میزل روبیلا: دنیا کی سب سے بڑی ٹیکہ کاری مہم

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

پیدائشی روبیلا سنڈروم (سی آر ایس) سے ہونے والی انتہائی خطرناک بیماری کے خاتمہ کیلئے مرکزی وزارت برائے صحت وخاندانی بہبود نے یونیسیف، عالمی ادارہ صحت، لائنس کلب، بین الاقوامی چلڈرن فنڈ اور دوسرے معاونین کی مدد سے اتر پردیش میں ایم آر ٹیکہ کاری مہم کا آغاز کیاہے۔ اس کی ابتداء فروری 2017 میں ملک کی پانچ ریاستوں تمل ناڈو، کرناٹک، گوا، پڈوچیری اور لکشدیپ سے کی گئی تھی، جہاں یہ مہم کامیابی کے ساتھ مکمل ہوئی۔ اس دوران 3.3 کروڑ بچوں کوخسرہ روبیلا کا ٹیکہ لگایا گیا تھا۔ ایم آر ٹیکہ کاری مہم مرحلہ وار ملک کی آدھی سے زیادہ ریاستوں و یونین ٹریٹریز میں کامیابی کے ساتھ مکمل ہو چکی ہے۔ ان صوبوں میں 9ماہ سے پندرہ سال تک کے 23 کروڑ بچوں کو ٹیکے لگائے جا چکے ہیں۔ مہم میں پورے ملک کے پندرہ سال تک کے41 کروڑ بچے شامل کئے جائیں  گے۔ اس لحاظ سے دیکھیں تو یہ دنیا کی سب سے بڑی ٹیکہ کاری مہم ہے، جو ایک کے بعد دیگرے ریاستوں میں جاری ہے۔ اس مہم کے ذریعے ملک کے یونیورسل ایمو نائزیشن پروگرام میں پہلی مرتبہ روبیلا ویکسین کو شامل کیا گیا ہے۔

میزل روبیلا مہم 26 نومبر سے اتر پردیش میں شروع ہوئی ہے، یہاں 75 اضلاع کے 7.6 کروڑ بچوں کو خسرہ روبیلا کا ٹیکہ دیا جائے گا۔ اسے پانچ ہفتہ میں مکمل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ پہلے مرحلے میں تمام سرکاری وغیر سرکاری اسکولوں کے بچوں کو ٹیکہ لگایا جائے گا۔ اس کے علاوہ آنگن واڑی مراکز، ہیلتھ سینٹرز میں بھی ٹیکے لگانے کا انتظام کیا گیا ہے۔ آخری مرحلہ میں بچے ہوئے بچوں کو کور کرنے کا منصوبہ ہے۔ مہم کو کامیاب بنانے کیلئے 25000 اے این ایم کو ٹیکہ لگانے اور ہر طرح کے حالات سے نبٹنے کی تربیت دی گئی ہے۔ ان کے علاوہ اضافی ہیلتھ کارکنان کو بھی ٹرینڈ کیا گیا ہے۔ ہر اسکول یا ٹیکہ لگائے جانے والی جگہ پر تین سیکشن بنائے گئے ہیں۔ ایک ویٹنگ ایریا، دوسرا ویکسی نیشن روم اور تیسرا آبزرویشن کا کمرہ۔ ہر ٹیکہ لگنے والے بچے کو کم از کم آدھا گھنٹہ نگرانی میں رکھا جاتا ہے تاکہ کسی بھی طرح کی پریشانی ہونے پر فوراً طبی امداد فراہم کی جا سکے۔ ہر ٹیکہ کاری سینٹر پر ایک ڈاکٹر کو بھی تعینات کیا گیا ہے۔ پھر بھی ٹیکہ لگنے کے بعد اتر پردیش سے بچوں کے بیمار ہونے کی خبریں برابر آ رہی ہیں۔ منفی خبروں کی وجہ سے اسکولوں میں بچوں کی حاضری کم ہو گئی ہے۔ کئی والدین نے اپنے بچوں کو ٹیکہ لگوانے سے منع کر دیا ہے۔ یہ صورت حال شعبہ صحت کی نیند حرام کررہی ہے۔ دیکھا گیا ہے کئی بچوں کو انجیکشن کا فوبیا ہوتا ہے۔ وہ انجیکشن کو دیکھ کر گھبرا جاتے ہیں۔ اس کی وجہ سے وہ بچے بے ہوش ہو جاتے ہیں۔ جن مقامات پر ویٹنگ روم، ویکسی نیشن سیکشن اور نگرانی کا کمرہ الگ نہیں تھا، وہاں سے اس طرح کی شکایات موصول ہوئی ہیں۔ ڈاکٹروں کے مطابق یہ ٹیکہ پوری طرح محفوظ ہے۔ البتہ آنکھ میں لالی آجائے یا بچہ تھکا ہوا محسوس کرے تو گھبرانا نہیں چاہئے۔ ٹیکہ لگنے کے بعد اس طرح کی علامات ظاہر ہو سکتی ہیں۔ ڈاکٹروں کی صلاح ہے کہ اگر بچہ بیمار ہو تو اسے ٹھیک ہونے کے بعد ہی ٹیکہ دیا جانا چاہئے تاکہ کسی طرح کی دشواری نہ ہو۔

 دراصل خسرہ روبیلا ایک مہلک مرض ہے، جو وائرس کے ذریعہ پھیلتا ہے۔ بچوں میں خسرہ کے سبب معذوری اور بے وقت موت ہو سکتی ہے۔ روبیلا کی علامت بھی خسرہ جیسی ہوتی ہے۔ بخارآنا، ناک بہنا، کف اور جسم پرلال نشان پڑ جانا وغیرہ۔ یہ لڑکے یا لڑکی دونوں کو متاثر کر سکتا ہے۔ روبیلا کا انفیکشن چھوٹا ہوتا ہے لیکن اگر اس کی زد میں کوئی حاملہ خاتون حمل کے ابتدائی ایام میں آجائے تو اس کے خطرناک نتائج سامنے آتے ہیں۔ کچھ بچے مردہ ہی پیدا ہوتے ہیں توکچھ پیدا ئشی بہرے، نا بینا، دماغی طور پر کمزور یا پھر دل میں سوراخ ہونے جیسی بیماریوں کی گرفت میں آ جاتے ہیں۔ اسے خلقی روبیلا سنڈروم کہتے ہیں جس کا کوئی علاج نہیں  ہے۔ میڈیکل سائنس دانوں کی نظر میں ان بیماریوں سے محفوظ رہنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ خسرہ روبیلا جیسے وائرس کو ختم کرنے کیلئے صدفیصد ٹیکہ کاری کے ہدف کو پورا کیا جائے۔ ایم آر ویکسین دنیا کے 120 ممالک میں  استعمال ہو رہا ہے۔ خود بھارت میں پرائیویٹ ڈاکٹر آٹھ نو سو روپے کی فیس وصول کر کے یہ ٹیکہ فراہم کرتے ہیں۔ اس لئے غریب عوام کی پہنچ سے خسرہ روبیلا کا ٹیکہ دور تھا۔ ایم آر ویکسین خسرہ روبیلا سے بچاؤکرتا ہے، جس کی وجہ سے بڑی تعداد میں بچوں کی موت ہو جاتی ہے۔ خسرہ میں خاصی مقدار میں انفیکشن پھیلانے والے جرثومے ہوتے ہیں، جو کف اور چھینکنے سے پھیلتے ہیں۔

2015 میں خسرہ کی وجہ سے عالمی سطح پر 134,200بچوں کی موت ہوئی تھی۔ ان میں  سے49,200 یعنی 36 فیصد بچے بھارت کے تھے۔ ایک اندازہ کے مطابق اب بھی ہر سال32 -35 ہزار بچے موت کے منھ میں  چلے جاتے ہیں۔ جو بچ گئے، ان سے دوسروں کے متاثرہونے اور ڈائریا و نمونیا جیسے موذی مرض کی زد میں آنے کا جوکھم اور بڑھ جاتا ہے۔ شعبہ صحت نے 2020 تک خسرہ روبیلا کو پوری طرح ختم کرنے کا ہدف رکھا ہے۔ اس ٹارگیٹ کو حاصل کرنے کیلئے پندرہ سال تک کی عمر کے41 کروڑ بچوں و نوعمروں کو ٹیکہ لگا یا جائے گا، ریاست کے ٹیکہ کاری آفیسر ڈاکٹر اے پی چترویدی کے مطابق یہ ٹیکہ انہیں بھی دیا جائے گا جو خسرہ کا ٹیکا پہلے لگوا چکے ہیں۔ اسے سبھی اسکولوں، کمیونٹی سینٹروں، آنگن واڑی مراکز اور سرکاری صحت مراکز پر لگایا جائے گا تاکہ کوئی بھی بچہ چھوٹ نہ پائے۔ ایم آر ویکسین ایک خاص طرح کی سیرنج کے ذریعے دی جاتی ہے۔ اس میں مقررہ خوراک سے کم یا زیادہ دوائی نہیں لی جا سکتی اور نہ ہی انجکشن دوبارہ استعمال ہو سکتا ہے۔ ایم آر ٹیکہ پوری طرح محفوظ ہے، اس کے کو ئی سائیڈ ایفیکٹ نہیں ہو تے۔ بچوں کو ٹیکہ تربیت یافتہ طبی کارکنوں  کے ذریعے لگایا جاتا ہے۔ کئی لوگ اس کو لے کر غلط فہمیوں  کے شکار ہیں جبکہ تمام ماہر امراض اطفال، سائنس دان، سماجی کارکن اور مذہبی رہنما ٹیکہ کاری کی حمایت کرتے ہیں۔ مرکزی وزارت صحت وخاندانی بہبود میں  ٹیکہ کاری معاملوں  کے ڈپٹی کمشنر ڈاکٹر پردیپ ہلدر کا کہنا ہے کہ روبیلا پندرہ سال تک کے بچوں  کیلئے زیادہ خطرناک ہے۔ ایک روبیلا انفیکٹڈ بچہ آس پاس کے 80-95 فیصد بچوں تک یہ وائرس پہنچا سکتا ہے۔ مہم کے تحت پانچ سال تک کی عمر کے قریب ایک تہائی بچوں کی موت کو ٹیکہ کاری کے ذریعہ روکا جائے گا۔

ملک میں ممکنہ مکمّل ٹیکہ کاری کے ہدف کوایک مقررہ مدت یعنی 2020 تک پورا کرنے کیلئے یہ مہم چلائی جا رہی ہے۔ مرحلہ وار سبھی بچوں کو ایم آر ٹیکہ دئے جانے کے بعد اسے معمول کی ٹیکہ کاری میں  شامل کر دیا جائے گا اور یہ یونیورسل ایمونائزیشن پروگرام میں خسرہ کے ٹیکے کی جگہ لے گا۔ یونیسیف انڈیا میں ہیلتھ اسپیشلسٹ ڈاکٹر ستیش گپتا نے امید ظاہر کی کہ پولیو کی طرح میڑل روبیلا کو بھارت سے مٹانے میں ہمیں کامیابی حاصل ہو گی۔ ان کا کہنا ہے کہ ٹیکہ کاری سے نہ صرف بچوں کی زندگی کی حفاظت ہوتی ہے، بلکہ اس سے ان کی صحت اور بہتر مستقبل کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ عوامی صحت کے ذرائع میں یہ ایک کم لاگت والا کارگر طریقہ ہے۔ وہیں یونیسیف کی رابطہ کار سونیا سرکار نے 28 ویں  حق اطفال پر جاری رپورٹ کے حوالے سے کہا کہ تمام بچوں کو صحت کی خدمات حاصل ہوں، یہ ان کا بنیادی حق ہے۔ اب سبھی بچوں کو، چاہے وہ کہیں بھی رہتے ہوں، ٹیکہ کاری کا پورا فائدہ ملے، اس کیلئے میڈیا کے تعاون کی ضرورت ہے۔ ایم آر ٹیکے سے چھوٹے نہ ایک بھی بچہ، اس کیلئے ڈسٹرکٹ ٹاسک فورس (ڈی ٹی ایف) میں ضلع کمشنرز کو شامل کیا گیا ہے۔ ہمارا عزم اور مہم کے ساتھ ہماری وابستگی ہی خسرہ روبیلا سے ملک کو نجات دلا سکتی ہے۔

تبصرے بند ہیں۔