مولانا محمد برکت اللہ خان صاحب قاسمیؒ کی یاد میں!

مفتی محمد صادق حسین قاسمی 

    متحدہ ریاست آندھراپردیش کی ممتاز علمی شخصیت اور ملک کے مایہ ناز عالم ِ دین امیر شریعت حضرت مولانا محمد برکت اللہ خان صاحب قاسمی ؒکی وفات کوپورا ایک سال ہوگیا ہے ۔5جون 2016ء کو آپ اس دنیا سے رحلت فرماگئے ،وقت کس قدر تیزی کے ساتھ گزر گیا کہ آپ کے انتقال کو ایک سال بھی گزرچکا ،اور آج بھی نگاہوں میں ان کی مجلسوں کے نظارے باقی ہیں ، چشم ِ تصور میں ان کا سراپا اور باکمال شخصیت کا وجود اپنی تمام تر تابانیوں کے ساتھ موجود ہے، آپ کی یادیں اورقیمتی باتیں قلب ودماغ میں محفوظ ہیں ،اور آپ کی جدائی کے احساس وتصور سے جسم وجاں پر بے کلی طاری ہے۔بلاشبہ جن کا وجود ملت ِ اسلامیہ اور بالخصوص ہماری ریاست اور ہمارے شہر کے لئے ایک عظیم نعمت تھا۔بقول شاعر:

کتنے اچھے تھے کیا رونقیں تھیں ان کے ساتھ

 جن کی رخصت نے ہمارا شہر سونا کردیا

     امیر ِشریعت ،مخزن ِعلم وحکمت حضرت مولانامحمد برکت اللہ خان صاحب قاسمیؒ کی شخصیت ایسے چند انسانوں اور عبقری شخصیتوں میں سے ایک تھی جن پر زمانہ فخر کرتا ہے اور انسان جن سے فیض یاب ہوتے ہیں ،جو بلاشبہ مسند درس و تدریس کے کامیاب استاذ تھے ،علوم و فنون میں بے مثا ل تھے ،علوم ِقرآن وحدیث کے نکتہ داں تھے ،میدان خطابت کے شہوار تھے ،سیادت وقیادت میں میر کارواں تھے ،علم وحکمت ،فراست وبصیرت میں نادرہ ٔ روزگارتھے ،فقہ وقضا ء کے رمز شناس تھے،اسلاف واکابر کی یادگار تھے ،احقاقِ حق و ابطال ِ باطل میں ہمیشہ سینہ سپر تھے،ملت ِ اسلامیہ کی رہبری کے لئے سوز ِ جگر رکھنے والے تھے،غرض یہ کہ اللہ تعالی نے ایک فردِ واحد میں ایک جماعت ،ایک تحریک ،اور ایک تنظیم والی خوبیوں اور کمالات کو جمع فرمادیا تھا،اور وہ اپنے دور ِ آغاز سے لے کر آخری سانس تک خدا کے دین کی خدمت کرتے ہوئے ،نبی کریم ﷺ کی احادیث کی تعلیم وتشریح کرتے ہوئے مالک ِ حقیقی سے جاملے ۔ایسے لوگ مدتوں بعد پیدا ہوتے ہیں ،زمین اپنی بے نوری پر روتی ہے تب جاکر اس خاک سے ایسے لعل وگوہر نمودار ہوتے ہیں ،اور پھر ایک انقلاب برپاکرتے ہیں ،ایک تاریخ رقم کرتے ہیں ،ایک عہد ِ تازہ تیا رکرتے ہیں اور آنے والی نسلوں کے لئے ایک یادگار بن جاتے ہیں ۔

حضرت مولانا محمد برکت اللہ خان صاحب کی خدمات کا دائرہ تقریبا نصف صدی پر پھیلا ہوا ہے۔اس موقع پر ایک مختصر تذکرہ آپ کا کرتے ہیں تاکہ ذہن ودل میں اپنے اس عظیم محسن کی ایثار وقربانیوں کااحساس تازہ ہوجائے۔اپنے بڑوں کی خدمات کو یاد رکھنا اور اس سے روشنی حاصل کرتے رہنا یہ ہمارے لئے ضروری ہے ،اس پر فتن دور میں ان کی مخلصانہ خدمات ،دین کے تئیں فکرمندی وبے چینی  ہمارے حوصلوں کو جلابخشتی ہے ،اور خادمان دین و داعیان ِ اسلام کے لئے زادِ راہ کا کام انجام دیتی ہے ۔

 کریم نگر کی سرخیز سرزمین کو اللہ تعالی نے جہاں بہت سی خصوصیتوں سے نوازا ہے وہیں اس کو یہ اعزاز بھی ملا کہ اس علاقے میں جس دور میں علماء کی تعداد کافی کم تھے ،اور دین کے بے لوث خادموں کی سخت ضرورت تھی ایسے دور میں حضرت مولانا محمد برکت اللہ خان صاحب ؒ یہاں قدم رنجہ ہوئے اور فراغت کے ٹھیک دس سال بعدمئی  1969ء میں کریم نگر تشریف لائے ، اس کو اپنا وطن ثانی بنایا اور ہمیشہ کے لئے یہیں کے ہوکر رہے گئے اور خدمت کرتے کرتے ،علم کے دئیے جلاتے جلاتے ،اصلاح کی محنتیں انجام دیتے دیتے ،اہلیان کریم نگر کی دینی تشنگی مٹاتے مٹاتے اسی خاک میں مدفون ہوگئے۔ضلع کریم نگر بالخصوص اور پوری ریاست بالعموم آپ کی عظیم اور بے لوث خدمات کی گواہ ہے ۔آپ نے اس سرزمین سے اور یہاں کے رہنے والوں سے نہ صرف محبت کی بلکہ ان کے لئے اپنے آپ کو نچھاور کردیا ،ایک ایسا محسن جس نے یہاں پر دین کے خاطر اپنا سب کچھ قربان کرکے عمر پوری یہیں گزاردی۔ذیل میں صرف ریاست کے دو مؤقر علماء اور عظیم صاحب ِ قلم شخصیات کے تاثراتی مضامین سے مختصر اقتباس نقل کرتے ہیں ( ان حضرات کے علاوہ بھی ملک کے ممتاز اکابرعلماء کرام کی تحریریں آپ کی خدمات پر ہیں ) ۔

    حضرت مولانا محمد عبدالقوی صاحب مدظلہ آپ کی خدمات کا تذکر ہ کرتے ہوئے تحریرفرماتے ہیں :’’مولانا ؒ نے اپنے وطن ’’دیوریا ‘‘ضلع بستی سے دین کی نسبت پر علاقہ ٔ دکن میں قدم رنجہ فرمایاتھا،پھر مدت العمر یہیں دینی، علمی واصلاحی خدمات انجام دیتے رہے ،اس زمانہ میں جنوب کی سرزمین میں علماء دیوبند معدودے چند تھے ،اس وقت انہی مخلص بزرگوں نے امت کے عقائد واعمال کا رخ موڑا،رسوم وبدعات کودین سمجھنے والی ایک پوری قوم کو دین و سنت کی حقیقت سمجھائی ،صحیح راہ دکھلائی ،اس کے لئے ہر ممکن ایثار وقربانی سے کام لیا ،آج انہی کے گھروں میں سینکڑوں حفاظ وعلما،صحیح الفکر اور سدید العمل وجود میں آگئے ہیں ۔فجزاھم اللہ خیر الجزاء‘‘

 حضرت مولانا سید احمدومیض صاحب ندوی نقشبندی مدظلہ لکھتے ہیں :’’مولانا برکت اللہ خان قاسمی ؒ اپنی گوناگوں خصوصیات اور مختلف علمی ،تدریسی و دعوتی خدمات کے سبب علماء کے حلقہ میں ممتاز مقام رکھتے تھے،انہوں نے شمالی ہند سے ایک ایسے وقت میں دکن کے علاقہ میں قد م رکھا جب کہ اس وقت اہل ِ حق علماء کی بڑی قلت تھی،نیز اس دور میں بدعات وخرافات کا خوب دوردورہ تھا،دکن کے اضلاع میں دینی مدارس برائے نام تھے،مولانا نے ان بنجرعلاقے کو اپنی خدمات کا میدان بنایا۔‘‘

 آپ جامعہ سبیل السلام حیدرآباد کے صدر المدرسین و شیخ الحدیث تھے ۔جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے امیر شریعت آندھراپر دیش تھے، علمائے آندھر پردیش کی قدیم تنظیم ’’مجلس ِ علمیہ‘‘کے رکن تاسیسی تھے ،جمعیۃ علماء آندھراپردیش کے سرپرست اور رکن عاملہ تھے ،مجلس العلماء والحفاظ کریم نگر کے سرپرست اور ماہ نامہ’’ الاصلاح‘‘ کے سرپرست ِ اعلی تھے۔ اس کے علاوہ بہت سے مدارس اور تنظیموں کے سرپرست بھی تھے۔

 انسان دنیا میں ایک دن مرنے کے لئے آیا ہے ،یہاں پر کسی کی زندگی کو دوام نہیں ہے ،موت ایک اٹل حقیقت ہے جس سے کسی کو مفر نہیں ۔چناں چہ اپنی حیاتِ مستعار کا ایک طویل دور خداکے دین کی خدمت اور نبی کی تعلیمات کی تشریح کرتے ہوئے حضرت مولانا محمد برکت اللہ خان صاحب ؒقاسمی2شعبان 1437ھ  مطابق5 جون2016ء کو صبح کی اولین ساعتوں میں نماز ِ فجر کی ادائیگی کے دوران انتقال فرماگئے ۔

 جانے والے دنیا سے چلے جاتے ہیں لیکن ان کی یادیں ہمیشہ زندہ رہ جاتی ہیں اور بالخصوص کوچ کرنے والے دینی ،ملی اور قومی رہبر و رہنما ہو تو پھر ان کی زندگی ہروقت انسانوں کے لئے مشعل ِ راہ بن جاتی ہے،ان کا کردار وعمل ہر ایک کو دعوتِ فکر وعمل دیتا ہے۔چناں چہ اگر اب ہمارے درمیان امیرشریعت نہیں رہے لیکن ان کی فکریں ،ان کی محنتیں اور ان کی جدوجہد کے میدان پیغام دے رہے ہیں ان کو جاری وساری رکھاجائے ،خلقِ خدا کو فائدہ پہنچانے اور بندگان ِ رب کو دینی تعلیمات سے آراستہ کرنے کی کوششوں کو برابر انجام دیتے رہیں !مولانامحمد برکت اللہ خان صاحب ؒ کی خوبی وامتیاز تھا کہ وہ خوش خلقی اور ملنساری ،محبت وحکمت کے ساتھ ہر کسی کو اپنے سے قریب کرتے ،دوراندیشی اور فکر وتدبر کے ساتھ الجھے ہوئوں کو سلجھاتے اور علم وتحقیق کے ساتھ علمی تشنگی مٹاتے،مدلل گفتگو کرنا آپ کے وعظ وخطابت کی خصوصیت رہی ۔الغرض ان گنت خوبیوں اور کمالات سے اللہ تعالی نے نوازا تھا۔ضرورت ہے کہ آپ کی فکروں کو آگے بڑھایا جائے اور دینی میدان میں آپ کے خوابوں کو پوراکرنے کی کوشش کی جائے۔اللہ آپ کے درجات بلند فرمائے ۔

تبصرے بند ہیں۔