میڈیا پر ہندوتو کا پنجۂ غضب

جمہوریت کشی کی علامت

عبدالعزیز

مسٹر نریندر مودی کے طور طریقہ اور حکمرانی کے انداز سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہندوستان کی خیریت نہیں ہے۔ یہ صرف غیروں نے ہی محسوس نہیں کیا تھا بلکہ اپنوں نے بھی محسوس کیا تھا اور ان کی پارٹی کے جو لوگ پارلیمنٹ میں بھاری اکثریت لانے میں کامیاب ہوئے تھے ان کو حاشیہ پر کر دیا گیا ۔ وہ اپنی پارٹی ہی میں بے دست و پا ہوگئے۔ آہستہ آہستہ پارٹی اور حکومت مودی جی کی مٹھی میں آگئی۔ وہ پارٹی اور حکومت دونوں میں بلا شرکت غیرے قابض ہوگئے۔ بڑے چھوٹے سب مودی کے سامنے قطار لگاکر کھڑے ہوگئے۔ کچھ لوگوں نے مودی کی قصیدہ خوانی شروع کردی جس کی وجہ سے مودی اور بھی پھول گئے اور اپنے آپ کو حکومت اور پارٹی کا مختار کل سمجھنے لگے۔ سب کو بونا بنادیا۔ پارٹی اور حکومت کے باہر بھی آمریت کا عمل تیز سے تیز تر ہوتا گیا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ ملک میں ایمرجنسی جیسی حالت ہوگئی۔ میڈیا کو بھی نریندر مودی پورے طور پر اپنے شکنجے میں لانے پر اتارو ہوگئے ہیں۔ پہلے ہندی کے ایک مقبول نیوز چینل NDTV (این ڈی ٹی وی) پر 9 نومبر کیلئے Telecast کرنے پر پابندی عائد کر دی اور اب آسام کے ایک نیوز چینل پر اسی قسم کی پابندی عائد کر دی ہے۔
مسٹر نریندر مودی کیلئے یہ آسان ہے کہ وہ اپنی تقریروں میں ایمرجنسی کے سیاہ دنوں کی نکتہ چینی کریں مگر خود جس راستہ پر گامزن ہیں وہ ایمرجنسی کے سیاہ دن کی آمد آمد کا اشارہ ہے۔ وہ اپنی خطابت سے ملک کے شہریوں کو بیوقوف نہیں بنا سکتے ہیں۔ دو ڈھائی سال کے اندر بہت سے چینلوں اور صحافیوں کو حکومت نے اپنے سے قریب کرلیا۔ ایسے صحافی اور چینل چوبیس گھنٹے مودی کی تعریف و توصیف میں رطب اللسان ہیں۔ یہ ضمیر فروشی ملک کیلئے افسوسناک اور خطرناک صورت حال پیدا کر رہی ہے۔ دیوالی کے دن صحافیوں کی ایک بڑی تعداد کا مودی کے ساتھ تصویر کھنچوانے کا جوش و خروش دیکھنے کی چیز تھی۔ اس سے مودی کی آمریت کی عمر بڑھانے کے سوا کچھ نہ تھا، کیونکہ جب میڈیا حکومت یا اقتدار سے دور ہوتا تو اس کی معنویت ہوتی ہے لیکن اقتدار سے جیسے قریب ہوتا ہے وہ اپنی قدر و قیمت کھو دیتا ہے۔ جو لوگ خوشامدی یا درباری ہوجاتے ہیں وہ عوام و خواص کی نظر میں گرجاتے ہیں پھر ان کی صحافت نہ factual (مبنی بر حقیقت) ہوتی ہے اور نہ ہی Impartial (غیر متعصب) اور نہ ہی Neutral (غیر جانبدارانہ) اس کی آزادانہ شناخت (Independant Indetity) فنا ہوجاتی ہے۔ وہ صحافت کے بجائے تجارت ہوجاتی ہے۔ انھیں صحافی کے بجائے تاجر کہنا زیادہ صحیح ہوگا۔ اگر ہندی کا مقبول چینل پٹھان کوٹ میں دہشت گردوں کے داخلے کے شو کو پیش کرتا ہے تو یہ کیسے اور کیونکر ملک کی سیکوریٹی پر اثر انداز ہوتا ہے؟ یہ چیز ناقابل فہم ہے۔ یہ انہی چینلوں پر بندش ہورہی ہے جو حکومت کے سُر میں سر ملانے کیلئے تیار نہیں ہیں۔
مودی حکومت میڈیا کا گلا گھونٹنے کا کام انجام دے رہی ہے وہ در اصل اختلاف رائے اور سوال نہ کھڑا کرنے کی اپنی پالیسی کو مضبوط اور مستحکم کر رہی ہے۔ اختلاف رائے اور حکومت کی کارکردگی کی مخالفت مودی کیلئے ناقابل برداشت ہے۔ پہلے مودی جی نے صحافت یا میڈیا پر پنجۂ غضب کشمیر میں ڈھایا تھا۔ اب ملک کے دوسرے حصوں پر بھی پنجۂ غضب ڈھانے کی کوشش شروع کر دی ہے۔ ابھی بھی وقت ہے کہ مودی جی اور ان کی حکومت غیر جمہوری حرکتوں سے باز آجائے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو صحافت یا میڈیا کو اخلاقی جرأت پہلے کے مقابلے میں زیادہ دکھانا ہوگا، ورنہ ملک میں جمہوریت اور آزادی کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔