مولانا عبدالماجددریابادی کی صحافت کا تجزیاتی مطالعہ

عبدالقادر صدیقی

آج جب کہ یونیورسٹیوں اور کالجز میں صحافت کا کورس پڑھا یا جاتا ہے ضروری ہیکہ اردو صحافت اور صحافیوں کی خدمات کو سامنے لایا جائے اور ان کی صحافت کے اقدار کا آج کی صحافت کے گرتے معیار سے موازنہ کیا جائے ۔ما قبل آزادی اور مابعد آزادی اردو صحافت اور بالخصوص ملی صحافت میں جن لوگوں نے اپنے ان مٹ نقوش چھوڑے ہیں ان میں ایک نام نامی ہفت روزہ ’’سچ، ’’صدق ‘‘ اور’’ صدق جدید ‘‘ کے مدیر مولانا عبدالماجد دریا بادی بھی ہیں۔ آپ نے صحافت کی ،اور کم و بیش نصف صدی تک بھرپور صحافت کی ۔ مو لانا عبدالماجد دریا بادی کا نام نامی اردو ادب اور انشاء پردازی میں محتاج تعارف نہیں۔ آپ کے حسن انشا ء اور اردو ادب کی خدمات پربہت زیادہ نہیں تو کچھ حد تک ضرور لکھا گیا اور سنایا گیا ہے ۔ لیکن افسوس ! آپ کی صحافتی خدمات پر کچھ زیادہ نہیں لکھا گیا اور یہ پہلو عوام کی نظروں سے اوجھل ہی رہا ۔ لیکن جب خدا کسی کو ظاہر کرنا چاہے تو بھلا کون اسے اوجھل رکھ سکتا ہے ۔ ان ہی کے خانوادے سے ایک فرد (ان کے اپنے بھتیجے عبدالعلیم قدوائی) نے اس سمت میں قدم بڑھانے کی ہمت کی اور’’ مولانا عبدالماجد صاحب دریابادی مرحوم کی صحافت کا مطالعہ و تجزیہ ‘‘ کے نام سے مولانا کی صحافتی خدمات پر ایک علمی کتاب منظر عام پر آگئی ۔جس میں بڑی عرق ریزی سے نہ سہی لیکن بہت غرق ریزی سے مولانا کے تینو ں اخبارات ’’سچ‘‘ ، ’’صدق ‘‘ اور’’ صدق جدید ‘‘ کے مضامین کا بہترین انتخاب کیا گیا ہے ۔ قومی کاؤنسل برائے فروغ اردو زبان ۔دہلی کے مالی تعاون سے شائع ہونے والی یہ کتاب مع پیش لفظ اور حرف چند (مقدمہ) اور چار ابواب کے دو سو اٹھاون صفحات پر مشتمل ہے ۔ کتاب کے پہلے باب میں مصنف عبدالعلیم قدوائی صاحب نے مو لانا عبدالماجد دریا بادی کے بچپن میں مضمون نگاری اور صحافتی دلچسپی کو بطور انکے صحافتی زندگی کے بیک گراونڈ کے طور پر پیش کیا ہے ۔ اور دکھایا ہے کہ مولانا کو مضون نگاری سے بچپن سے ہی کتنا شغف تھا ۔ کتاب کے دوسرے باب میں مصنف نے ’’سچ‘‘ ، ’’صدق ‘‘ اور’’ صدق جدید ‘‘ کا مختصر تعارف مع اس کی پالیسی اور زبان و بیان کے صحت کے پیش کیا ہے ۔ کتاب کا تیسرا باب کتاب کی اصل جان ہے جس میں مولانا کے تینوں ہی اخبار کے عمدہ سے عمدہ مضامین کا انتخاب ہے جس میں’’ ہندو مسلم مشترک تمدن‘‘ ، ’’اردو میں ہندی‘‘، ہندو مسلم اتحاد کا سچا واقعہ، ’’اردو ادب میں ہندوؤں کا حصہ‘‘ ’ اردو پریس اور اخباروں میں ہندوؤں کا حصہ ‘‘ جیسے سیکولر مضامین ہیں اور ’’ کیا یہ نمرودی خدائی ہے ‘‘، ’’ الفاظ کا جادو‘‘ اور’’ امانت کے اندر سبھا میں ہندی‘‘ جیسے طنزیات بھی ہیں ۔ اس کے علاوہ کچھ کتابو ں پر کئے گئے تبصرات کے نمونے بھی ہیں۔ لیکن کتاب کا سب سے دلچسپ اور دلآویز حصہ مولانا کے ریڈیو نشریات کا انتخاب ہے، جس میں مولانا کے الفاظ کا جادو اور تحریر کی سلا ست و شگفتگی اپنے نقطہ عروج پر ہے ۔اس میں ’’ عیدالفطر ‘‘ ، غالب کا فلسفہ ‘‘ ، ولادت باسعادت( سیرت النبی ) ، نیٹشے ، رومی اور اقبال اور امراؤ جان او ادا ‘‘ پانچ نشریے ہیں۔ ویسے تو ہر ہر نشریہ ادب و انشاء کی جان ہے اورایک منجھے ہوئے صحا فی کی صحافت اور ریڈیو ٹاک کی پہچان ہے۔ لیکن ان میں’’ نیٹشے رومی اور اقبال‘‘ والا نشریہ اولی مقام رکھتا ہے ، اس نشریہ میں اقبال اور نیٹشے کے فلسفہ کے پیچیدہ گتھی کو جس سلیقے ،قرینے اور دلچپ انداز میں ادبی حسن اور حظ کے ساتھ پیش کر دیا ہے وہ صرف اور صرف انداز ماجدی کا ہی خاصہ ہو سکتا ہے۔ کتاب کا چوتھا اور آخری باب یا خلاصہ ’’ مو لانا دریا بادی بحیثیت صحافی‘‘ ہے ۔ جس میں مصنف عبدالعلیم قدوائی نے مولانا کے اصول صحافت اور طرز صحافت پر گفتگو کی ہے اور صحافت ماجدی کی چھ خصوصیات اور گیارہ مقاصد شمار کرائے ہیں۔ مولانا کے خانوادے سے تعلق رکھنے اور تینوں اخبار کے قاری ہونے کے سبب مصنف مولانا کے صحافتی مزاج ا ور صحافتی پالیسی کے امین اور شاہد ہیں ۔ مصنف کا زبان و بیان بہت سہل ہے اور کہیں کہیں پر تحریر ماجدی کی بھی جھلک مل جاتی ہے ۔ کتاب کا کاغد اور اور چھپائی عمدہ ہے لیکن سرورق اور بھی دیدہ زیب ہوسکتا تھا ، کتاب کے آخری صفحہ پر مصنف کا تعارف نہیں ہو نا بھی کھلتا ہے۔ اس کے باوجود کتاب اردو صحافی ، اردو صحافت کے قارئین اور سب سے بڑھ کر صحافت کے طلباء کے لیے بہت مفید ہے ۔ اس کے علاوہ ادبیات ماجدی اور انشائے ماجدی کے پرستاروں کی ادبی تشنگی مٹانے کے لیے بھی بہترین ہے ۔ مزید یہ ماجدد ریابادی کے صحافتی اور ادبی خدمات پر ایک اور دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ اور بقول مصنف : ان کی صحافت ( مو لانا دریا بادی کی صحافت) کے مطالعہ اور تجزیہ سے اخلاقی اقدار اور زندگی کے مثبت نظریوں کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے سے بڑی مدد مل سکتی ہے‘‘۔ کتاب کی قیمت کی بات کی جائے توا س گرانی کے زمانہ میں دو سو اٹھاون صفحات والی کتاب کی قیمت 143 روپے کچھ زیادہ نہیں مناسب ہے ۔ کتاب ایجو کیشنل بک ہاؤس ، مسلم یونیورسٹی ، علی گڑھ ، صدق فاونڈیشن ، خاتون منزل حیدر مرزا روڈ لکھنو سے حاصل کی جاسکتی ہے ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔