مولانا جلال الدین عمری : کڑے سفر کا بڑا مسافر

ڈاکٹر سلیم خان

مولانا کی رحلت  نے طبیعت  اس قدربوجھل کردی ہےکہ سمجھ میں نہیں آتا بولیں کیا ؟ اور کیا لکھیں؟ قلم سوکھ گیا ۔ ہاتھ اور دماغ دونوں  شل ہوگئے۔  تقریباً چالیس سال پرانی رفاقت اگر ایک دم سے ختم ہوجائے تو ایسا ہونا فطری ہے۔ مولانا سے پہلی ملاقات  علی گڑھ کے  ادارہ تحقیقات  وتصنیفات میں ہوئی۔  اس وقت وہ امیر جماعت نہیں تھے ۔ آخری ملاقات بھی ادارت کے اجلاس میں علی گڑھ کے اندر ہی ہوئی۔ اس وقت بھی وہ امیرِ جماعت نہیں تھے ۔ وہ مجھے اپنا مرید مانتے اور میں ان کو مرشد مانتا تھا۔   یہ صدا بہار   تعلق تنظیمی نہیں  بلکہ روحانی تھا  اس لیے موسم کی تبدیلی سے بالکل  متاثر نہیں ہوا۔  گزشتہ شوریٰ کے موقع پر مولانا کی طبیعت ناساز  تھی پھر بھی اجلاس میں شریک رہے۔ پہلی بار ایسا محسوس ہوا کہ وہ   جسمانی طور  پر خاصے کمزور ہوگئے ہیں حالانکہ قلب و ذہن   ہمیشہ کی طرح ہشاش بشاش تھے۔  علی گڑھ کے اجلاس میں کیفیت بدل گئی تھی۔  ایسا محسوس ہورہا تا تھا کہ مولانا نے ضعف کو شکست دے دی ہے۔ ان کے خطاب پر عمر کے اثرات بالکل نہیں تھے ۔ اس اجلاس کا حاصل ان کا خطاب اور ان کو صحت مند دیکھ کر حاصل ہونے والی خوشی تھی لیکن وہ دیرپا نہیں ہوسکی چند ماہ کے بعد ہی مولانا خالق و مالک سے اسی طرح  جا ملے جیسا کہ حفیظ میرٹھی نے کہا؎

حیات جس کی امانت تھی اس کو لوٹا دی  

میں آج چین سے سوتا ہوں پاؤں پھیلا کر

اللہ تبارک و تعالیٰ نے مولانا محترم کو اپنے پاس بلا لیا ۔ اب وہ  اس جہاں سے نکل رب ذوالجلال  کی پناہ میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مولانا جلال الدین عمری کو اس دنیا میں بہت ساری نعمتوں سے نوازہ۔ انہوں نے خدمت دین کے لیے ان کا بھر پور استعمال کیا۔ ان کی دینی اور تحریکی خدمات پر بہت کچھ لکھا جائے گا۔ علم و فضل کے جو چراغ انہوں نے روشن کیے ہیں وہ اپنا نور پھیلاتے رہیں گے ۔ یہ ان کے لیے ثوابِ جاریہ ہےلیکن وہ دلنواز شخصیت اب ہمارے درمیان نہیں رہی جن سے قلب و ذہن کو ایک نئی زندگی اور تازگی ملتی تھی۔ فرشتۂ اجل مولانا  کو مالکِ برحق کی بارگاہ میں  لے گیا۔  یقین  ہے کہ رب کائنات ان کی سعیٔ جمیل کو قبول فرما کر انہیں  بہترین جنتوں میں اعلیٰ مقام پر فائز کرے گا مگر   داغ ِمفارقت کے غم  کا کوئی علاج نہیں ہے۔ اب ہمارے پاس ان کے ساتھ گزرے ہوئے لمحات کی خوشگوار  یادوں اور   دعائے خیر  کے سوا کچھ  بچا نہیں ہے۔  ایک ایسی شخصیت جن سے شرفِ نیاز کی خواہش  بار بار دہلی بلاتی تھی ، اب نہیں رہی ۔ مولانا دہلی کے ساتھ دل کی دنیا کو سوُنا  کر گئے ۔ ان کے ایک تعزیتی پیغام کا یہ شعر ہم سب کی  قلبی کیفیت کا ترجمان ہے؎

کڑے سفر کا تھکا مسافر تھکا ہے ایسا کہ سوگیا ہے 

خود اپنی آنکھیں تو بند کرلیں ہماری  آنکھیں  بھگو گیا ہے

تبصرے بند ہیں۔