الیکشن

محمد ضیاءالرحمٰن

الیکشن میں تو سب نیتا خلوصِ دل دکھاتے ہیں
وفا کے جھوٹے وعدے کرکے بس دل کو لبھاتے ہیں

غریبوں کی حمایت کا علم سر پر اٹھاتے ہیں
جرائم سے عداوت کا بھی دم بھر کر دکھاتے ہیں

کوئی دھرنے پہ بیٹھیگا کوئی کرنے پہ اتریگا
کوئی جھال لوگوں کے لئے مرنے پہ اتریگا

انھیں دیکھو تو لگتا ہے انھیں ہیں فکر عالم کی
بغیر انکے نہیں ہوپائیگی کچھ خیر عالم کی

وہ اک مزدور جسکو فکر ہے صرف اپنے بچوں کی
اسے یہ فکر بالکل بھی پنپنے ہی نہیں دیتی

یہ اسکی تن درستی پر خلل پرداز ہوتی ہے
یہ معصوموں کے فیوچر پر اثرا انداز ہوتی ہے

مگر یہ قوم کے رہبر مفکر خود کو کہتے ہیں
یہ جتنی فکر کرتے ہیں یہ اتنے موٹے ہوتے ہیں

زمانے بھر کی فکریں پیٹ میں موجود ہیں انکے
صحت ہے تن درستی ہے مرض مفقود ہیں انکے

شرابی اور جواری جو سراپا بوجھ دھرتی پر
اچانک بڑھ گئی ہے قدر انکی بھی زمانے میں

سلیقہ جنکو جینے کا نہ تھا مرنے کا بالکل بھی
یہ بھی اب کام آئیگے کسی کو تو جتانے میں

جرائم کو مٹانے کے زباں پر جنکے چرچے تھے
جرائم کا سہارا آج وہ بھی لگ گئے لینے

جو رشوت خوری کے دشمن یہاں پر سمجھے جاتے تھے
وہ بھی ووٹوں کی قیمت یعنی رشوت لگ گئے دینے

عقیدت میں جسے سب لوگ اب کہتے ہیں نیتا جی
الیکشن کا یہ نیتا آٹھویں بھی پاس تک نہ تھا

حمایت کر رہے ہیں عالم و فاضل سبھی اس کی
انہیں اس اپنی غلطی کا بھی کچھ احساس تک نہ تھا

الیکشن کی انوکھی جنگ کا سالار انپڑھ ہے
مقابل اسکے جو نیتا ہے وہ تو ڈاکٹر بھی ہے

وہ بی.اے. پاس ہے بی.کوم میں بھی اس کو رغبت ہے
ڈبل ایم.اے.کیا ہے اس لئے وہ ماسٹر بھی ہے

بہت جوہر دکھائے اس نے اپنی قابلیت کے
عوام الناس کی پھر بھی حمایت مل نہیں پائی

ڈھنڈورا اس نے بھی ایمان داری کا بہت پیٹا
مگر جنتا کے آگے اس کی کچھ بھی چل نہیں پائی

یہ سب چل ہی رہا تھا اور الیکشن آگیا سر پر
بالآخر حامیوں کو لیکے سارے گام پر آئے

مواعظ اور نصیحت بھی انہوں نے کر دئے جاری
تو لوگوں کو لبھانے کو یہ مینا،جام بھر لائے

یہی ہے فطرتِ انسانی موجودہ زمانے کی
کی انساں بے نفع تو خرچ کچھ بھی کر نہیں سکتا

مصیبت میں کوئی کتنا ہو اتنی بات تو طے ہے
مصیبت میں کسی کی دوسرا تو مر نہیں سکتا

مگر پھر بھی عجب انداز تو دیکھو زمانے کے
مہا کنجوس الیکشن میں سخاوت کرنے لگتے ہیں

خودی کے واسطے اوروں کو بھی جو مار دیتے تھے
اچانک وہ بھی اوروں کے لئے اب مرنے لگتے ہیں

الیکشن کے نتائج بھی بڑے حیران کن نکلے
جسے لوگوں نے جتوایا انگوٹھا چھاپ جاھل تھا

وہ ایم.اے.پاس سے اور آٹھویں کے فیل نیتا سے
عوام الناس کی نظروں میں وہ دونوں سے فاضل تھا

بلا تعلیم جاہل سے تو اپنا گھر نہیں چلتا
تو اک انپڑھ بھلا اس دیس کو کیسے چلائگا

یہی قاتل بنیگا، دیس میں دنگے کرائیگا
اگر بس اسکا چل جائے تو گھوٹالے کرائیگا

یہی قومیں کہ جو خود کو بہت عاقل سمجھتی تھیں
یہ آخر کیسے نیتاؤں کے بہلائے میں آتی ہیں

یہ خود دھوکہ دہی میں خوب ماہر سمجھی جاتی تھیں
تعجب یہ ہے نیتاؤں سے کیسے دھوکہ کھاتی ہے

مری قومیں سنبھل جاؤ تمہارا ملک اپنا ہے
کسی اچھے کو لاؤ سامنے اور فائدہ پاؤ

اسے انگریزوں نے اک بار پہلے بھی بہت لوٹا
اسے دوبارہ ان نیتاؤ سے اب تم نہ لٹواؤ

ہماری بھی "ضیاء”آخر یہی تو ایک چاہت ہے
کہ گلشن ھند کا مہکے گلوں سے خوب بھر جائے

مرے اس دیس کے بیکار نیتا جتنے ہیں سارے
سدھر جائیں گذر جائیں یا پھر یہ بھی مر جائے

تبصرے بند ہیں۔