میری پیاری اُردو

عثمان مغل

اردو کی تاریخ کا ندازہ لگانا مشکل ہے کہ یہ زبان کب اور کہاں سے شروع ہوئی۔ مگر یہ بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اردو کا آغاز برصغیر سے ہوا۔ اردو لفظ کا مطلب لشکر کے ہیں۔ اس لیے اِسے لشکری زبان بھی کہا جاتا رہا ہے۔ اردو زبان مختلف زبانوں کا مجموعہ ہے اور کچھ زبانوں کے الفاظ تبدیل کر کے اِس میں شامِل کیے گئے ہیں۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مختلف زبانوں سے خوبصورت ترین الفاظ کے چناؤ سے اردو زبان وجود میں آئی۔

 اِس زبان کی شان اور خوبصورتی ہر دور میں توجہ کا مرکز رہی ہے۔ بلخصوص شاعر اور ادب سے لگاؤ رکھنے والے لوگوں کے لیے۔

اردو زبان کی خوبصورتی کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ تمام تر ہر قسم کے واقعات و حالات میں اِس زبان کی روانی اور خوبصورتی ماند نہیں پڑتی۔ اردو کے الفاظ و فقرات اِس خوبصورتی کے ساتھ ترتیب دیے گئے ہیں کہ بولنے اور سننے والا خوب لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اردو زبان میں ہر قسم کے حالات و واقعات کو نہایت خوبصورتی سے بیان کیا جا سکتا ہے۔

شورش کاشمیری اپنی کتاب “ فن خطابت “ میں جو اردو زبان کی خوبصورتی و دلکشی بیان کرتے ہیں وہ قابل ستائش ہے۔

لکھتے ہیں۔

جانوروں کے بچہ کو ہم بچہ ہی کہتے ہیں، سانپ کا بچہ، الو کا بچہ، بلی کا بچہ ؛ لیکن اردو میں ان کے لیے جدا جدا لفظ ہیں۔ مثلاً :

بکری کا بچہ : میمنا

بھیڑ کا بچہ : برّہ

ہاتھی کا بچہ : پاٹھا

الوّ کا بچہ : پٹھا

بلی کا بچہ : بلونگڑہ

بچھڑا : گھوڑی کا بچہ

کٹڑا : بھینس کا بچہ

چوزا : مرغی کا بچہ

برنوٹا : ہرن کا بچہ

سنپولا : سانپ کا بچہ

گھٹیا : سور کا بچہ

اسی طرح بعض جانداروں اور غیر جانداروں کی بھیڑ کے لیے خاص الفاظ مقرر ہیں۔ جو اسم جمع کی حیثیت رکھتے ہیں ؛ مثلاً : طلباء کی جماعت، رندوں کا حلقہ، بھیڑوں کا گلہ، بکریوں کا ریوڑ، گووں کا چونا، مکھیوں کا جھلڑ، تاروں کا جھڑمٹ یا جھومڑ، آدمیون کی بھیڑ، جہازوں کا بیڑا، ہاتھیوں کی ڈار، کبوتروں کی ٹکڑی، بانسوں کا جنگل، درختوں کا جھنڈ، اناروں کا کنج، بدمعاشوں کی ٹولی، سواروں کا دستہ، انگور کا گچھا، ٹڈی دل، کیلوں کی گہل، ریشم کا لچھا، مزدوروں کا جتھا، فوج کا پرّا، روٹیوں کی ٹھپی، لکڑیوں کا گٹھا، کاغذوں کی گڈی، خطوں کا طومار، بالوں کا گُچھا، پانوں کی ڈھولی، کلا بتوں کی کنجی۔

اردو کی عظمت کا اندازہ اس سے کیجیے کہ ہر جانور کی صوت کے لیے علیحدہ لفظ ہے، مثلا :

شیر دھارتا ہے، ہاتھی چنگھارتا ہے، گھوڑا ہنہناتا ہے، گدھا ہیچوں ہیچوں کرتا ہے، کتا بھونکتا ہے، بلی میاؤں کرتی ہے، گائے رانبھتی ہے، سانڈ ڈکارتا ہے، بکری ممیاتی ہے، کوئل کوکتی ہے، چڑیا چہچہاتی ہے، کوا کائیں کائیں کرتا ہے، کبوتر غٹر غوں کرتا ہے، مکھی بھنبھناتی ہے، مرغی کرکڑاتی ہے، الو ہوکتا ہے، مور چنگھارتا ہے، طوطا رٹ لگاتا ہے، مرغا ککڑوں ککڑوں کوں کرتا ہے، پرندے چرچراتے ہیں، اونٹ بغبغاتا ہے، سانپ پھونکارتا ہے، گلہری چٹ چٹاتی ہے، مینڈک تراتا ہے، جھینگر جھنگارتا ہے، بند گھگھیاتا ہے،

کئی چیزوں کی آوازوں کے لیے مختلف الفاظ ہیں مثلا

بادل کی گرج ، بجلی کی کڑک، ہوا کی سنسناہٹ، توپ کی دنادن، صراحی کی گٹ گٹ، گھوڑے کی ٹاپ، روپوں کی کھنک، ریل کی گھڑ گھڑ، گویوں کی تا تا ری ری، طبلے کی تھاپ، طنبورے کی آس، گیند کی گونج، گھڑیال کی ٹن ٹن، چھکڑے کی چوں، اور چکی کی گھُمر۔

ان اشیاء کی خصوصیت کے لیے ان الفاظ پر غور کیجیے :

موتی کی آب، کندن کی دمک، ہیرے کی ڈلک، چاندنی کی چمک، گھنگھرو کی چھُن چھُن، دھوپ کا تڑاقا۔ بو کی بھبک، عطر کی لپٹ، پھول کی مہک۔

مسکن کے متعلق مختلف الفاظ  جیسے بارات کا محل، بیگموں کا حرم، رانیوں کا انواس، پولیس کی بارک، رشی کا آشرم، صوفی کا حجرہ، فقیہ کا تکیہ یا کٹیا، بھلے مانس کا گھر، غریب کا جھونپڑا، بھڑوں کا چھتا، لومڑی ک بھٹ، پرندوں کا گھونسلہ، چوہے کا بل، سانپ کی بانبی، فوج کی چھاونی، مویشی کا کھڑک، گھوڑے کا تھان وغیرہ۔،

اردو زبان کی دلکشی و خوبصورتی کو واضح کرنے کے لیے چند مثالیں عرض ہیں۔

مثال کے طور پر ہم اپنے کسی پیارے کو خوشی کے موقع پر مدعو کرنے کے لیے اردو کے کونسے الفاظ کا چناؤ کر سکتے ہیں۔

اسلامُ علیکم، ہمارے انتہائی پیارے، مشفق، قابل عزت و اخترام جناب محد سکندر حیات صاحب ہم آپ کو اپنے پیارے بیٹے جاوید احمد سندھو کی شادی خانہ آبادی کے پُر مسرت موقع پر اپنے دِل کی تہہ گہرایوں سے مدعو کرتے ہیں۔

آپ کی تشریف آوری ہم سب اہل خانہ کے لیے باعث فخر، خوشی و مسرت ہو گی۔ ہماری آپ سے انتہائی مودبانہ گزارش و التماس ہے کہ آپ ہمارے اِس پُر مسرت موقع پر تشریف لا کر ہمارے اِس خوشی کے موقع کو چار چاند لگائیں اور ہمیں شکریہ کا موقع میسرکریں۔

آپ کی راہ میں پلکیں بچھائے ہوئے آپ کے منتظر سرور حسین سندھو۔

اوپر کی مثال پڑھ کے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے تحریر کے الفاظ سے خوشی و مسرت، عزت و احترام، جس انسان کو مدعو کیا جا رہا ہے اُس کے لیے تعظیم و عظمت اور جو مدعو کر رہا ہے اُس کی خلوص نیت ٹپک رہی ہو۔

اب ایک اور مثال پر غور فرمائیں۔ فرض کریں آپ کسی کے ہاں فوتگی کی تعزیت کرنے گئے ہیں تو اُس کے لیے بھی اردو زبان بڑے چُن کے خوبصورت الفاظ پیش کرتی نظر آتی ہے۔

زید: اسلامُ علیکم

حامد: واعلیکم السلام

زید: میرے بھائی آپ کا کیا حال احوال ہے؟

حامد: اللہ غفور و رحیم کا احسان و شکر ہے۔ آپ سنائیں کیا حال چال ہے؟

زید: خُداے برتر کی بہت مہربانی ہے۔ ہر طرح سے خیریت ہے۔

زید: حامد بھائی میں نے جب سے آپ کے بزرگوار والدِ مخترم کی وفات کے بارے میں سُنا ہے تب سے انتہائی پُر افسوس اور غمگین ہوں۔ یقین مانیں وہ میرے بھی والد کی طرح تھے۔ اُن کی اعلٰی و ارفع شخصیت کو ہم کبھی بھُلا نہیں پائیں گے۔ مگر اب وہ اِس دنیاے فانی سے پردہ فرما گئے ہیں۔ حامد  بھائی آپ کو اِس مُشکل گھڑی میں صبرو تحمل کا مظاہرہ کرنا ہے۔ اللہ آپ اور آپ کے گھر والوں کو صبر جمیل اور آپ کے والدِ مخترم کے گناہوں سے درگزر فرمائے۔ اور اُن کی کی گئی نیکیوں کے درجات بلند فرما کے اُن کو جنت نظیر میں جگہ عطا فرمائے۔

انتہائی مختصر اور خوبصورت الفاظ میں تعزیت، دعا، صبر کی تلقین گناہ معاف کرنے کی دعا، اہل خانہ کو صبر کی تلقین اور فوت شُدہ کی زندگی کی تعریف بھی بیان کر دی۔

اردو زبان کے بارے میں اقبال اشعر صاحب بہت ہی خوبصورت غزل لکھتے ہیں۔

اردو ہے میرا نام میں "خسرو” کی پہیلی

میں "میر” کی ہمراز ہوں "غالب” کی سہیلی

دکّن کے ولی نے مجھے گودی میں کھلایا

"سودا” کے قصیدوں نے میرا حسن بڑھایا

ہے "میر” کی عظمت کہ مجھے چلنا سکھایا

میں "داغ” کے آنگن میں کھلی بن کے چمیلی

"غالب” نے بلندی کا سفر مجھ کو سکھایا

"حالی” نے مرووت کا سبق یاد دلایا

"اقبال” نے آئینہ حق مجھ کو دکھایا

"مومن” نے سجائی میرے خوابوں کی حویلی

ہے "ذوق” کی عظمت کہ دیئے مجھ کو سہارے

"چکبست” کی الفت نے میرے خواب سنوارے

"فانی” نے سجائے میری پلکوں پہ ستارے

"اکبر” نے رچائی میری بے رنگ ہتھیلی

کیوں مجھ کو بناتے ہو تعصب کا نشانہ

میں نے تو کبھی خود کو مسلماں نہیں مانا

دیکھا تھا کبھی میں نے بھی خوشیوں کا زمانہ

اپنے ہی وطن میں میں ہوں مگر آج اکیلی

اردو ہے میرا نام میں "خسرو” کی پہیلی

محبت کے اقرار و اظہار کے لیے اردو زبان کا ثانی نہیں ملتا۔

اردو ادب میں ذریعہ اظہار کے مختلف طریقے ہیں جیسے ناول نگاری‘ داستان گوئی‘ افسانہ نگاری‘ ڈرامہ نگاری‘ مکالمہ‘تذکرہ‘ سفرنامہ‘ افسانچہ‘ خطوط‘ تاریخ‘ تنقید‘ فلسفہ وغیرہ۔

ایک ادیب صاحب اردو زبان سے محبت اظہار تھوڑا مزاحیہ انداز میں کرتے ہیں۔

کہتے ہیں اگر اپنے بچوں کی تربیت اچھی کی ہو تو وہ لڑائی جھگڑے بھی بڑے عزت و احترام کے ساتھ کرتے ہیں۔ اِسی طرح ہمارے لکھنو میں بڑے پیارے دو بچے آپس میں جھگڑ رہے تھے۔ اُن کی باتیں سننے کے قابل تھی۔ آپ بھی ملاحظہ فرمائیں۔

پہلا بچہ دوسرے بچے سے: دیکھئے اگر آپ ہماری بات سے اتفاق نہیں کریں گے تو ہم آپ کی والدہ محترمہ کی شان میں گستاخ کلمات پیش کریں گے.

دوسرا بچہ: حضور اگر آپ نے اس قدر جلالت کی جرأت کی تو پھر ہم بھی آپ کے رخسار مبارک پہ ایسا طمانچہ رسید کریں گے کہ گال مبارک گلاب کی مانند سرخ ہو اٹھے گا.

پہلا بچہ : آپ نے ہمیں اپنے ساتھ کھیلنے کی اجازت نا دی تو آپ ہمارے غصے کی تاب نا لا سکیں گے۔

دوسرا بچہ: آپ نے ہمارا غصہ ابھی ملاحظہ نہیں فرمایا۔ آپ ہمیں ہاتھ لگا کر دیکھائیں پھر ہمارا غصہ دیکھیے گا۔ آپ اپنے قدموں پر اپنے اہل خانہ کے پاس بھی نہیں پہنچ پائیں گے۔

پہلا بچہ: آپ نے ہماری بات نا مانی تو آپ کے چہرہِ پُر نور پہ ایسے نشان ثبت کریں گے کے آپ کی والدہِ ماجدہ بھی آپ کو پہچان نہیں پائیں گی۔

دوسرا بچہ: آپ ہماری والدہ ماجدہ کے بارے میں اپنی زبان سے ایسے بیہودہ الفاظ مت نکالیے۔ ورنہ ہم آپ کے چہرے پر ایسے نقش و نگار بنائیں گے کے آپ کے والدِ بزرگوار بھی آپ کو پہچان نہیں پائیں گے۔

پہلا بچہ: آپ کی زبانِ حال سے بیان ہونے والی نا شائستہ باتیں اس اَمر کی نشان دہی ہیں کہ آپ ہماری بات نہیں ماننے والے۔ اِسی وقوعہ کے پیشِ نظر ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ آج سے ہمارے راستے جُدا جُدا ہوں گے۔

غرض کہ اردو زبان، اپنی ثقافت، خوبصورتی، ادب، شاعری، نثر، افسانہ، ناول نگاری،، فلسفہ، نظم، کالم نگاری، داستان گوئی‘ ڈرامہ نگاری‘ مکالمہ‘تذکرہ‘ سفرنامہ‘ افسانچہ‘ خطوط‘ تاریخ‘ تنقید، تعریف، غرض کے ہر چیز میں اپنی خوبصورتی و دلکشی بکھیرتی نظر آتی ہے۔

یہ تحریر لکھتے ہوئے مجھے محترمہ تسنیم جوہر صاحبہ کے اشعار بار بار یاد آ رہے تھے جو انہوں نے ایک مشاعرے میں اردو کی شان میں کہے تھے۔ آخر میں لِکھے بغیر رہ نہیں سکا

چکبست اور فراق کے ماتھے کا تلک ہوں

اقبال کی نغمات میں آیات کی جھلک ہوں

دوہوں میں کبیر کے محبت کی مہک ہوں

کیوں مجھ کو کہہ رہے ہو کہ میں مسلمان ہوں

ہندوستان کی شان میں اردو زبان ہوں

تبصرے بند ہیں۔