مولانا سيد جلال الدين عمرى رحمة الله عليه

ڈاكٹرمحمد اكرم ندوى

نشست عارضى سے ہے سرائے دہر كى رونق

يه ہے اك كارواں جس پر بهرى محفل كا دهوكا ہے

آج (28 محرم 1444 ہجرى مطابق 26 اگست 2022م) كو لندن ميں ايك ميٹنگ ميں شريك تها، وقت مصروف گزرا،  پس ازاں يه غمناك خبر ملى كه سابق امير جماعت اسلامى ہند اور بيدار مغز  ونيكو خصال عالم  مولانا سيد جلال الدين عمرى كا انتقال ہو گيا، انا لله وانا اليه راجعون پڑهى،  لندن عبارت ہے شادماں گليوں سے،  دلربا   چمنستانوں سے،  جمال كى بہار آفرينيوں سے، پر فريب  جلووں سے، دانشكدوں  اور كتبخانوں سے، شوكت واقتدار كے ايوانوں سے، رنگ وصوت كى ادا كاريوں سے، يه خبر كيا آئى كه  شہر فسوں كار كى سارى رعنائيں دفن ہوگئيں، اور اس جانے والے نے   مسرت آگيں ماحول كو سوگوار كرديا۔

يه  سوچ كر غم افزوں ہوا كه ملت  كے اراكين  يكے بعد ديگرے داغ مفارقت دے رہے ہيں، اور ان كى جگه لينے والا كوئى نہيں، وه كيا ادائيں تهيں جن كا سوته ايمان ويقين  تها، وه جس كى گفتگو حكمت تهى، اور جس كى خاموشى دانائى سے عبارت تهى، ہائے وه شخص چلا گيا جسے ملت كى فكر تهى، جس كى ہر بات علم كى وسعت اور گہرائى كى غماز تهى، ہائے غم!  وه رخصت ہوا جو كوئى ايسا دعوى نہيں كرتا تها جس كى پشت پر معقول منطقى دليل نه ہو۔

اے مسلمانان ہند! تمہارے اندر ليڈروں، رہنماؤں، عالموں اور مفتيوں كى كمى نہيں! پر تفقه كا ملكه ركهنے والے عنقاء ہيں، نيك  طينت نا پيد  ہيں، نفع بخش افراد نادر الوجود ہيں، ايذا رسانى كے اس جہان كريه  ميں وه كون ہے جس سے كسى كو آزار نه ہو؟  تم بتاؤ كيا تمہارے اندر ان لوگوں كا قحط نہيں جن كى زبان سے مسلمان محفوظ ہوں؟ ظاہر پرستوں  سے انجمنيں آباد ہيں، اور   اصحاب باطن خال خال ہيں،  ہر سمت  رنگيں قبائيں ہيں، طرحدار ٹوپياں،   غرور جبه ودستار ہے، مگر وه نہيں جن كا  فخر لباس ساده ہے، اور جو آبروئے قناعت وزہد كے پاس دار ہيں،  افسوس كه مدعيوں كى بهيڑ ميں اہل معرفت وحقيقت  بے نشان ہو گئے ہيں،  الفاظ كے ميدان ميں گوئے سبقت ليجانے والے بہت ہيں، مگر تمہيں بتاؤ كه بحر معانى ميں شناورى كرنے والا كون ہے؟ كيا  اس جانے والے كا تصور اس كى وضع قطع كے بغير ممكن ہے؟ كيا علم ودانائى كو اس  سے الگ كيا جا سكتا ہے؟ كيا حلم وبردبارى قائم بذاته ہو سكتے ہيں؟ كيا جوہر كے بغير اعراض پائے جا سكتے ہيں؟

مولانا سے ميرى پہلى  ملاقات غالبًا سنه 1983م ميں عليگڑه  كى ايك ساده عمارت پان والى كوٹهى ميں ہوئى تهى، جہاں مجلۂ تحقيقات اسلامى كا دفتر تها، اور مولانا اس علمى وتحقيقى مجله كے بانى اور ايڈيٹر تهے، يه ملاقات ميرے محترم دوست اور ساتهى ڈاكٹر محمد رضى الاسلام ندوى كے توسط سے ہوئى جو عليگڑه مسلم يونيورسٹى كے طبيه كالج ميں زير تعليم تهے، اس وقت بهى ان كى دلچسپى طب سے زياده  مضمون نگارى اور فن تاليف  سے تهى، مولانا نے ان كى صلاحيت كا اندازه كر ليا تها، اور انہيں اپنى نگرانى ميں  بحث وتحقيق كے عظيم كام كے لئے تيار كر رہے تهے، اس كے بعد عليگڑہ ميں مولانا سے متعدد ملاقاتيں ہوئيں، جو اس قدر سرسرى تهيں كه شايد  ان كے نقوش دير پا نہيں تهے،  تاہم مولانا كے علم وحلم كا اثر كسى نہاں خانه ميں ضرور محفوظ ہو گيا تها۔

جب مولانا جماعت اسلامى كے امير منتخب ہوگئے، اور ڈاكٹر رضى الاسلام صاحب بهى دلى منتقل ہو گئے، تو مولانا سے تعلق  كى راہيں كهليں،  رضى الاسلام صاحب كى رہائش مولانا كے پڑوس ميں تهى، جب بهى رضى الاسلام صاحب كے گهر پر دعوت ہوتى تو مولانا بهى مدعو ہوتے، اور يوں مولانا سے استفاده كا موقع ملتا، مولانا نے بهى دو ايك بار دعوت كركے ميرى عزت افزائى كى۔

مجهے جماعت اسلامى  كے موقر  اراكين سے نياز حاصل رہا ہے، مولانا ابو الليث رحمة الله عليه كى بار بار  ندوه ميں زيارت ہوئى، لكهنؤ كے امير جماعت مولانا عبد الغفار ندوى سے ہموطن ہونے كى وجه سے قدرے  قربت تهى ، استاد گرامى مولانا شہباز عليه الرحمة جماعت اسلامى كے نماياں ركن تهے،   مگر  ميں جماعت اسلامى كا كبهى ممبر نہيں رہا، اور نه اس كى سرگرميوں ميں شركت  ہوئى،  اس كے با وجود جب بهى دلى جانا ہوا مولانا  مرحوم نے مختلف موضوعات پر اظہار خيال كى دعوت دى، كبهى كبهى شورى كے ممبران اور سٹاف  كے ساته بهى نشست كا انتظام كيا، ايك بار مركز كے اراكين سے مختصر گفتگو كے بعد  ميں نے عرض كيا كه ہميں اب مولانا كى بات سننى چاہئے، اس پر  مولانا نے جو بات فرمائى گرچه اس ميں ميرى ہمت افزائى تهى،  مگر اس سے زياده  وه بات مولانا كى تواضع اور حيا كى آئينه دار تهى ۔

امارت سے مولانا كى  سبكدوشى كے بعد دو بار دلى جانا ہوا،  ضعف وپيرى كى حالت ميں بهى مولانا نے مختلف پروگراموں ميں شركت كركے ميرى ہمت افزائى فرمائى، مختصر يه كه مولانا   خرد نوازى اور فراخدلى  كى جس عظيم خوبى سے متصف تهے اس كى مثال بہت كم ملے گى، آپ سے ملاقات كے دوران كبهى غيريت كا كوئى احساس نہيں ہوا،  بلكه  سچى بات يه ہے كه جماعت اسلامى كے مركز مين  مجهے غير معمولى اپنائيت نظر آئى، جماعت كے موجوده امير بهى فكر ونظر اور اخلاق ميں اپنے اسلاف كى راه پر گامزن ہيں۔

اس مضمون ميں زياده تفصيل كى گنجائش نہيں، پهر بهى مولانا كے بعض وه اوصاف ضرور بيان كروں گا جو ہمارے لئے قابل اتباع ہيں،  اور جن  كى وجه سے ميرے دل ميں مولانا كى عقيدت ومحبت بڑهتى گئى، ان خوبيوں كو تين عنوانوں ميں سميٹنے كى كوشش كروں گا۔

1-  عالمانه سنجيدگى،  فكرى متانت ووقار،  اور محققانه مزاج:

مولانا مرحوم  بلا شبہ ايك عظيم تحريك كے امير تهے، اور دعوت اسلامى سے آپ  كى دلچسپى بہت مستحكم  تهى، تا ہم  آپ  روايتى داعيوں اور مبلغين كے طريقه  سے جدا تهے،  بالعموم داعيوں كے اندر دو كمزورياں ہوتى ہيں  جن كى وجه سے وه صراط مستقيم پر قائم نہيں رہتے، ايك جذباتيت، دوسرے تقليد پرستى،  مگر مولانا جذباتيت  سے منزه تهے، بلكه  پيغمبروں كى سنت پر عمل كرتے ہوئے  خود كو علم وحكمت كى امانت كا علمبردار  سمجهتے تهے، آپ كى تقرير وتحرير قرآن، سنت، فقه اور اسلامى تاريخ كے عميق مطالعه پر مبنى ہوتى،  اسى طرح  آپ تقليد پرستى سے بہت دور تهے، آپ  كى تحريريں مولانا مودودى رحمة الله عليه كى صدائے باز گشت نہيں تهيں، بلكه ذاتى مطالعه اور تدبر  كا نچوڑ تهيں، حالات كے تقاضوں كے مطابق آپ نے جماعت اسلامى كى ترجيحات ميں تبديلياں كيں، جب كسى جماعت ميں ايسے لوگ ہوں گے وه جماعت زنده  رہے گى اور ترقى كى راه پر گامزن ، اور اگر جماعتوں سے علم وتحقيق اور منطقى استدلال رخصت ہو جائے تو جماعتيں لاشۂ بيجان بن جاتى ہيں، اور ان جماعتوںن سے وابسته افراد كى حيثيت مجاوروں سے زياده نہيں رہتى۔

2-   ملت وانسانيت كا درد:

مولانا سے  ملكر يا ان كى تحريريں پڑهكر  كبهى اس كا واہمه بهى نه گزرتا  كه  مولانا كسى جماعت كى ترقى يا تحريك كے غم ميں تڑپ رہے ہيں، بلكه آپ كے حركات وسكنات سے ہويدا تها كه  آپ  كا درد پورى ملت اور انسانيت كا درد ہے، كسى مكتبۂ فكر كے لئے نہيں بلكه مسلمانوں كے لئے سوچتے، اسى لئے آپ مسلمانوں كى ہر جماعت اور تحريك كے ساته ملكر كام كرتے، ان كى مشكلات ميں ان كا ساته ديتے، كسى جماعت پر كوئى دشوار وقت آ پڑتا تو اسے اپنا مسئله سمجهكر بيقرار ہو جاتے، اور تعاون كى مخلصانه كوشش كرتے۔

3-   نرمى:

ميرے نزديك مولانا كى يہى سب سے بڑى خوبى ہے، حديث شريف ميں آتا ہے كه نرمى جب كسى چيز سے ملتى ہے اسے خوبصورت بناديتى ہے،  مولانا كى  نرمى تكلف سے برى تهى، نرمى آپ كى فطرت ثانيه بن گئى تهى،  يه آپ كى گفتگو سے عياں ہوتى، آپ كا كردار  اس كى عكاسى كرتا، اور  آپ كى دعوت وتعليم پر يہى رنگ غالب ہوتا، كبهى نه لگتا كه آپ كسى بات پر احتجاج كر رہے ہيں، يا غصه كر رہے ہيں، يا جلد بازى ميں كوئى فيصله كر رہے ہيں، ہائے ہم يه سبق بهول گئے كه نرمى ہى سے بنائے قيادت قائم اور عمارت ملت  استوار ہے، اگر نرمى كو كسى فرد يا جماعت سے الگ كرديا جائے تو وه فسرده اور بے جان ہو جائے۔

وا اسفا! ان خوبيوں كا مالك ہم سے جدا ہوا، حق ہے كه اس كى جدائى كے غم ميں سارے مسلمان شريك ہوں كيونكه وه سب كا غمخوار تها، دعوت دين كے علمبردار اس پر نوحه خوانى كريں، كيونكه وه مسلك وجماعت كا محافظ نہيں بلكه دين اور اصول دين كا حامى تها، سارى انسانيت اس پر آنسو بہائے، كيونكه  وه انسانى اقدار كا حامل تها، اسے نه كسى سے كينه تها، نه حسد، بلكه وه سب كى بہترى كا خواہاں تها اور سب كى سلامتى كے لئے كوشاں تها۔

الله تعالى مولانا كے اعمال حسنه كو قبول فرما كر ان كے ساته مغفرت ورحمت كا معامله فرمائے، اور ہميں  علمائے صالحين كے نقش قدم پر چلائے، آمين۔

تبصرے بند ہیں۔