میری ڈائری – کلکتہ کی کچھ یادیں کچھ باتیں

عبدالعزیز
مرزا غالبؔ کا یہ شعر کلکتہ کے بارے میں بہت مشہور ہے ؂
کلکتہ کا جو ذکر کیا تو نے ہم نشیں۔۔۔ ایک تیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے
غالبؔ کو غالباً کلکتہ سے یا کلکتہ کے لوگوں سے ضرور دکھ پہنچا ہوگا جب ہی تو انھوں نے اپنی تکلیف کا ذکر کیا ہے۔ ممکن ہے جب وہ کلکتہ آئے ہوں کسی نے ان کی وہ مدد یا خاطر داری نہ کی ہو، جس کے وہ اپنے نزدیک مستحق سمجھتے تھے۔ مجھ جیسے معمولی آدمی کو بھی کبھی کبھار دکھ ضرور پہنچا ہے مگر کوئی تیر سینے میں ایسا نہیں لگا کہ ہائے ہائے کہنے کی نوبت آئی ہو۔ ہاں! یہ ضرور ہوا کہ میری تحریر سے کچھ لوگوں کو تکلیفیں ضرور ہوئیں۔ اس میں میری کم عمری اور کم علمی کا زیادہ دخل تھا جس کیلئے میں دل سے معذرت خواہ ہوں۔ دو بزرگ صحافیوں کو خاص طور سے میری صحافت سے تکلیف پہنچی ہے۔ دونوں کی وسعت قلبی اور فراخ دلی ہے کہ انھوں نے آہستہ آہستہ ہی سہی درگزر سے کام لیا اور اب ہم ایک دوسرے سے قریب ہیں۔ ان کے علاوہ بھی ممکن ہے کہ کچھ لوگوں کو دکھ پہنچا ہو ۔ ان سے بھی اپنی اس تحریر کے توسط سے معذرت خواہ ہوں۔ امید ہے کہ وہ اللہ کے واسطے معاف کر دیں گے، جہاں تک اللہ کے حقوق کی ادائیگی میں کمی ہوئی ہے اور کمی ہورہی ہے۔ اللہ رحیم و کریم سے وہ ضرور معاف کر دے گا، اس کا فرمان ہے کہ شرک کے علاوہ وہ سارے گناہوں کو معاف کرسکتا ہے۔ شرک سے خدا کے فضل و کرم سے بچتا ہوں اور دوسروں کو حتی الامکان بچانے کی کوشش کرتا ہوں۔
امیر فیصل کی شہادت اور جلسہ تعزیت:
سعودی خاندان کے فرزندوں میں سے جو لوگ سعودی عربیہ (پرانا نام حجاز ہے) کے بادشاہ ہوئے ہیں ان میں شاہ فیصل کو جو مقبولیت اور عزت حاصل ہوئی تھی۔ وہ شایدسعودی خاندان کے کسی اور بادشاہ کو نہیں ملی۔ شاہ فیصل اکثر و بیشتر کہتے تھے کہ انھیں شاہ کے بجائے امیر کہنے سے وہ خوش ہوتے ہیں۔ شہید فیصل چاہتے تھے کہ دنیا میں مسلمانوں کی طاقت بڑھے اور اللہ کے سوا کسی طاقت کے سامنے مسلمان سرنگوں نہ ہوں۔ اس سلسلہ میں انھوں نے پاکستان کے نیو کلیئر ہتھیار بنانے میں مدد کی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی دعوت پر اسلام آباد میں اسلامی کانفرنس منعقد ہوئی تھی، جس میں فیصل مرحوم شریک ہوئے تھے۔ کلکتہ سے محترم احمد سعید ملیح آبادی بھی شریک ہوئے تھے۔ کانفرنس بڑی کامیاب ہوئی تھی۔ استعماری طاقتوں کو خاص طور سے امریکہ کو امیر فیصل کی پالیسیاں مسلمانوں کے سلسلے میں پسند نہیں آئیں۔ امریکہ نے امیر فیصل کو شہید کرنے کی سازش رچی اور اس میں امریکہ کو کامیابی ہوئی۔
امیرفیصل کی شہادت کے بعد راقم نے جماعت اسلامی ہند کلکتہ کی توجہ مبذول کرائی کہ شہید فیصل کا تعزیتی جلسہ ہونا چاہئے۔ اس وقت امیر مقامی حافظ نذیر احمد تھے۔ انھوں نے کہاکہ فیصل مرحوم سعودی عربیہ کے تھے۔ ان کا جلسہ تعزیت کلکتہ میں کیسے ہوسکتا ہے؟ میں نے انھیں کئی دلائل دیئے کہ وہ ایک بین الاقوامی شخصیت کے مالک تھے۔ عالم باعمل تھے۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کے وقار و مرتبہ کو بڑھانا چاہتے تھے۔ استعماریت کے مخالف تھے۔ انسانیت اور انصاف کے علمبردار تھے۔ ان کا تعزیتی جلسہ اگر کلکتہ میں ہوگا تو ہمارے ملک کی حکومت کو کیا تکلیف ہوگی؟ وہ راضی نہ ہوئے۔ میں اس وقت تالتلہ حلقہ میں رہتا تھا۔ تالتلہ حلقہ کی امارت کی ذمہ داری محمد ظفر مرحوم پر تھی، وہ فوراًراضی ہوگئے۔ جماعت اسلای ہند تالتلہ کی جانب سے جلسہ تعزیت کا اخباروں میں اعلان ہوا۔ کلکتہ کے مسلم محلوں میں گاڑی میں سوار ہوکر لاؤڈ اسپیکر سے لوگوں کو تعزیتی جلسہ کی آگاہی دی گئی۔ پوسٹر بھی مختلف علاقوں چسپاں کئے گئے۔
محترم احمد سعید ملیح آبادی سے شرکت کیلئے کہا گیا تو وہ فوراً راضی ہوگئے اور اسلام آباد کی اسلامی کانفرنس کا تذکرہ بھی کرنے لگے۔ موصوف امیر فیصل کے مداحوں میں سے ہیں۔ سالک لکھنوی کو اپروچ کیا تو ہچکچانے لگے۔ انھوں نے کہاکہ وہ بادشاہ تھے۔ ان کی تعزیتی جلسہ میں میرا جانا ٹھیک نہیں ہوگا۔ میں نے ان سے کہاکہ میں زندہ رہا تو مسٹر جیوتی باسو کے جلسہ تعزیت میں ضرور شرکت کروں گا۔ پھر بھی وہ ہاں نہیں کہتے رہے لیکن جلسہ میں آئے اوربہت اچھی اور جامع تقریر کی۔ محترم احمد سعید ملیح آبادی مسلم انسٹیٹیوٹ کا کھچا کھچ ہال بھرا دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ کہنے لگے بھائی جلسہ تو کامیاب ہوگیا۔ محترم احمد سعید ملیح آبادی نے بصیرت افروز تقریر کی جس سے سامعین بہت خوش ہوئے۔ آزاد ہند میں دوسرے دن جلسہ تعزیت کی روداد شائع ہوئی۔ علماء کلکتہ نے بھی اس جلسہ میں شرکت کی۔ مولانا ابو سلمہ شفیع احمدؒ اما عیدین نے بھی پرزور تقریر کی۔
دلیپ کمار کو کلکتہ آنے کی دعوت:
کلکتہ میں ہمارے کچھ آشنا پندرہویں صدی ہجری کا جشن منانے کا فیصلہ کیا۔ اسی موقع پر نعتیہ مشاعرہ کے انعقاد کی بات بھی طے ہوئی۔ منتظمین نے فیصلہ کیا کہ دلیپ کمار سے مشاعرہ کا افتتاح کرایا جائے۔ پروفیسر منال شاہ قادری کی سربراہی میں یہ جشن منایا جانے والا تھا۔ پارک سرکس کے جناب صادق مرزا بیگ مرحوم دلیپ کمار سے قریب تھے۔ مرحوم جرمنی میں رہتے تھے۔ جب دلیپ کمار جرمنی جایا کرتے تھے تو ان کی خاطر مدارات کیا کرتے تھے۔ صادق مرزا نے منتظمین کو یقین دلایا کہ وہ دلیپ کمار کو ان کے بھائی احسان خان کے ذریعہ راضی کرلیں گے۔ اقبال حیات خاں اور مرزا صادق بیگ پر مشتمل ایک وفد بمبئی پہنچا۔ احسان خان نے اپنے بھائی سے وفد کلکتہ کا بمبئی آنے کا مقصد بتایا۔ دلیپ کمار نے کہاکہ ’’میں صبح بھی شراب پیتا ہوں اور رات میں بھی۔ میں ایک گنہگار مسلمان ہوں۔ میں کیسے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی سے منسوب کسی تقریب کا افتتاح کرسکتا ہوں؟ میں ایسا کام نہیں کرسکتا ہوں کہ کل قیامت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو منہ دکھانے کے لائق بھی نہ رہوں۔ ان کے وفد کے ارکان شرکت کیلئے زور دیتے رہے مگر دلیپ کمار نے معذرت کرلی۔ اپنے گناہوں کا احساس ہو اور آدمی خالص توبہ کرلے تو اللہ گنہگار بندے کو معاف کر دیتا ہے ؂
نہ کہیں جہاں میں اماں ملی جو اماں ملی تو کہاں ملی
مرے جرم خانہ خراب کو ترے عفوِ بندہ نواز میں (اقبال)
*۔۔۔*۔۔۔*
اس دل پہ خدا کی رحمت ہو جس دل کی یہ حالت ہوتی ہے
ایک بار خطا ہوجاتی ہے، سوبار ندامت ہوتی ہے (ماہر القادری)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔