قلندرانہ ادائیں، سکندرانہ جلال

ڈاکٹر خان یاسر

آج مولانا سید جلال الدین عمری نے بھی رختِ سفر باندھ لیا اور دارفانی سے داربقا کی جانب ہجرت کرگئے۔ ایسا پہلی بار نہیں تھا کہ ہم نے ان کے سخت علیل ہونے کی خبر سنی ہو۔ مصائب سے لڑ کر سرخرو ہونا ان کا شعار تھا، امید تھی کہ اس بار بھی علالت کو شکست ہوگی، دو تین روز قبل آئی سی یو میں ملاقات ہوئی تو یہ تاثر اور مضبوط ہوگیا۔ مگر رب العالمین کا فیصلہ ہوچکا تھا، سو نافذ ہوکر رہا!

إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّآ إِلَيْهِ رَٰجِعُونَ

مولانا عمری ایک بلند پایہ مصنف تھے۔ تحقیق و تصنیف کو زندگی بھر اوڑھنا بچھونا بنائے رہے۔ زبان کا ستھرا ہوا ذوق رکھتے تھے اور عام فہم زبان میں ابلاغ معنی کی خداداد صلاحیت پائی تھی۔ علمی شعور اور تحقیقی ذوق مولانا صدرالدین اصلاحیؒ کی سرپرستی میں بالیدہ ہوا تھا۔ عمر بھر خود کو انتھک محنت کا عادی بنائے رکھا۔ مقالات و کتب کا جو عظیم الشان ذخیرہ انھوں نے چھوڑا ہے وہ صرف ان کے تصنیفی ملکہ کا نہیں بلکہ ان کی بے پایاں قربانیوں اور عمر بھر کی جدوجہد کا آئینہ دار ہے۔ اس تصنیفی سرمایے سے نئی نسلوں کو روشنی ملتی رہے گی۔

”معروف و منکر“، ”اسلام کی دعوت“، اور ”عورت اسلامی معاشرے میں“ وغیرہ ان کی کچھ خاص تصانیف ہیں۔ اخیر تک ”تحقیقات اسلامی“ جیسے موقر علمی مجلے کے مدیر رہے۔ یہ مختصر پوسٹ اس کی متحمل نہیں ہے کہ ان کے علمی کارناموں کا احاطہ اور تجزیہ کرلے۔ اس کے لیے باقاعدہ تحقیقی کاوشیں درکار ہیں۔

انھوں نے ایک عرصے تک تحریک اسلامی کی قیادت کی۔ بطور امیر جماعت ان کے کردار کا ناقدانہ تجزیہ تو مورخ کرے گا لیکن اس بات سے اختلاف ممکن نہیں کہ مولانا عمری نے نوجوانی ہی میں اقامت دین کو اپنا نصب العین بنایا اور پھر اس نصب العین کے لیے ہر طرف سے خود کو یکسو کرلیا۔ اللہ کی راہ میں سارا سرمایۂ حیات لٹا دینے کی جو مثال انھوں نے قائم کی ہے اُس میں اُن سب کے لیے سبق ہے جو اِس شہادت گہہ الفت میں قدم رکھتے ہیں۔

مولانا سے میرا جو تعلق رہا ہے وہ وہی ہے جو ایک امام سے کسی مقتدی کا ہوتا ہے۔ مولانا کو خوب سنا اور پسند کیا۔ تذکیری موضوعات کا حق ادا کرتے تھے۔ مسجد اشاعت اسلام میں فجر کی نماز جب پڑھایا کرتے تھے تو ان کی تلاوت دلوں میں سرور پیدا کرتی تھی۔ شخصیت میں خوداعتمادی اور استقامت تھی لہذا سوال و جواب کے سیشن بڑے کامیاب رہتے تھے پھر چاہے وابستگان کے ساتھ ہوں یا صحافیوں کے ساتھ۔ تفصیلی ملاقاتوں کی نوبت بہت زیادہ نہیں آئی لیکن سرسری ملاقاتوں اور نشستوں میں یہ جان کر خوشگوار حیرت ہوتی کہ مولانا مجھے ”اچھی طرح“جانتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ نکاح کے بعد جب میں ممبئی سے دہلی لوٹا، تو مسجد میں انھوں نے خود آگے بڑھ کر مبارکباد دی۔ بات چھوٹی سی ہے، لیکن دل کو چھو گئی ۔

جب ایس آئی او (دہلی) کی ذمہ داری مجھ پر تھی تو ساتھیوں نے منصوبہ بنایا کہ حلقے کی سطح کے ذمہ داران اور چند منتخب ممبران مولانا سے ان کی کتاب ”معروف و منکر“ سبقاً سبقاً پڑھیں گے تاکہ ہمارے اندر مطالعے کا ذوق بھی پیدا ہو اور محترم امیر جماعت سے استفادے کی ایک صورت نکل آئے۔ انھوں نے اپنی تمام تر مصروفیات کے باوجود اجازت بھی دے دی۔ لیکن وائے محرومی کہ یہ منصوبہ رو بہ عمل نہ آسکا۔

ڈاکٹر محمد رفعتؒ صاحب کے انتقال کے بعد مجھے مولانا جلال الدین عمری صاحب سے ملنا تھا تاکہ ان کے تاثرات قلمبند کرسکوں۔ اب تک میں کئی بار یہ جان چکا تھا کہ مولانا عمری مجھ سے واقف ہیں اور یہ بات بھی مجھے پتہ تھی کہ اگر طبیعت کچھ زیادہ ہی ناساز نہ ہوئی تو بہت آسانی سے وقت دے دیں گے، لیکن یک گونہ حجاب سا محسوس کررہا تھا، یہ حجاب یقیناً کسی اجنبیت کی وجہ سے نہیں تھا، یہ ایک بڑی علمی و تحریکی شخصیت کا رعب و داب تھا۔ چنانچہ ان سے وقت لینے کے لیے میں نے مولانا رضی الاسلام ندوی صاحب کا دامن تھاما۔ موصوف خود مصروف رہتے ہیں مگر کسی تعاون سے انکار نہیں کرتے۔ میری گزارش انھیں یقیناً مضحکہ خیز محسوس ہوئی ہوگی، انھوں نے ایک آدھ مرتبہ سمجھایا بھی لیکن پھر مرے اصرار پر مولانا سے وقت لے لیا اور ملاقات کے لیے مجھے بہ نفس نفیس لے کر ان کے گھر پہنچے۔ یہ ایپی سوڈ عام لوگوں کو کچھ خاص نہیں لگے گا لیکن جو احباب میری قیامگاہ اور مولانا کے گھر کے محل وقوع سے واقف ہیں وہ ضرور زیر لب مسکراچکے ہوں گے۔ خیر، مولانا رضی الاسلام ندوی صاحب کچھ دیر بیٹھے رہے پھر ہم دونوں کو محو گفتگو چھوڑ کر ہمارے ہاں (یعنی انڈین انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز اینڈ ریسرچ میں) کلاس لینے چلے گئے۔ دیر تک گفتگو ہوئی۔ میں نے ہلکے پھلکے سوال بھی پوچھے اور اپنی دانست میں پیچیدہ اور مشکل سوالات بھی کیے۔ موقع مناسب جان کر ادھر ادھر کی باتیں بھی کیں۔ مولانا عمری نے صفائی سے جوابات دیے۔ گفتگو فکری پختگی، ذوقِ مطالعہ، مولانا کی ذاتی زندگی، تحریک اسلامی، وقت اور حالات کی مناسبت سے پالیسیوں کی تبدیلی، تجربات کی کامیابی اور ناکامی وغیرہ موضوعات تک دراز ہوگئی۔ مولانا پریشان نہ ہوئے، اپنے علم و تجربے کی دولت لٹاتے رہے۔ یقیناً میں استفادے کا حریص تھا لیکن ان کی صحت کا خیال بھی تھا لہذا ہر پندرہ بیس منٹ پر میں ان کی طبیعت کا لحاظ کرتے ہوئے کہتا کہ اگر آپ کہیں تو میں بعد میں آجاؤں اور باقی باتیں آئندہ کرلیں لیکن انھوں نے گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ تک مجھے جانے کی اجازت نہیں دی۔ اس اثنا میں ان کے یہاں مہمان بھی آئے، میں نے اس وقت بھی اجازت طلب کی، لیکن انھوں نے نہیں دی۔ اس طرح کی دو چار نشستوں میں یہ کام بحسن و خوبی اتمام کو پہنچا۔

اس سلسلے کی ملاقاتوں سے اس بات کا صحیح اندازہ ہوا کہ ان کے نزدیک وقت کا ہر لمحہ کتنا اہم ہے۔ ان کے رکھ رکھاؤ اور شیڈول سے یہ بات ہر کسی پر واضح تھی لیکن ان ملاقاتوں میں یہ تاثر ذرا گہرا قائم ہوا۔ جب انھوں نے مجھے وقت دیا تو پورا اور بھرپور دیا۔ پہلے دن ہی، جیسا کہ سطور بالا میں ذکر ہوا، انھوں نے طے شدہ کام مکمل کیا بھلے ان کی صحت اجازت نہیں دے رہی تھی اور اتفاق سے اس وقت مہمان بھی آگئے تھے۔ میں نے ان کے خیالات ریکارڈ کیے، نوٹس بنائے اور پھر قلمبند کرکے ان کے سپرد کردیے۔ طے پایا کہ ایک دن مزید اسی طرح ملاقات کرکے کام کو مکمل کرلیں گے۔ وقت بھی طے ہوگیا۔ طے شدہ وقت پر میں ان کے گھر پہنچا۔ انھوں نے اندر بلالیا۔ طبیعت ٹھیک نہیں تھی، حد درجہ نقاہت تھی، البتہ انھوں نے مجھ سے تحریر لے لی، اس کو دیکھا، کوشش بہت کی لیکن طبیعت ساتھ نہیں دے رہی تھی۔ اس دن میں نے اجازت چاہی تو بادل ناخواستہ دے دی البتہ تحریر اپنے پاس رکھ لی اور انتہائی لجاجت اور شرمندگی کے ساتھ کہنے لگے کہ آج طبیعت بہت خراب ہے… رات بھر بے خوابی کی وجہ سے سو نہیں سکا… اس وقت بہت کوشش کررہا ہوں لیکن طبیعت حاضر نہیں ہے… خواہ مخواہ آپ کا وقت ضائع کیا… مجھے بہت افسوس ہے کہ آپ کا کام مکمل نہیں ہوا… حالانکہ میں نے ہی یہ وقت دیا تھا… یہ وقت ہر حساب سے مناسب بھی تھا… افسوس ہے… اور نہ جانے کیا کیا! میں اجازت ملتے ہی فوراً کھڑا ہوچکا تھا، میں نہیں چاہ رہا تھا کہ مولانا شرمندہ ہوں، بار بار کہہ رہا تھا کہ میں آپ کے پڑوس میں ہوں جب چاہوں آجاؤں گا، آپ جب بلالیں گے حاضر ہوجاؤں گا، طلبہ آپ کی خدمت میں آتے رہتے ہیں، کسی سے کہہ دیجیے گا، لیکن میرے گھر سے نکلنے تک مولانا معذرت کرتے رہے۔ ایک انسان جو خود وقت کا قدرداں ہوتا ہے وہ دوسروں کے وقت کی بھی قدر کرتا ہے۔

آخری ملاقات جب ہوئی تو وہ اسپتال کے انتہائی نگہداشت وارڈ میں مختلف آلات کے درمیان تھے، لیکن چہرے پر بشاشت تھی، دیکھتے ہی پہچان گئے، ہاتھ کے اشارے سے قریب بلایا، ان کے دائیں ہاتھ میں (غالباً آئی وی ڈرپ کے لیے) بندھی پٹی دیکھ کر میں جھجک رہا تھا لیکن انھوں نے خود مصافحے کے لیے ہاتھ آگے بڑھادیا، انتہائی بلند آواز میں خیریت دریافت کی اور میرے پوچھنے پر اللّٰہ کا شکر ادا کیا کہ اب ٹھیک ہوں۔ مرکز جماعت کے ایک کارکن وہیں موجود تھے، انھیں مغرب بعد کے لیے کوئی بات یاد دلائی۔ موصوف نے کہا کہ مولانا مغرب کا وقت تو ہوگیا۔ اس ”ہوگیا“ پہ غلطی سے انھوں نے اتنا زور دے دیا کہ مولانا پریشان ہوگئے۔ اور مولانا کو پریشان دیکھ کر وہ صاحب خود پریشان ہوگئے۔ مولانا نماز کے لیے فکرمند تھے۔ میں سمجھ گیا لہذا فوراً وضاحت کی کہ میں مغرب کی نماز مسجد میں ادا کرکے سیدھے یہیں آرہا ہوں، ابھی نماز کا وقت باقی ہے۔ یہ سن کر انھوں نے اطمینان کا سانس لیا، اور تیمم کرکے نماز پڑھنے لگے۔ اس حالت میں نماز کی یہ فکر دیکھ کر دل و دماغ کو نئی حرارت ملی۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مولانا سید جلال الدین عمری کی مغفرت فرمائے، ان کے درجات بلند فرمائے، اور تحریک اسلامی کو بہترین نعم البدل سے نوازے۔

تبصرے بند ہیں۔