گوادر سے لے کر تابہ خاک کاشغر

تسنیم کوثر
13  نومبر 2014 کو بالآخر   مشہور زمانہ چین پاک  اقتصادی کوریڈور کا افتتاح پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف نے کر دیا اس کے ساتھ ہی  خطے میں بہت سارے اختلافی اور خطرناک سوالات نے بھی سر اٹھا لیا ہے۔گرم پانیوں کا  یہ بھنور کس کس کو  نگلے گا؟ہمارے لئے اچانک بلوچستان نے کیوں اہمیت اختیار کر لی ہے ؟لگاتار بم دھماکے کیوں ہو رہے ہیں ؟  ساوتھ چائناسی کس بلا کا نام ہے ؟ہمارے بھی تحفظات ہیں اور  یہ توجہ طلب بھی  ہیںمگر ہماری خارجہ پالیسی کا یُوٹرن کہیں  زیڈ سے زیرو ٹرن  نہ ثابت ہو۔۔۔۔۔!اگر پچھلے کچھ ایک سال میں رونما ہونےوالےپے در پے واقعات کا تجزیہ کریں تو  یہ سول بھی سر ابھارے گا  کہ کیا ہم اگلے سیریا بننے والے ہیں ؟ایشیا میں ٹرانس پیسیفک پارٹنرشپ کے نام سے گیارہ ملکوں کا ایک نیا اتحاد قائم ہوا  تھا،  جس کو عرف عام میں ٹی پی پی کہتے ہیں ،جاپان اسمیں شامل ہونے والا بارہواں ملک ہے ۔یہ فری ٹریڈ ایگریمنٹ  بھارت کی نگاہ سے بہت اہم ہے ۔ اسمیں چین اور پاکستان شامل نہیں ہیں۔جب یہ  بنا تو خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ اس سے آسیان کو دھکہ پہنچے گا اور ہم نے دیکھا کس طرح ہند پاک  سرحدی تنا زعہ اور مسلہ کشمیر نے آسیان کو ٹکڑوں میں بانٹ دیا ۔اوبامہ جاتے جاتے ےیہ کارنامہ ہائے انجام دے گئے ۔حال ہی میں لیموا  کے نام سے بھارت اور امریکہ نے اسٹراٹیجک سمجھوتہ بھی کیا ہے جس کی رو سے اب ہم نے اپنے کاندھے امریکہ کے لئے سرجیکل اسٹرائیک اور ڈرون اسٹرائیک  کے لئے بخوشی فراہم کر دئے ہیں۔پہلے ہم برطانیہ کے غلام تھے اب امریکہ کے ہوگئے ہیں۔کیا المیہ ہے کہ ہماری مُہار جسکے ہاتھ میں ہے وہ بدنام زمانہ مسلم دشمن ہے اور دیرینہ دشمن اسرائیل سے ہاتھ ملا کر خود کو دنیا کی مسلم دشمن فوج کا سپہ سالار بننے کا خواہاں ہے۔ یہ سب نہ تو حب علی ہے نہ بغض معاویہ۔یہ فریمیسن کا شیطان ہے۔
   پاکستان  کے صوبہ بلوچستان  میں واقع گوادر بندرگاہ  نے 2007 میں اس وقت اہمیت حاصل کی جب  پرویز مشرف نے بندر گاہ کی حیثیت سے اس کا افتتاح کیا تھا مگت27 اگست 2013 کو جب پاکستانی حکومت نے چین کے ساتھ ایک اقتصادی سمجھوتہ کر کے چین کو عالمی منڈیوں تک خصوصاٰ مغربی ایشیااور افریقی ممالک تک کم مسافت کی راہداری فراہم کرنے کا اعلان کیا تو اچانک ساری دینا اس جانب متوجہ ہو گئی ۔ ترویج و توسیع کا کنٹریکٹ پہلے سنگاپور کو دیا گیا تھا لیکن سنگاپور کا اس منصوبے میں صرف کمرشل مفاد تھا۔چین اس بندرگاہ سے خود فائدہ اٹھانے میں دلچسپی رکھتا ہے اس لئے وہ زیادہ سرگرم  ہو گیا۔ چین نےایک طویل مدتی منصوبہ بندی کے تحت گوادر پورٹ میں سرمایہ کاری کی ۔ پورٹ کی سب سے زیادہ اسٹراٹیجک اہمیت چین کیلئے  ہی ہے۔ چین کے دفاعی، تجارتی، علاقائی، مفادات کیلئے گوادر پورٹ اسکی شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے یہی وجہ ہے کہ چین اب تک 198 ملین ڈالرز کی سرمایہ کاری سے کوسٹل ہائی وے تعمیر کر چکا ہے جو گوادر پورٹ کوکراچی سے ملاتا ہے اس منصوبے میں چین کی دلچسپی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ چین کے پاس گرم پانیوں کی کوئی بھی بندرگاہ نہیں ہے جو کہ تمام سال تجارتی جہازوں کی آمد و رفت کو جاری و ساری رکھے۔ چین کی شنگھائی پورٹ اسکے انڈسٹریل ایریا سے 4300 کلومیٹر دور ہے جبکہ گوادر پورٹ کا فاصلہ چین کے انڈسٹریل ایریا سے 2500 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے جہاں گہرے سمندر کے گرم پانیوں کی موجودگی سارا سال تجارتی سرگرمیوں کو بحری جہازوں کے ذریعے قائم رکھنے کے قابل ہے۔ گوادر پورٹ کی تعمیر اور سرگرمیوں سے مغربی چین میں بھی بہت زیادہ ترقی ہو گی کیونکہ کاشغر سے گوادر پورٹ کا فاصلہ  محض  1500 کلومیٹر ہے جبکہ کاشغر سے چین کی مشرقی کوسٹ 3500 کلومیٹر دور ہے۔ معاشی ماہرین کے مطابق گوادر پورٹ کے ذریعے چین کی ہزاروں کلومیٹر دور سے تیل اور گیس کو درآمد کرنے کے فاصلے کو کافی حد تک کم کرنے میں مدد گار ثابت ہو گی۔ چین کی60 فیصد توانائی کے ذرائع خلیج فارس کے راستے عموماً سٹریٹ آف ملاکہ سری لنکا کے ذریعہ پہنچتے ہیں جس کیلئے چینی بحری جہازوں کو 10,000 کلومیٹر راستہ طے کرنا پڑتا ہے۔ گوادر پورٹ کی وجہ سے یہ فاصلہ 2500 کلومیٹر رہ جاتا ہے ۔  اس پورٹ کی تعمیر سے ہمارے مفادات کو متاژر ہونا ایک قدرتی امر ہے۔ یہی وجہ ہے  کہ اسی سال ستمبر کے مہینے میں جی ۔۲۰ کانفرنس کے موقع پر نریندر مودی نے اس منصوبے پر اپنے چینی ہم منصب سے ناراضگی کا بر ملا اظہار  بھی کر دیا تھا۔ اور  یہ کوریڈور پاکستانی مقبوضہ کشمیر کے گلگت اور بلتستان علاقوں سے ہو کر گذرتا ہے جس پر ہندوستان کا دعوئٗ ہنوز برقرار ہے۔ مجوزہ سڑک ہندوستانی کشمیر سے محض چند کلو میٹر کے فاصلے پر ہے جس کی وجہ سے ہندوستانی سیکورٹی کو سخت خطرات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ویسےبھی گذشتہ چند سالوں میں   چین نے بنگلہ دیش ، میانمار، مالدیپ اور سری لنکا کے ساتھ ملک کر ساوتھ چائنا سی میں جو مشرقی زون قائم کیا ہے اس کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ خطے میں امریکہ کے سب سے بڑے دوست ہندوستان کو گھیرنے کی کوشش ہے ایسے میں مغربی سمت میں یہ کوریڈور ملک کی چاروں طرف سے گھیرا بندی کر لے گا۔  یہ حالات ایک طرف ملک کو چین اور امریکہ کے مابین ہونے والی اقتصادی جنگ کے میدان میںتبدیل کر دیں گے۔  دوسری طرف مغربی ایشیا  کے موجودہ حالات میں مسلم ممالک کا روس اور چین کی طرف بڑھتا ہوا رجحان  خطے میں امریکہ مخالف لابی کو طاقت دے رہا ہے ان حالات میں ہندوستان کا امریکی حلیف ہونا ان ممالک کو بھی ہند مخالفت پر اکسانے لگے گا۔ کہا جاتا ہے کہ امریکی دباو میں ہی ہندوستان نے سری لنکا  پر دباو ڈال کر چین کے مال بردار جہازوں کی آمدورفت پر قدغن لگا دی۔حال ہی میں ہندوستان میں چین کے سازوسامان کے بائیکاٹ کی مہم چلی جو اب بھی جاری ہے۔جسنے یہاں چین کے کاروبار کو 40 فیصد کم کر دیا ۔مگر کیا  اب چین کو اسکی پرواہ ہوگی؟اسنے کھلے بندوں اعلان کر دیا ہے کہ جاپان سے پینگیں بڑھائیں یا دہشت گردی سے ڈرائیں  اسکو جو کرنا تھا وہ کر چکا ۔ایک اور بڑا  واقعہ یہ ہے کہ انٹر پول کا  نیا ڈائریکٹر چینی ہے ۔ روس کی سرگرمیاں بھی عروج پر ہیں ۔ٹرمپ کی جیت میں روس کا ہاتھ ہے کیونکہ ہلیری کلنٹن کے ای میل لیک کا ماسٹر مائنڈ روس کی پناہ میں ہے۔اب آئیے چین کی پیشرفت کا جائزہ لیں ۔کاشغر سے چلا اسکا مال بردار قافلہ گوادر پہنچ گیا ہے اور یہ ایک تاریخی واقعہ ہے جسکے نتائج بھی دوررس ہونگے۔چین کے لئے گوادر پورٹ نے خلیجی اور افریقی ممالک کیساتھ براہ راست رابطے کو ممکن بنا دیا ہے۔اب اگرسری لنکایا  امریکہ ابنائے ملاکہ کو بلاک بھی کر دے تو چین کےلئے بحیرہ عرب کا تجارتی راستہ ہمیشہ کےلئے کھلا رہے گا۔ گوادر پورٹ کے ذریعے چین خلیج فارس میں تیل کی ترسیل کےلئے گزرنے والے تمام جہازوں کی نقل و حمل کو مانیٹر کر سکتا ہے اسکے علاوہ خلیج فارس اور خلیج عدن میں ہندوستان کی نیوی کی سرگرمیوں کو بھی نظر میں رکھے گا  اور مستقبل میں یہ چین کا دفاعی نقطہ نظر سے نیول بیس بھی بن جائیگا۔ یہ توانائی کی ترسیل کا دروازہ بن جائیگا کیونکہ گوادر آبنائے ہرمز کے منہ پر واقع ہے۔سیکورٹی امور کے بھارتی تجزیہ کار کہتے ہیںکہ ترقی کے نام پر فوجی سرگرمیوں  کے لئے پورٹ کا استعمال کیا جاتا ہے تو ہمسایہ ملکوں میں تشویش لازمیہے۔ اس وقت سب ملکوں کو فکر ہے کہ چین گوادر کی بندرگاہ کا فوجی استعمال کر سکتا ہے۔ اس بندرگاہ کو بھارت کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے جس علاقے سے گوادر بندرگاہ کو جوڑنے والی سڑکیں یا ریلوے لائن گزرے گی، وہاں امن و امان کے مسائل  پیدا ہوں گے۔
 غورطلب ہے کہ چین کے اگر اس خطے میں فوجی مقاصد نہ ہوتے تو وہ کبھی اتنی بڑی سرمایہ کاری نہ کرتا۔تجزیہ کار مانتے ہیں کہ چین پورے بحر ہند میں جس طرح اپنے آپ کو منوانے کی کوشش کر رہا ہے، وہ بھی بھارت کے لئے تشویش کی بات ہے ۔ اس کے علاوہ گوادر سے آنے والی جو سڑک پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے گزر کر کاشغر جائے گی، اس پر بھارت کو شدید تحفظات ہیں۔
اب اگر اس خطے  کے خدوخال اور حدود  و اربع کا جائزہ لیں تو  یہ خطہ ایک قیف کی مانند ہے اس قیف Funnel کے اوپر والا کھلا حصہ سنٹرل ایشیا اور چین کے مغربی حصے پر مشتمل ہے اور اس قیف کے تنگ حصے میں افغانستان اور پاکستان کا پورا خطہ آ جاتا ہے۔ اور اس قیف کے آخر پر گوادر پورٹ ہے۔ لہذا یہ قیف توانائی کی ترسیل کا دروازہ ہونے کی وجہ سے پورے خطے کی معاشی قیف ہے لہذا اب گوادر پورٹ اپنی جغرافیائی پوزیشن کی وجہ سے سنٹرل ایشیا اور جنوب مغرب کے ساتھ ایک گیٹ وے کی حیثیت اختیار کرے گا اور یہ گیٹ وے دنیا کے تمام ممالک کا سنٹرل ایشیاءکے ممالک کیساتھ تجارتی روابط کا ایک سستا اور موثر ذریعہ بنے گا۔ سنٹرل ایشیا، کی ریاستیں 1.6ملین مربع میل کے رقبے پر مشتمل ہیں کیسپین کے سمندری خطے میں 200 بلین بیرل تیل کے ذرائع اور 3,000 بلین کیوبک میٹرز گیس کے ریزروز ہیں چنانچہ افغانستان کے حالات ٹھیک ہونے کے بعد مشرق وسطیٰ، جنوبی ایشیا، چین سمیت بیس سے زیادہ ممالک کے تین ارب لوگوں  درمیان گوادر پورٹ کے ذریعے درآمدات اور برآمدات ہونگی۔
تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ جنوبی ایشیا، مغربی ایشیا اور سنٹرل ایشیا کی ریاستوں کے درمیان ٹرانزٹ ٹریڈ، تیل اور گیس کی پائپ لائنوں کی تعمیر کوسٹل ٹریڈ جیسی تجارتی اور صنعتی سہولتوں سے اس خطے کے تمام ممالک افغانستان، ترکمانستان، قازقستان، اومان، یو اے ای، سعودی عرب، ایران، قطر، چین میں معاشی خوشحالی کے نئے دور کا آغاز ہو جائیگا کیونکہ یہ آنے والے وقتوں میں دنیا کا سب سے اہم توانائی کا دروازہ ثابت ہو گا۔ اور امریکی منڈی کا متبادل بھی بن  کر خطے میں امریکی  اقتصادی ، فوجی اور اسٹرٹیجک مفادات کو ختم کر دینے کے مترادف ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان اور امریکہ کو گوادر پورٹ میں چین کی شراکت کسی صورت میں قابل قبول نہیں ۔مگر پاکستان میں چین کے سفیر نے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ ہندوستان سمیت کسی بھی ملک کو ہمارے اور پاکستان کے درمیان معاہدے پر تشویش کی کوئی ضرورت نہیں ہونی چاہئے۔ یہ معاہدہ دونوں ممالک کے معاشی مفاد میں ہے جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا چین بلوچستان میں امن وامان کی صورتحال سے پریشان ہے تو سفیر محترم نے کہا کہ قطعاً نہیں ہم پہلے ہی پاکستان کے ساتھ 120مشترکہ منصوبوں پر کام کر رہے ہیں اور حکومت پاکستان ہمیں مکمل تحفظ فراہم کر رہی ہے اور اس سلسلے میں ہمیں قطعاً کوئی پریشانی نہیں ہے۔پاکستانی ماہرین کی رائے میںگوادر پورٹ میں پاکستان چین کے باہمی تجارتی تعلقات سے خطے میں جیوپولیٹیکل اور جیوسٹریٹجک توازن قائم کرنے میں خاصی مدد ملے گی جو امریکہ کےبھارت کی طرف یکطرفہ جھکاؤ سے بگڑ چکا ہے۔تاہم جغرافیائی اور سیاسی امور پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ چین نے اسی طرح کے معاہدے افریقہ کے ساتھ ساتھ ویت نام، سری لنکا اور بنگلہ دیش کے
ساتھ بھی کیے ہیں اور یہ کہ گوادر کا منصوبہ چین اور پاکستان دونوں کے لیے بے انتہا اسٹریٹیجک اہمیت کا حامل ہونے کے ساتھ ہی مغربی ایشیا کی کشمکش میں  بھی فیصلہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔۔لیکن یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ آنے والے دنوں میں یہ تمام پیش رفت  ایشیا ئی ممالک کی جست وخیز میں اضافے کا سبب بنیں گی اور سپرمیسی کی اس جنگ میں امریکہ روس اور چین باہم دست وگریباں ہونگے اور نتیجے میں چاک دامانی    ہمارا مقدر نہ بن جائے۔تو یہ بھی بعید از قیاس نہیں کہ تیسری عالمی جنگ پانی پہ لڑی جائے گی
یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔