میلے میں گم ہو کے گھر جانے سے کرتا ہے گریز

راجیش ریڈی

میلے میں گم ہو کے گھر جانے سے کرتا ہے گریز
ہر مسافر لوٹ کر جانے سے کرتا ہے گریز

سوکھ کر پتہ بھلے ہی زرد ہو جائے، مگر
شاخ سے گِر کر بکھر جانے سے کرتا ہے گریز

یوں تو جنت کا تصوّر خوب ہے ، پر آدمی
اِس جہاں کو چھوڑ کر جانے سے کرتا ہے گریز

وقت کی آندھی اُڑا کر لے ہی جاتی ہے اُدھر
آدمی اکثر جدھر جانے سے کرتا ہے گریز

موت کی ہر پل دعائیں مانگنے والا بھی ،جب
موت آتی ہے تو مرجانے سے کرتا ہے گریز

ڈوبتا جاتا ہے دنیا کے سمندر میں بشر
اپنے ہی اندر اترجانے سے کرتا ہے گریز

جس کے کر جانے سے مل سکتا ہے کتنا کچھ مجھے
دل مرا وہ کام کر جانے سے کرتا ہے گریز

اُس بھنور ہی میں کہیں ساحل ہے تیرا منتظر
جس بھنور میں تو اُتر جانے سے کرتا ہے گریز

اِک ذرا گردن جھکا کر دل کے آئینے میں دیکھ
کس لئے آخر سنور جانے سے کرتا ہے گریز

 

تبصرے بند ہیں۔