پاگل خانے کا سچ

مشرّف عالم ذوقی 
شکسپیئر نے کہا تھا ..دی شو مسٹ گو آن ..اس لئے نہیں کہا تھا ،کہ سیاست کے خوفناک ڈرامہ باز اپنی اداکاری سے 125 کروڑ عوام کو گونگا اور بہرا بنا دیں — آج ملک میں ،حقیقت میں یہی تماشا ہو رہا ہے …ایک عریاں سیاسی رقص میں عوام کے جذبات کو سیدھے حب الوطنی سے جوڑ دیا گیا ہے .مجھے یاد ہے ،لوک سبھا انتخاب سے قبل یہی میڈیا تھا ، جو اڈانی کا نام کسی مجرم کے طور پر لیتا تھا  . اڈانی جرم اور مافیا کی علامت بن گیا تھا .آج کی تاریخ میں یہ نام ایک ایسے شخص کا نام ہے جو ملک کی مدد کر رہا ہے ..کاروباری اور سیاسی غنڈے ،فرقہ پرست دیکھتے ہی دیکھتے ملک کے ہیرو ہو گئے …آپ چینلز پر نوجوانوں کی گفتگو سنیں تو جیسے سارا برین ،واش کر دیا گیا ہو …یہ  نوجوان اس بات کو تسلیم کرتے ہیں  کہ کہ ملک کے لئے ٥٠ دن قطار میں  کھڑا ہونے میں کیا برایی  ہے ؟ معاشی سطح پر یہ 50 دن ہندوستان کے غریب کو کھوکھلا کر دے گا –.مزدور کنواں کھود کر دو روتی کی فکر کرے گا یا اپنے ہی پیسوں کے لئے قطار میں کھڑا  رہے گا ؟ گوا اور غازیپور کی سبھاؤں میں جذباتی تقریر سے جھوٹ پر پردہ ڈالنے کی ہر ممکن کوشش کی گیی –گوا میں آنسو بھی بہے .یہ بھی کہا گیا کہ 50 دن بعد اگر ملک کی حالت نہ سدھری تو مجھے جو چاہے سزا سنائیے ؟ کون سزا سناےگا مودی صاحب ؟ گجرات کے معصوم مسلمانوں کے قتل کو بھی ہندوستان بھول گیا — عوام تو سزا انتخاب میں سناتی ہے .لیکن مذہب اور ملک کی محبت کے نام پر عوام ایک ایسے افیم کے نشے میں ڈوبی  ہے ،جس سے باہر نکلنے کی کوششیں نظر  نہیں آتیں ..
غریبوں کے حوصلے پست ہیں .بغاوت کا منظر ہے پھر بھی عوام اس نام کو لینے سے خوف کھا رہی ہے ،جس نام نے اسے بھوکے پیاسے قطار میں صبح  سے شام تک کھڑا رکھا ہے .اور اس قطار سے بھی کم ہی لوگوں کی مراد پوری ہوتی ہے …گوا کی تقریر میں یہ بھی کہا گیا کہ یہ بین محض فلم کا ٹریلر ہے .یعنی فلم ابھی باقی ہے .آزادی کے بعد سے ہندوستانی عوام کے بینک اکاونٹ کی تلاشی لی جائے گی ..خوب ..امبانی اور اڈانی کی تلاشی نہیں لی جائے گی ….؟.بابا رام دیو  پر اپنے ہی گرو کے قتل کا الزام ہے .یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ بابا کے پاس یہ لاکھ کروڑ کی دولت کہاں سے آ گیی ؟ ہیما مالنی کو مہاراشٹر حکومت  نے کوڑیوں  کے مول میں زمین فروخت کی .ایسی ہزاروں مثالیں خود مودی صاحب  کو اپنی پارٹی میں مل جاےنگی . ان پر نشانہ نہیں .نشانہ غریب کی دولت پر ..کیا ہندوستانی اس حقیقت کو بھول جاہیں کہ لوک سبھا انتخاب میں بھاجپا نے ، ساٹھ ہزار کروڑ کی رقم خرچ کی تھی ؟ یہ سفید دھن تھا یا کالا دھن ؟ ساتھ ہزار کروڑ کی آ ہوتی دینے والا آج عوام کو سفید اور سیاہ کے فرق کو سمجھا رہا ہے .
مشکل یہ کہ مودی نے اپنے لوگوں کو ایک ہی سبق سکھایا ..دلیل اور منطق سے ہندوستان نہیں چلے گا .اپنی دلیل اور منطق سے کام چلاؤ .یہی دلیل میڈیا کو بھی گوارا ہوگی .معصوم  عوام کو ہندوستانیت کا انجکشن لگا دو ..اور مستقل لگاتے رہو .اس سے اپوزیشن ہمیشہ ناکام ثابت  ہوگا ..
ہم ایک ایسے پاگل خانے کا حصّہ ہیں ،جہاں سے اچھا ہو کر نکلنے کی کویی تدبیر ممکن نہیں …جو پورے پاگل ہیں وہ مر جاینگے .جو آدھے ادھورے پاگل بچینگے ،وہ  پورا پاگل ہونے اور مرنے کے لئے ابھی سے تیار ہو جاہیں ….خس کم جہاں پاک …
ہماری بدقسمتی کہ ہمارے ملک کی اپوزیشن مردہ ہے .دو ڈھائی برس کے عرصۂ میں اگر اپوزیشن چاہتی تو ملک میں انقلاب آ چکا ہوتا .سونیا بیمار اور بیمار نہیں بھی ہوتی تو مردہ کانگریس میں جان ڈالنا سونیا گاندھی کے بس کی بات نہیں تھی . کانگریسی لیڈر نکممے -راہل ابھی بھی شہزادے اور پپو کی امیج سے باہر نہیں نکلے ہیں .اس وقت حال یہ ہے کہ پورے ملک میں غم و غصّے کی تیزلہر ہے مگر اپوزیشن کو جس طرح بارود کی طرح پھٹنا چاہیے تھا ،یہ آگ دور دور تک نظر نہیں آ رہی ..
ابھی کے واقعیات دیکھ لیجئے .اب ثابت ہو چکا ہے کہ امبانیوں ادانیوں اور بھاجپا کی کابینہ کو نوٹ پر بین لگنے کی خبر مہینوں پہلے سے تھی۔ 2000 کے نوٹ میں ، ہندی زبان میں دو کی جگہ دون لکھا ہوا ہے .جو ایک فاش غلطی ہے — آر بی آی سے اس غلطی کی امید نہیں کی جا سکتی .نوٹ چھوٹے سائز کے چھاپے گئے جو ائے ٹی ام سے نکل ہی نہیں سکتے .ارون جیٹلی کے مطابق دو ھفتے کا وقت لگے گا پھر آخر عوام کو پیسوں پیسوں کے لئے محتاج کرنا کیا کسی سزا سے کم ہے ؟یہ کام اگر کانگریس نے کیا ہوتا تو مودی اور بھاجپا سارا ہندوستان سر پر اٹھا لیتے .میڈیا آگ لگا دیتا .عوام میں بغاوت پھیل چکی ہوتی .لیکن آج عالم یہ کہ دو ایک بے تکے بیان کے علاوہ کویی نہیں بول رہا .یہی حکومت کی فتح ہے .کیجریوال بول رہے ہیں لیکن کیجریوال کی ریاستی سطح پر کویئی حیثیت نہیں رہ گیی .کیا یہ وقت نہیں تھا کہ کیجریول کے ساتھ تمام اپوزیشن متحد ہو کر ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتا .سوال یہ بھی ہے کہ مودی کے بعد کون ؟ کیا ہم اسی اپوزیشن کے لئے خود کو تیار کر رہے ہیں جو مردہ اور بے حس لاش کی طرح ہمارے درمیان ہے .ہمیں ایسی اپوزیشن کسی قیمت پر گوارا نہیں جو ہماری آواز نہ بن سکے ..ظالم سامنے ہے تو آج نہ کل ہم اس سے لڑ لینگے –جیت بھی جاینگے ..لیکن مردہ ،بے حیثیت، نکمے لوگوں کو حکومت نہیں دینگے جن کی آواز عوام کے حق میں کبھی سامنے نہیں آتی .
یہی ہے ہماری جمہوریت ..جہاں میڈیا خریدا جا چکا ہے اور اپوزیشن صرف اقتدار کی خواہش میں نکما ،لاچار اور سرد لاش کی طرح تھکا ہوا اور بے جان ہمارے سامنے ہے …اس صورت حال میں ہمیں ان پر بھروسہ نہ کرتے ہوئے خود آگے بڑھ کر بڑا اور مرکزی کردار ادا کرنا ہوگا …کیا اس کے لئے ہم تیار ہیں؟
یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔