میرا پیغام محبت ہے، جہاں تک پہونچے! (1)

ابو دانیال محمد رضی الرحمن

اپنے اردگرد کی ضرورت اور تقاضہ کے پیشِ نظر اپنی صلاحیت و استطاعت کے مطابق دینی تعلیمات کی نشر و اشاعت ، خیر اور بھلائی کی باتوں کو پھیلاناایک دینی فریضہ ہے، نشرو اشاعت کے مختلف طریقے ہو سکتے ہیں، ان میں سے زبانی وعظ و نصیحت، مضامین و مقالے، کتابچے اور کتابیں لکھنا وغیرہ بھی ہیں۔

انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی بعثت کا بنیادی مقصد بھی یہی تھا کہ وہ لوگوں تک ایسی باتیں پہنچائیں جو ان کے دنیوی و اخروی فلاح اور کامیابی کا سبب بنے، اور انہیں ایسے راستہ کی طرف بلائیں ، جو لوگوں کو دنیا و آخرت کی کامیابی تک لے جائے، چنانچہ انبیاء علیہم الصلوۃ و السلام نے اس مقصد کے لئے سب سے زیادہ جو طریقہ اختیار کیا، وہ زبانی یا تحریری وعظ و نصیحت کا طریقہ تھا۔

زبانی یا تحریری طور پر دینی تعلیمات کی نشر و اشاعت اور وعظ و نصیحت تب ہی مؤثر ہو سکتی ہے، جب ان  امور کو ملحوظ رکھا جائے، جن کو انبیاء علیہم الصلاۃ و السلام نے  اپنی کا وشوں میں ملحوظ رکھا ہے، ان میں سے چند   خصوصیت کے ساتھ قابل توجہ امور یہ ہیں:

الف: زبانی گفتگو اور تحریر حکیمانہ ہو کہ اس میں مخاطب  کے ہر پہلو کی یعنی  اس  کی سمجھ ، اس کے حالات ،  وقت اور موقع  کی نزاکت وغیرہ کی رعایت کی گئی ہو،  اور اسلوب بھی بہتر سے بہتر اختیار کیا گیا ہو۔ قرآن کریم نے اسی بات کو یوں کہا ہے: ﴿ ادْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ ﴾. ( النحل :125) ترجمہ: اپنے رب کے راستہ کی طرف حکمت اور حسن موعظت کے ساتھ بلاؤ۔

چنانچہ یہ ملحوظ رہے کہ بات کتنی ہی مفید کیوں نہ ہو، بے موقع ہوگی یا مخاطب کی سمجھ سے بلند ہوگی تو وہ غیر مؤثر اور بے سود  رہے گی، اسی طرح اگر اسلوب پر کشش نہ ہو تو مفید باتیں بھی  بے نتیجہ ثابت ہوں گی، کیوں کہ وہ  مخاطب کی توجہ کو اپنی طرف نہیں کھینچ سکیں گی۔

ب : تحریر اور زبانی گفتگو میں  موضوع کی مناسبت سے وعدہ اور وعید دونوں کا عنصر ہو،  خوشخبری کی باتوں کو خوش کن اور رغبت آمیز انداز میں پیش کیا جائے،  تاکہ وہ  ان اعمال پر ابھارنے کا ذریعہ بنیں، جن پر یہ خوشخبری وارد ہوئی ہیں ، ڈرانے کی باتوں میں اسلوب میں وہ شفقت اور محبت چھلکے، جو مخاطب کو یہ سوچنے پر مجبور کرے کہ اس ڈرانے سے مقصد ہمیں خوفزدہ کرنا نہیں ہے بلکہ ہمیں مصیبت سے محفوظ کرنے کی انتہائی کوشش ہے، چنانچہ قرآن کریم میں رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کو "بشیر اور نذیر” کے خطاب سے نوازا گیا ہے۔ (احزاب: 45) اور نذیر ایسے ہی ڈرانے والے کو کہتے ہیں، جس کے ڈرانے میں شفقت کا عنصرغالب  ہو، خوف زدہ کرنے کا نہیں۔

ج : زبانی گفتگو اور تحریر میں اسلوب نرم اختیار کیا جانا چاہئے، کیوں کہ نرم اسلوب دلوں پر اثر انداز ہوتا ہے اور سخت لہجہ نفرت اور دوری پیدا کرتا  ہے، چنانچہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک فرمان ہے: إن الرفق لا يكون في شيء إلا زانهُ، ولا ينزعُ من شيءٍ إلا شانهُ» (رواه مسلم برقم 2594) ترجمہ: نرمی جب کسی چیز میں ملتی ہے تو اسے زینت بخشتی ہے، اور اگر کسی چیز سے نکل جاتی ہے تو اسے عیب دار بنا دیتی ہے۔

د : زبانی گفتگو اور تحریر   میں  پیش کی جانے والی بات نقلی و عقلی دلائل سے  ثابت کی جانی چاہیئے ، تاکہ کتاب و سنت کے دلائل سے  جہاں ماننے والوں کے تسکین دل کا سامان ہو، وہیں عقلی دلائل کے ذریعہ  ماننے والوں کو مزید  شرح صدر ہو اور نہ ماننے والوں تک منطقی اسلوب میں  بات پہونچ سکے، چنانچہ قرآن کریم نے جہاں اللہ اور اس کے رسول  (صلی اللہ علیہ وسلم )کے فرمان کو احکام کے لئے دلیل بنایا ہے، وہیں  وحدانیت ، اللہ کی طاقت و قدرت وغیرہ جیسے بہت سارے مسائل کو عقلی دلائل کے ذریعہ بھی واضح فرمایا ہے۔

ہ: زبانی گفتگو یا تحریر معروضی ہونی چاہئے، کہ معروضی اسلوب فکر کے دروازوں پر دستک دیتا ہے اور انہیں وا کرتا ہے، اور عام لوگوں کو یہی اسلوب متاثر کرتا ہے، مناظرانہ اسلوب صرف ایسے معاندین کے ساتھ اختیار کیا جائے، جو جانتے بوجھتے ہوئے گمرہی کے علمبردار اور داعی بنے ہوئے ہوں، لیکن اس صورت میں بھی توجہ قوت دلیل اور خاص کر منطقی اور عقلی دلائل پر ہو، لہجہ کی سختی اور اسلوب میں کرختگی اس صورت میں بھی نہ ہی مفید ہے اور نہ ہی مطلوب۔ اللہ عز و جل کا مبارک فرمان ہے: وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ( النحل :125)  ترجمہ: ان سے اچھے انداز میں علمی مباحثہ کرو۔

وعظ و نصیحت ان مذکورہ امور کی رعایت کے ساتھ ہو، تو ان شاء اللہ مؤثر ہوگی اور سیدھے راستہ کی طرف لانے کا سبب بنےگی، آخری بات جو خصوصیت کے ساتھ ملحوظ رہنی چاہئے وہ یہ ہے کہ مقصد اور مطلوب اس کا اللہ کی رضا اور مخلوق کی بھلائی ہو نہ کہ خود نمائی و خود ستائی۔ کیوں کہ مومن کی زندگی کا مقصد اللہ کے لئے جینا مرنا اور انسانیت کے نفع کے لئے تگ و دو کرنا ہے۔

تبصرے بند ہیں۔