مری آنکھیں ہیں دیکھو کس قدر خوش

افتخار راغبؔ

مری آنکھیں ہیں دیکھو کس قدر خوش

خوشی ہوتی ہے تم کو دیکھ کر خوش

ہوا میں کس کی خوش بو آ بسی ہے

ہیں پتّے رقص میں سارے شجر خوش

شعاعیں ملتفت الفت کی تیری

درختِ جاں کے ہیں برگ و ثمر خوش

بتاؤں کب چمکتی ہیں یہ آنکھیں

نظر آتی ہے کب تیری نظر خوش

ہے غیروں کے لیے موقع سنہرا

مرے احباب ہیں کس بات پر خوش

مقفّل رکھّوں لب یا جان دے دوں

نہ ہو گا وہ کبھی بیداد گر خوش

وہ برسائے گا کب تک سنگ ہم پر

خدا رکھّے اُسے بھی عمر بھر خوش

"خدا حافظ” سے شب بجھ سی گئی تھی

سلامِ صبح سے آئی سحر خوش

قدم کس کے پڑے ہیں آج راغبؔ

دکھائی دے رہا ہے سارا گھر خوش

تبصرے بند ہیں۔