عشرۂ مغفرت ،اسبابِ مغفرت اور اہلِ مغفرت!

 اسلام مولانا محمد الیاس گھمن

 اللہ تعالیٰ کی رحمت سے’’ عشرئہ ِ رحمت‘‘ مکمل ہونے والا ہے اور اس کے بعد اْس غفور ، غفّار اور ذومغفرۃ ذات کی طرف سے انعام کے طور پر’’ عشرئہ ِ مغفرت ‘‘ شروع ہونے والا ہے ، رمضان المبارک کے ان درمیانی دس دنوں میں اللہ کریم اپنے بندوں کی بڑے پیمانے پر مغفرت فرماتے ہیں ، دعا ہے کہ اللہ کریم ہمیں بھی اپنے مغفور بندوں میں شامل فرمائے۔ یوں تو اسباب مغفرت بہت زیادہ ہیں لیکن ہم ان میں سے چند ایک کا تذکرہ کرتے ہیں ۔

1:اِستغفار:  سب سے بنیادی چیز یہ ہے کہ انسان گناہوں سے پاک زندگی گزارنے کی کوشش کرے ، اگر گناہ ہو جائے تو فوراً توبہ کرے اور اللہ سے مغفرت طلب کرے ، اپنے گناہوں کا ندامت کے ساتھ اعتراف کرے اور استغفر اللہ کہہ کر اللہ سے معافی چاہے ، استغفار کے مختلف الفاظ احادیث میں ملتے ہیں ۔ سب سے مختصر تو یہی استغفراللہ کہنا ہے ، اس کے علاوہ دیگر الفاظ بھی ملتے ہیں مثلاً : استغفراللہ تعالیٰ ربی من کل ذنب واتوب الیہ۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ میں اللہ رب العالمین سے اپنے تمام گناہوں سے مغفرت مانگتا ہوں اور اسی کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں ۔ اس کے علاوہ سیدالاستغفار بھی پڑھنا بے حد مفید ہے۔

2:کبیرہ گناہوں سے بچنا:   قرآن کریم میں ہے کہ اگرتم کبیرہ گناہوں سے خود کو بچاؤ گے تو ہم تمہارے (چھوٹے )گناہوں کو مٹا دیں گے۔ یہاں یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی معصیت اور گناہ ہے ، یہ بذات خود بہت بڑا گناہ ہے لیکن گناہوں میں درجہ بدرجہ چھوٹے بڑے کے اعتبار سے تقسیم ہے کہ فلاں کبیرہ ہے اور فلاں صغیرہ۔ احادیث مبارکہ میں مختلف گناہوں کو کبیرہ کہا گیا ہے۔ اصل یہ ہے کہ ہر بڑا گناہ چھوٹے گناہ کے اعتبار سے کبیرہ ہے اور ہر چھوٹا گناہ بڑے گناہ کے اعتبار سے صغیرہ ہے۔جن گناہوں پر عذاب کی وعید قرآن و سنت میں مذکور ہے یا خدا کی لعنت کا باعث بنتے ہیں وہ کبیرہ ہیں ۔ بعض کبیرہ گناہ تو انسان کو دائرہ اسلام سے بھی خارج کر دیتے ہیں ، چند بڑے بڑے یہ ہیں :

  شرک ، اسلام قبول کرنے کے بعد اسلام کو چھوڑ دینایعنی ارتداد ، دین میں کمی یا بیشی کرنا یعنی الحاد و بدعت ، قرآن و حدیث کی غلط اور من مانی تشریح کرنا ،جھوٹ ، ناحق تہمت ،سود ، رشوت ، حسد ، غیبت ، چغل خوری ، کسی کا ناحق مال کھانا ، فحاشی و عریانی کو عام کرنا ، تکبر ، غرور ، ریاکاری ، فخر و مباہات ،والدین کی نافرمانی ، جھوٹی گواہی ، زنا ، لواطت ، بدنظری ، ظلم ، گالیاں بکنا ، کسی پر تشدد کرنا ، مْردوں کو گالی دینا ،احسان جتلانا ،بدگمانی ، بدزبانی بالخصوص اسلام کی مقتدر شخصیات کو برا بھلا کہنا ، قطع رحمی کرنا ، بول چال چھوڑنا ، بلاوجہ جاسوسی کرنا ، دھوکہ بازی ، خیانت ،چوری ، ڈکیتی ، غیر محرم مرد یا عورت سے بلاوجہ گفتگو کرنا ، مرد و خواتین کا ایک دوسرے کی مشابہت اختیار کرنا ،عورت کا اپنے شوہر کی نافرمان اور ناشکری ہونا ، مرد کا اپنی بیوی کے مالی ، جسمانی ، معاشی اور معاشرتی حقوق ادا نہ کرنا ، اسراف یعنی فضول خرچی ، شادی بیاہ اور طرز معاشرت میں غیر اسلامی روایات اپنانا، فرائض و واجبات کو چھوڑنا بالخصوص [نماز ، روزہ ، زکوٰۃ ، حج] ، کاہن جسے آج کی زبان میں دست شناس کہا جاتا ہے کے پاس اپنی قسمت جاننے یا سنوارنے کے لیے جانا ، جادو ، اللہ کے علاوہ کسی اور کی قسم کھانا ، جھوٹی بات پر قسم کھانا ، ملاوٹ کرنا ، ناپ تول میں کمی کرنا ، بد عہدی کرنا ، میت پر نوحہ کرنا ،بین کرنا ، گریبان چاک کرنا ، رخسار پیٹنا ، قبروں کی پامالی کرنا ، بائیں ہاتھ سے کھانا پینا ، بلاوجہ کھڑے ہو کر کھانا پینا ، شوقیہ تصاویر اتروانا ہاں اگر شرعی ضرورت ہو تو اس کی گنجائش موجود ہے ، مسلمان پر اسلحہ اٹھانا ، غیر مسلموں کو بلاوجہ قتل کرنا ، شراب پینا ، چرس پینا ،افیون پینا، بھنگ پینا،کسی کو نشہ پلانا ، گانا ،عشقیہ غزلیں ، موسیقی ، فلمیں ، ڈرامے دیکھنا اور سننا ، مرد کا سونا استعمال کرنا ، خواتین کا بے پردہ ہونا ، شعائر دین کا مذاق اڑانا۔ وغیرہ وغیرہ

ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ مسلمان معاشرے میں یہ سب باتیں اتنی کثرت سے پائی جا رہی ہیں کہ الامان والحفیظ۔ بلکہ اب تو ان کے گناہ ہونے کا احساس بھی ہمارے ضمیروں میں ختم ہو رہا ہے ، ہم بے دھڑک گناہ پر گناہ بلکہ کبیرہ گناہ کرتے جاتے ہیں اور ان کو چھوڑنے کی بالکل فکر نہیں کرتے ہماری یہ روش قابل افسوس ہے۔رمضان المبارک کے اس مبارک عشرے میں اگر ہم اپنی مغفرت چاہتے ہیں تو ہمیں کبیرہ گناہوں سے توبہ کرنا ہوگی اور جن کے مالی حقوق ادا کرنے ہیں وہ ادا کریں اور جو فرائض ہمارے ذمہ واجب الادا ء ہیں انہیں پورا کریں ۔

3:رمضان کا روزہ رکھنا :  احادیث میں رمضان کے روزے کی یہ فضیلت بیان کی گئی ہے کہ حالت ایمان اور بخشش کی امید کے ساتھ رمضان کا روزہ رکھنے سے اللہ کریم سابقہ تمام گناہوں کو معاف فرما دیتے ہیں ۔

4:قیام رمضان یعنی تراویح :   بعض احادیث میں رمضان کے روزے کے ساتھ ساتھ تراویح کی بھی یہ فضلیت مذکور ہے کہ حالت ایمان اور بخشش کی امید کے ساتھ نماز تراویح پڑھنے سے اللہ کریم سابقہ تمام گناہوں کو معاف فرما دیتے ہیں ۔

5:شب قدر کی عبادت:  بعض احادیث میں لیلۃ القدر کی عبادت کو اسباب مغفرت میں شمار کیا گیا ہے، لیلۃ القدر کی یہ فضیلت مذکور ہے کہ حالت ایمان اور بخشش کی امید کے ساتھ لیلۃ القدر کی عبادت سے اللہ کریم سابقہ تمام گناہوں کو معاف فرما دیتے ہیں ۔

6:نماز جنازہ :احادیث مبارکہ میں مسلمان کے مسلمان پر جن حقوق کا تذکرہ ہے ان میں سے ایک نماز جنازہ بھی ہے ، اس کا فائدہ دو طرح ہوتا ہے اگر کوئی فاسق فاجر آدمی ہے تو جنازہ پڑھنے والوں کی وجہ سے اللہ اس کی مغفرت فرما دیتے ہیں اور اگر کوئی نیک آدمی فوت ہوجائے تو اس کی برکت سے جنازہ پڑھنے والوں کی مغفرت ہو جاتی ہے۔

7:ایصال ثواب: قرآن و سنت کی روشنی میں جیسے ثواب برحق ہے ایسے ہی ایصال ثواب برحق ہے۔ آدمی نیک کام کرے اور اس کا اجر خود لے اسے ثواب کہتے ہیں اور نیک عمل کرے اس کا ثواب خود بھی لے اور اللہ سے دعا کرے کہ فلاں کو بھی عطا فرما اسے ایصال ثواب کہتے ہیں ۔ چنانچہ ایک حدیث پاک میں ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نیک آدمی کا جنت میں درجہ بڑھائیں گے تو وہ کہے گا کہ اے میرے رب یہ کیسے بڑھ گیا ؟ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ تیری اولاد نے تیرے لیے استغفار کیا ہے۔

8:نیک اعمال :   قرآن کریم میں ہے کہ بے شک نیکیاں ؛ گناہوں کو مٹا دیتی ہیں ۔ اسی طرح حدیث پاک میں بھی ہے کہ اگر کوئی گناہ ہو جائے تو اس کے فوراً بعد نیک عمل کرو اس سے گناہ مٹ جاتا ہے۔

9:رحمت الہیہ : اللہ تعالیٰ کی رحمت انسان کے گناہوں کو مٹا دیتی ہے اور انسان کی مغفرت کا ذریعہ بنتی ہے ، بس اللہ کی رحمت کو اپنی طرف متوجہ کرنے والے اعمال کرتے رہنا چاہیے۔ خصوصاً درود پاک کی کثرت۔

10:شفاعت رسول : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت بھی مغفرت کے اسباب میں بہت بڑا سبب ہے ، قیامت کے دن جب باب شفاعت کھلے گا تو پھر قرآن بھی شفاعت کرے گا ، روزہ بھی شفاعت کرے گا ، حافظ قرآن بھی شفاعت کرے گا ، قاری قرآن بھی شفاعت کرے گا ، شہید بھی شفاعت کرے گا ، حاجی بھی شفاعت کرے گا ، نابالغ اولاد بھی شفاعت کرے گی اور عالم دین بھی شفاعت کرے گا۔ پھر شفاعت کبریٰ کا وقت آئے گا تو خود خاتم الانبیاء  والمرسلین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم شفاعت فرمائیں ۔

  تو آئیے !عشرہ مغفرت میں اسباب مغفرت اپنا کر اہل مغفرت بننے کی کوشش کریں ! دعا ہے کہ اللہ کریم ہمیں ان کاموں کی توفیق نصیب فرمائے اور پھر ان اعمال کو اپنی بارگاہ میں قبول بھی فرمائے۔ آمین

1 تبصرہ
  1. محمد محسن کہتے ہیں

    الحمد للہ

تبصرے بند ہیں۔