اسلامی قانون کے اہم شعبے

تحریر: مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ… ترتیب: عبدالعزیز

اس سیاسی اقتدار کی تشکیل کیلئے سب سے پہلے ایک دستوری قانون (Constitutional Law) کی ضرورت ہے اور شریعت نے اس کے تمام ضروری اصول مقرر کر دیئے ہیں۔ ریاست کا اساسی نظریہ کیا ہے؟ اس کے قیام کا مقصد کیا ہے؟ کون لوگ اس کے شہری ہوسکتے ہیں؟ ان کے حقوق اور واجبات کیا ہیں؟ کس بنیاد پر کسی کو حقوقِ شہریت ملتے اور کس بنا پر وہ سلب ہوسکتے ہیں؟ اسلامی ریاست میں غیر مسلم شہریوں (ذمیوں) کے حقوق و واجبات کیا ہیں؟ ریاست کے قانون اور اختیارات کا ماخذ کیا ہے؟ حکومت کا انتظام کن اصولوں پر چلایا جائے گا؟ انتظامی اختیارات کس کے سپرد کئے جائیں گے؟ اس کا تقرر کون کرے گا، کس کے سامنے وہ جواب دہ ہوگا، کن حدود کے اندر وہ کام کرے گا؟ قانون سازی کے اختیارات کس کو کس حد تک حاصل ہوں گے؟ عدالت کے حقوق و فرائض کیا ہوں گے؟ دستوری قانون کے ان تمام بنیادی مسائل کا واضح جواب شریعت نے ہم کو دے دیا ہے۔ پھر ان اصولوں کو صاف صاف متعین کرنے کرنے کے بعد وہ ہمیں آزاد چھوڑ دیتی ہے کہ دستور کی تفصیلی شکل و صورت ہم خود اپنے حالات اور ضروریات کے مطابق بنالیں۔ ہم اس امر کے پابند تو ضرور کئے گئے ہیں کہ اپنی ریاست کے دستور میں شریعت کے مقرر کئے ہوئے ان اصولوں پر قائم رہیں لیکن کوئی مفصل دستور ہر زمانے کیلئے ہم کو بناکر نہیں دیا گیا ہے جس کے اندر فروعی رد و بدل بھی جائز نہ ہو۔
تشکیل کے بعد اسلامی ریاست کو اپنا نظام چلانے کیلئے ایک انتظامی قانون (Administrative Law) کی ضرورت ہے۔ سو اس کے بھی تمام بنیادی اصول شریعت نے واضح کر دیئے ہیں اور مزید برآں اس معاملہ میں ہماری رہنمائی کیلئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدیںؓ کی مثالی حکومت کے نظائر بھی موجود ہیں۔ ایک اسلامی ریاست اپنی آمدنی کیلئے کس قسم کے ذرائع اختیار کرسکتی ہے اور کس قسم کے ذرائع اختیار نہیں کرسکتی؟ حکومت کے واصلات میں کس قسم کے تصرفات درست ہیں اور کس قسم کے نا درست؟ فوج، پولس، عدالت اور نظم و نسق کے مختلف شعبوں میں حکومت کا رویہ کیا ہونا چاہئے؟ باشندوں کی اخلاقی اور مادی فلاح کیلئے حکومت پر کیا فرائض عائد ہوتے ہیں؟ کون سی بھلائیاں جنھیں قائم کرنے اور فروغ دینے کیلئے اسے کوشش کرنی چاہئے اور کون سی برائیاں ہیں جنھیںروکنا اور دبانا اس کے فرائض میں سے ہے؟ باشندگان ملک کے معاملات زندگی میں حکومت کس حد تک دخل انداز ہونے کی مجاز ہے؟ ان امور میں شریعت ہم کو محض اصولی ہدایات ہی نہیں دیتی بلکہ خاص خاص مسائل کے متعلق قطعی اور صریحی احکام بھی دیتی ہے لیکن پورے نظم و نسق کے معلق اس نے کوئی تفصیلی ضابطہ بناکر ہمیں نہیں دے دیا ہے جسے ایک ہی شکل و صورت پر ہمیشہ اور ہر زمانے میں قائم رکھنے پر ہم مامور ہوں اور جس میں کسی قسم کا تغیر و تبدل کرنے کی ہمیں اجازت نہ ہو۔ دستوری قانون کی طرح انتظامی قانون میں بھی تفصیلی ضوابط بنانے کی پوری آزادی ہمیں حاصل ہے۔ البتہ اس آزادی کو ہم ان اصولوں اور حدود کے اندر ہی استعمال کرسکتے ہیں جو شریعت نے مقرر کر دیئے ہیں۔ اس کے بعد اجتماعی قانون (Public Law) اور شخصی قانون (Private Law) کے وہ ابواب آتے ہیں جو معاشرے میں امن اور انصاف قائم کرنے کیلئے ضروری ہیں۔
ان ابواب میں شریعت اتنے وسیع پیمانے پر ہمیں تفصیلی احکام اور اصولی ہدایات دیتی ہے کہ کسی دور میں اور معاملات زندگی کے کسی گوشے میں بھی ہم کو اپنی قانونی ضرورتوں کی تکمیل کیلئے شرعی حدود سے باہر جانے کی ضرورت پیش نہیں آسکتی، جو تفصیلی احکام اس نے دیئے ہیں وہ ابد تک ہر ملک اور ہر دور کی سوسائٹی میں یکساں صحت کے ساتھ جاری ہوسکتے ہیں (بشرطیکہ زندگی کا وہ مجموعی نظام بھی جس میں آپ ان احکام کو جاری کریں، اسلام کی ہدایت پر چل رہا ہو) اور جو اصولی ہدایات اس نے دی ہیں وہ اس قدر جامع ہیں کہ قریب قریب اکثر معاملات زندگی تمام ضروری قوانین ان کی روشنی بنائے جاسکتے ہیں، پھر جن معاملات میں شریعت کسی قسم کے احکام اور ہدایات نہیں دیتی، ان میں خود شریعت ہی کی رو سے اسلامی ریاست کے اہل الرائے اور اصحاب حل و عقد باہمی مشورے سے قوانین بنانے کے مجاز ہیں اور جو اس طرح قوانین بنائے جائیں گے وہ قانون اسلام ہی کا ایک جز شمار ہوں گے، کیونکہ وہ شریعت کی دی ہوئی اجازت کے تحت بنائے گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کی ابتدائی صدیوں میں ہمارے فقہاء نے استحسان اور مصالح مرسلہ وغیرہ عنوانات کے تحت جو احکام مدون کئے تھے وہ قانون اسلام ہی کے اجزا سمجھے گئے۔
سب سے آخر میں قانون کا ایک شعبہ وہ بھی ہے جس کی ایک ریاست کو اپنے بین الاقوامی تعلقات کیلئے ضرورت پیش آتی ہے، اس باب میں شریعت نے جنگ اور صلح اور غیر جانبداری کی مختلف حالتوں کے متعلق اسلامی ریاست کا برتاؤ متعین کرنے کیلئے بہت تفصیلی ہدایات دی ہیں اور جہاں تفصیلات نہیں دی وہاں ایسے اصول دے دیئے ہیں جن کی روشنی میں مزید تفصیلات مرتب کی جاسکتی ہیں۔
اسلامی قانون کا استقلال اور اس کی ترقی پزیری: اس مختصر تشریح سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ علم قانون کے جتنے شعبوں پر انسانی تصور آج تک پھیل سکا ہے ان میں سے کوئی شعبہ بھی ایسا نہیں ہے جس میں شریعت نے ہماری رہنمائی نہ کی ہو۔ یہ رہنمائی کس کس شکل میں کی گئی ہے اس کا اگر تفصیلی جائزہ لے کر دیکھا جائے تو یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہے کہ اسلامی قانون میں کیا چیز قطعی اور مستقل ہے اور اس کے ایسا ہونے کا فائدہ کیا ہے اور کون سی چیز اب تک ترقی پزیر ہے اور کس طریقہ سے ہر دور میں ہماری بڑھتی ہوئی تمدنی ضروریات کو پورا کرسکتی ہے۔
اس قانون میں جو چیز اٹل ہے وہ تین اجزا پر مشتمل ہے۔ (1 قطعی اور صریح احکام جو قرآن یا ثابت شدہ احادیث میں دیئے گئے ہیں، مثلاً شراب اور سود اور قمار کی حرمت، چوری اور زنا اور قذف کی سزائیں اور میت کے ترکہ میں وارثوں کے حصے۔ (2 اصول احکام جو قرآن اور ثابت شدہ احادیث میں بیان ہوئے ہیں، مثلاً یہ کہ ہر نشہ آور چیز حرام ہے یا یہ کہ لین دین کے جن طریقوں میں منافع کا تبادلہ آپس کی رضامندی سے نہ ہو وہ باطل ہیں یا یہ کہ مرد عورتوں پر قوام ہیں۔ (3 حدود جو قرآن و سنت میں اس غرض کیلئے مقرر کی گئی ہیں کہ ہم اپنی آزادیِ عمل کو ان کے اندر محدود رکھیں اور کسی حال میں ان سے تجاوز نہ کریں، مثلاً ازدواج کیلئے بیک وقت چار عورتوں کی حد یا طلاق کیلئے تین کی حد یا وصیت کیلئے ایک تہائی مال کی حد۔
اسلامی قانون کا یہ اٹل اور قطعی واجب الاطاعت حصہ ہی در اصل وہ چیز ہے جو اسلامی تہذیب و تمدن کے حدود اربعہ اور اس کی مخصوص امتیازی شکل و صورت معین کرتا ہے، آپ کسی ایسی تہذیب و تمدن کی نشاندہی نہیں کرسکتے جو اپنے اندر ایک ناقابل تغیر و تبدل عنصر رکھے بغیر اپنی ہستی اور اپنی انفرادیت کو برقرار رکھ سکے۔ اگر کسی تہذیب میں ایسا کوئی عنصر بھی نہ ہو اور سب ہی کچھ قابل ترمیم و تنسیخ ہو تو فی الحقیقت وہ سرے سے کوئی مستقل تہذیب ہی نہیں ہے۔ وہ ایک پگھلا ہوا مادہ ہے جو ہر سانچے میں ڈھل سکتا ہے اور ہر وقت اپنی شکل بدل سکتا ہے۔
علاوہ بریں ان احکام اور اصول اور حدود کا تفصیلی مطالعہ کرنے سے ہر معقول آدمی اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ شریعت نے حکم جہاں بھی دیا ہے ایسے موقع پر دیا ہے جہاں انسانی قوتِ فیصلہ غلطی کرکے ’’معروف‘‘ سے ہٹ سکتی ہے۔ ایسے مواقع پر شریعت صاف حکم دے کر یا صریحاً منع کرکے یا اصول بتاکر یا حد لگاکر گویا نشانات راہ (Sign Posts) کھڑے کر دیتی ہے تاکہ ہمیں معلوم ہوجائے کہ صحیح راستہ کس طرف ہے۔ یہ نشانات ہماری رفتار ترقی کو روکنے والے نہیں ہیں بلکہ ہمیں سیدھی راہ پر لگانے اور ہمارے سفر زندگی کو بے راہ روی سے بچانے کیلئے ہیں۔ ان مستقل قوانین کا معتدبہ حصہ ایسا ہے جن پر کل تک دنیا اعتراض کر رہی تھی، مگر ہمارے دیکھتے دیکھتے تجربات اور تلخ تجربات نے کل معترضین کو آج معترف بنا دیا ہے اور انہی قوانین کی خوشہ چینی پر وہ مجبور ہو رہے ہیں۔ مثال کے طور پر میں صرف اسلام کے قانون ازدواج اور قانون میراث کی طرف اشارہ کافی سمجھتا ہوں۔
اس پائیدار اور اٹل عنصر کے ساتھ ایک دوسرا عنصر ایسا ہے جواسلامی قانون میں بے اندازہ وسعت پیدا کرتا ہے اور اسے زمانہ کے تمام بدلتے ہوئے حالات میں ترقی پزیر بناتا ہے۔ یہ عنصر کئی اقسام پر مشتمل ہے۔
(1 تعبیر یا تاویل احکام، یعنی کوئی حکم جن الفاظ میں دیا گیا ہو ان کا مفہوم سمجھنے اور ان کا منشا متعین کرنے کی کوشش کرنا۔ یہ فقہ اسلامی کا ایک بہت ہی وسیع باب ہے۔ قانونی دماغ اور نکتہ رس نگاہ رکھنے والے لوگ جب کتاب و سنت میں غور و خوض کرتے ہیں تو وہ شریعت کے صریح احکام میں بھی مختلف تعبیرات کی گنجائش پاتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک اپنے فہم و بصیرت کے مطابق کسی ایک تعبیر کو بہ دلائل دوسری تعبیروں پر ترجیح دیتا ہے۔ یہ تعبیر اختلاف پہلے بھی امت کے اہل علم میں رہا ہے، آج بھی ہوسکتا ہے اور آئندہ بھی یہ دروازہ کھلا رہے گا۔
(2 قیاس، یعنی جس معاملہ میں کوئی صاف حکم نہ ملتا ہو اس پر کسی ایسے حکم کو جاری کرنا جو اس سے ملتے جلتے کسی معاملہ میں دیا گیا ہو۔
(3 اجتہاد، یعنی شریعت کے اصولی احکام اور جامع ہدایات کو سمجھ کر ایسے معاملات پر ان کو منطبق کرنا جن میں نظائر بھی نہ ملتے ہوں۔
(4 استحسان، یعنی مباحات کے غیر محدود دائرے میں حسب ضرورت ایسے قوانین اور ضوابط وضع کرنا جو اسلام کے مجموعی نظام کی روح سے زیادہ سے زیادہ مطابقت رکھتے ہوں۔
یہ چاروں چیزیں ایسی ہیں جن کے امکانات پر اگر کوئی شخص غور کرے تو وہ کبھی اس شبہ میں نہیں پڑسکتا کہ اسلامی قانون کا دامن کسی وقت بھی انسانی تمدن کی روز افزوں ضروریات اور متغیر حالات کیلئے تنگ ہوسکتا ہے، لیکن یاد رکھئے کہ اجتہاد و استحسان ہو یا تعبیر و قیاس، بہر حال س کا مجاز ہر کس و ناکس نہیں ہوسکتا۔ آپ ہر راہ رو کا یہ حق تسلیم نہیں کرسکتے کہ وہ موجودہ ملکی قانون کے کسی مسئلہ پر فیصلہ صادر کر دے، اس کیلئے قانونی تعلیم اور ذہنی تربیت کا ایک خاص معیار آپ کے نزدیک بھی ناگزیر ہے جس پر پورا اترے بغیر کوئی شخص ماہرانہ رائے زنی کا اہل نہیں مانا جاسکتا۔ اسی طرح اسلامی قانون کے مسائل پر بھی رائے زنی کا حق صرف انہی لوگوں کو دیا جاسکتا ہے جنھوںنے اس کی ضروری اہلیت بہم پہنچائی ہو۔ تعبیر احکام کیلئے ضروری ہے کہ آدمی اس زبان کی نزاکتوں سے واقف ہو جس میں احکام دیئے گئے ہیں۔ ان حالات سے واقف ہو جن میں ابتدا میں یہ احکام دیئے گئے تھے۔ قرآن کے اندازِ بیان کو اچھی طرح سمجھتا ہو اور حدیث کے ذخیرے پر وسیع نگاہ رکھتا ہو۔ قیاس کیلئے ضروری ہے کہ آدمی اتنی لطیف قانونی حس رکھتا ہو کہ ایک معاملہ کو دوسرے معاملہ پر قیاس کرتے ہوئے ان کی مماثلت کے پہلوؤں کو ٹھیک ٹھیک سمجھ سکے، ورنہ ایک کا حکم دوسرے پر منطبق کرنے میں وہ غلطی سے نہیں بچ سکتا۔
اجتہاد کیلئے شریعت کے احکام میں گہری بصیرت اور معاملات زندگی کا عمدہ فہم۔ محض عام فہم ہی نہیں بلکہ اسلامی نقطۂ نظر سے فہم درکار ہے۔ استحسان کیلئے بھی ناگزیر ہے کہ آدمی اسلام کے مزاج اور اس کے نظام زندگی کے مجموعہ میں صحیح طور پر جذب ہوسکیں۔ ان علمی اور ذہنی صلاحیتوں سے بڑھ کر ایک اور چیز بھی درکار ہے، جس کے بغیر اسلامی قانون کا ارتقاء کبھی صحیح خطوط پر نہیں ہوسکتا اور وہ یہ ہے کہ جو لوگ اس کام کو انجام دیں، ان کے اندر اسلام کی پیروی کا ارادہ اور خدا کے سامنے اپنی جواب دہی کا احساس موجود ہو۔ یقینا یہ کام ان لوگوں کے کرنے کا نہیں ہے جو خدا اور آخرت سے بے پرواہ ہو کر محض دنیوی مصلحتوں پر نگاہ جما چکے ہوں اور اسلامی قدروں کو چھوڑ کر کسی دوسری تہذیب کی قدریں پسند کرچکے ہوں۔ ایسے لوگوں کے ہاتھوں اسلامی قانون کا ارتقاء نہیں ہوسکتا، صرف اس میں تحریف ہوسکتی ہے۔
ْ

تبصرے بند ہیں۔