین الراشدین،سید معراج الدین اورڈاکٹر جمال احمد صدیقی رونق افروز رہے۔ نثری حصے میں پرو فیسر اسلم جمشید پوری نے اپنی کہانی’’میں تمہاری کہانی نہیں لکھ سکتا‘‘ اور سلام بن رزا ق نے’’گیت‘‘ کی قرأت کی جب کہ شعری حصے میں معروف ادیب وشاعر طالب زیدی، ڈا کٹر محمد یونس غازی،انوار الحق شاداں، ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی، نذیر میرٹھی، اظہر اقبال اور واجد میرٹھی نے اپنی تخلیقات پیش کر کے سامعین کے دل موہ لیے۔ نظا مت کے فرائض ڈاکٹر فرقان سردھنوی نے انجام دیے۔

پرو گرام میں ڈاکٹرودیا ساگر،ڈاکٹر پروین کٹاریہ،ڈاکٹر یگیش،ڈاکٹر سیدہ، ڈاکٹرتسنیم فاطمہ، ڈاکٹر سنیتا دوہرے، ڈاکٹر اعجاز، بھارت بھوشن شرما، انل شرما،شاہ جہاں سیفی،نایاب زہرا زیدی،سید معوذ، سید فرقان، انس سبز واری، مسعود عالم ہاشمی، نغمہ،مرزا منہاج، کنور باسط علی،شبستاں پروین،شبیر شاہ،عاطر رضوی،شبستاں، فرح ناز،مدیحہ اسلم،شناور اسلم، محمد سہیل، مولانا محمد جبرئیل، تابش فرید، اعزاز سیفی، انجینئر رفعت جمالی،محمد آصف، حشمت علی، اور کثیر تعداد میں طلبا و طالبات نے شرکت کی۔

تبصرے بند ہیں۔