مومن فقط احکامِ الہی کا ہے پابند!

عبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ

ایک مرتبہ پھر میڈیا نے دارالعلوم دیوبند کے بعض فتاوی کو لےکر اختلاف و انتشار کا بازار گرم کردیا۔دو تین ماہ قبل نوجوان مسلم لڑکیوں کی یونیورسٹیز میں عصری  تعلیم اور بے وجہ سوشل میڈیا پر تصویر اپلوڈ کرنےکے تعلق سےدارالعلوم کے فتاوی  کو ایشو بنا گیاتھا اور اب چند دنوں سے برقعہ، حجاب اور بینک کی ملازمت کے حوالے سےصادر شدہ فتاوی پر انگشت نمائی کا سلسلہ جاری ہے۔

اس سلسلہ میں دریدہ دہنی کا مظاہرہ کرتےہوئے  بی جے پی کے ریاستی ترجمان راکیش ترپاٹھی نے دارالعلوم دیوبند کو دقیانوسی سوچ رکھنے والا ادارہ قرار دیا اورکہاکہ دارالعلوم دیوبند ملک کا ایک اہم تعلیمی ادارہ ہے؛جس کی ذمہ داری سماج میں تعلیمی اندھیرا دور کرنے کی ہےلیکن وہ مسلم معاشرہ کو مزید اندھیرے میں ڈھکیل رہاہے۔

اس لن ترانی کے برعکس ہر مسلمان کا عقیدہ وایمان ہے کہ اسلام ایک آفاقی مذہب اور دائمی دستورہے ؛جودورِ حاضر تو کیا رہتی دنیا تک نہیں بدلا جاسکتا، دورِ جدید کے تقاضوں کے پیش نظر بنیادی مسائل اور فتاوی میں تبدیلی نہیں لائی جاسکتی، عہدِ حاضر ہو یا مستقبل بعید اسلام کے بنیادی مسائل میں ترمیم کی مطلق گنجائش نہیں، جو لوگ جدید دور کے حوالے سے اسلامی احکامات کو بدلنے کی بات کرتے ہیں وہ یاتو اسلام کی ابدیت اور اس کی حقانیت سے ناواقف ہیں یا پھر دین بیزاراور مذہب مخالف، نیزواضح رہے کہ ام المدارس دارالعلوم دیوبندنہ صرف بر صغیر ؛بل کہ عالم اسلام کا  ایک عظیم الشان اسلامی ادارہ ہے؛جہاں کتاب وسنت کی تعلیم و ترویج اور علوم دینیہ کی نشر واشاعت  کا کام ہوتاہے؛ جس نے ملک و ملت کے تئیں ماضی میں بھی ناقابل فراموش خدمات انجام دی ہے اور ان شاء اللہ تاقیامت دیتا رہے گا  ۔

میڈیا  میں جاری اس بحث و مباحثے کے تعلق سے دارالعلوم دیوبند کے مہتمم حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانیؔ مدظلہ نے فرمایاکہ کوئی سیاسی جماعت دارالعلوم دیوبند کے تئیں کیا نظریہ رکھتی ہے اس پر وہ کوئی بیان نہیں دیں گے،ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ دارالافتاءسےجو فتاویٰ صادر ہوتے ہیں وہ قرآن وحدیث کی روشنی میں ہوتے ہیں اور ادارہ اس کام کو آئندہ بھی جاری  رکھے گا۔

پرنٹ اور الکٹرانک میڈیاپر مغرب پسندوں اور زعفرانی تنظیموں  کی ان سازشوں کا شکارجہاں بھولے بھالےیا روشن خیال  مسلمانوں کا ایک طبقہ ہورہاہے وہیں بعض نام نہاد علماء کی جانب سےبھی ان فتاوی کے خلاف آوازیں اٹھتی نظر آرہی ہیں۔ان سب حضرات کے لیے درج ذیل پیغام  شاید  نفع رسانی سے خالی نہ ہو۔

اللہ کی اطاعت، اس کی عبدیت، اس کی غلامی، اس کے تمام اوامر ونواہی کی پابندی، ہر شعبۂ زندگی اور ہر مرحلۂ حیات میں اس کی پیروی ہی مؤمن کا اصل سرمایہ اور قیمتی دولت ہے، انسان جب عبدیت کاملہ کا مقام حاصل کرلیتا ہے، تو پھر اللہ اس کے لئے کافی ہوجاتا ہے، اور وہ ہر چیز سے مستغنی ہوجاتا ہے؛یہی وجہ ہے کہ قرآن وحدیث  میں جگہ جگہ اطاعت خدا ورسول کو فوز وفلاح کا ضامن قرار دیا گیا، اسے رحمت الٰہی اور فیضانِ خداوندی کا ذریعہ بتایا گیا ہے، خود جناب رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے کہ جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں جائے گا اور نافرمان جہنم میں جائے گا، اور میری لائی ہوئی تعلیمات کے تابع جب تک خواہش نفس نہ ہوگی ایمان مکمل نہ ہوگا۔

اطاعت و عبودیت میں فرق:

اللہ تعالیٰ ہرانسان سے یہی چاہتے ہیں کہ وہ اپنے اختیار سےشریعت کی ہر بات مان لے؛کیوں کہ  اسلام بندگی اور سر افنگندگی سے عبارت ہے؛نیز انسان میں عبدیت پائی جاتی ہےجو اطاعت سے بھی آگےکا مقام ہے،جبکہ دوسری مخلوقات مطیع تو ہیں لیکن عبد نہیں اورانسانوں کا معاملہ یہ ہے کہ وہ مطیع و فرمانبردار ہونے کے ساتھ ساتھ عبد بھی ہیں۔ چناں چہ جس وقت انہیں جس کام کا حکم دیاجائے اسے اداکرنا ان کے لیے لازم و ضروری ہےمثلاً  حج کے موقع پر حج کےلیۓ جاؤ، رمضان کا مہینہ آگیا روزہ رکھو، نماز کا وقت ہے نماز ادا کرو، کمانے کا وقت ہوگیا کمالو، شادی کی ضرورت پڑگئی  شادی کرلو،غرض عبدیت میں اپنی طرف سےکوئی کام نہیں ہوتا۔ تسلیم ورضا ہی بندگی کا اصل مقصد اور زندگی کاحاصل سمجھاجاتاہے۔

تسلیم وانقیاد کے روشن خطوط :

حضرات صحابہ آنحضرتﷺ کے اولین مخاطب تھے، آپ کے تربیت یافتہ تھے، ان کے واسطے سے سارے عالم میں دین پھیلنا تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس جماعت کو بھی منتخب بنایاتھا، اس جماعت کے دل ودماغ پرآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی محبت وعظمت کے جوگہرے نقوش ثبت ہوئے تھے اس کی مثال ملنی مشکل ہے، اسی محبت وعظمت کا نتیجہ تھا کہ اطاعت واتباع میں بھی وہ اپنی مثال آپ تھے، شراب کی حرمت سے پہلے ان میں ایک بڑی تعداد اس کی عادی تھی،لیکن جس لمحہ اس کی حرمت کا اعلان ہوا منھ سے لگے جام انھوں نے الٹ دیئے، مٹکے توڑدئیے گئے، مدینہ منورہ میں شراب بہہ رہی تھی۔(ابوداود)

ایک صحابی ریشم کا لباس پہن کر حاضر خدمت ہوئے،آپؐ نے ناپسندیدگی ظاہرفرمائی اور اظہار کراہت کے لیے فرمایا کہ اس کو جاکرجلادو، وہ گھر گئے تنور کی آگ بھڑک رہی تھی، جاکر وہ اس میں ڈال دیا، دوبارہ آپ کی خدمت میں آئے تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ لباس تم نے کیا کیا؟ انھوں نے کہا کہ میں نے آگ میں جلادیا، آپ نے فرمایا کہ عورتوں کے لیے وہ حلال تھا وہ تم گھر میں دے دیتے، انھوں نے کہا کہ آپ کے فرمان کے بعد اس کی گنجائش ہی کہاں تھی کہ میں اس کو باقی رکھتا۔(ابن ماجہ)

ان کی محبت وعظمت کا حال یہ تھا کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے چشم وابرو کے وہ منتظر رہتے، ارشاد ہوتے ہی پہلے مرحلہ میں عمل شروع فرمادیتے، کبھی کبھی اس کی تفصیل ووضاحت بعدمیں ہوتی، اس کی مثال اوپر آچکی ہے،کچھ اسی طرح کا واقعہ حضرت عبداﷲ بن مسعود کے ساتھ پیش آیا، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے، وہ مسجدنبوی کے دروازے تک پہونچے تھے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا کہ تمام لوگ بیٹھ جائیں، وہ وہیں بیٹھ گئے، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: اندرآجائو انھوں نے فرمایا کہ آپ کے ارشاد کے بعد اس کی گنجائش ہی کہاں تھی کہ ام عبد کا بیٹا کھڑا رہتا۔(مستدرک حاکم)

نقل واتباع کے مزاج کی بہترین تصویر صحابہ کی زندگی تھی، انھوں نے پوری طرح سے اپنے رخ کواس ایک ذات کی طرف کردیاتھا جس سے بہتر کسی کی زندگی لائق اتباع نہیں ہوسکتی تھی،انھوں نے ساری محبت وعظمت کا محوراسی ذات کو قرار دیا تھا جس نے ان کونئی زندگی بخشی تھی، اس کے آگے اب کسی محبت وعظمت کی کوئی حیثیت نہیں تھی اورتھی تواسی کے واسطے سے تھی، اس ذات کے اشارہ کے آگے جانیں قربان تھیں۔

الحاصل:

اس وقت عالمی سطح امت مرحومہ جن حوادث کا شکار ہے ان کی بنیادی وجہ  اسی جذبہ تسلیم ورضا کا فقدان اور اطاعت و انقیاد میں کمی ہے ؛لہذا ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم عمل کے ذریعہ دین وشریعت  کی حفاظت کا سامان کریں اور اعداء اسلام کی ان سازشوں سے خبردار وہوشیار رہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔