مستمر وقت، سنبھل کر تو دکھا!

ادریس آزاد

 مستمر وقت، سنبھل کر تو دکھا!
میرے جیسا کوئی پل کر، تو دکھا!

۔

دیکھتا ہوں بھلا کیا ہوتا ہے
اے مری سانس! تو چل کرتو دکھا!

۔

تو لہو ہے تو دکھا رقصِ جنوں!
مری شہ رگ سے! اچھل کرتو دکھا!

۔

اُس جہاں میں نہیں دونگا دوزخ
پہلے اِس آگ میں جل کر تو دکھا!

۔

تجھ کو پاتال سے لے آؤنگا
تو مرے دل سے نکل کر تو دکھا؟

۔

کیا پتا اب کے وہ مل جائے اےدل!
پھر تو اِک بار مچل کرتو دکھا!

۔

دیکھ ! حالات بدل جائیں گے
تو بھی کچھ خود کو بدل کرتو دکھا!

۔

روز دل چوٹ نئی سہتا ہے
چشمہ ِ اشک! اُبل کر تو دکھا!

۔

کربِ گل مہر کو معلوم کہاں
اے جوانی ذرا ڈھل کر تو دکھا!

۔

جس میں ہر شخص ہو انگشت نما
ایسے ماحول میں پل کر تو دکھا!

۔

روز، امروز کیے جاتا ہے
پہلے اِک عام سی کل کر، تو دکھا!

تبصرے بند ہیں۔