امریکہ میں اب کی بار کس کی سرکار

مظفر حسین غزالی

امریکی فیس بک پر ایک فقرہ کچھ دنوں تک مشہور ہوا’’ٹرمپ امریکہ کے مودی ہیں اور مودی بھارت کے ٹرمپ‘‘ اس سے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے ڈونالڈ ٹرمپ کا ایک اور نعرہ ٹی وی پر نمودار تھا۔’’ اب کی بار ٹرمپ سرکار‘‘ ریپبلکن پارٹی 2014 کے بھارتیہ چنائو سے چرایا ہوا مال اس لئے استعمال کررہی ہے تاکہ مودی بھکت ٹرمپ کی طرف متوجہ ہوسکیں۔ ٹی وی اشتہارات میں ٹرمپ دیپ جلاتے دکھ رہے ہیں۔ اشتہاروں میں ٹرمپ ہندوانڈیا،ٹروفرینڈ آف مودی، باربار بولتے ہیں۔ بمبئی تاج ہوٹل پر فائرنگ کی تصویریں، ہاتھ میں گنا پکڑے ایک مسلم دہشت گرد، گجرات دنگے کا کارٹون، اس طرح کے مداری والے کھیل نے امریکی انتخابات کا وقار گرادیا ہے۔ ووٹ لپکنے کی للک اتنی کہ ڈ ونالڈ ٹرمپ کا پورا خاندان اس بار دیوالی منانے میں لگ گیا۔ ٹرمپ نے تین شادیاں کی ہیں،جن میں سے پانچ اولادیں اور آٹھ پوتے پوتیاں ہیں۔
عام طورپرامریکی ووٹر چنائو کے دن کا مزہ لیتے تھے۔ مگر آٹھ نومبر کو ہونے والے انتخابات سے پہلے امریکہ میں چناوی پرچار کا کچرا اس قدر پھیل جائے گا، جن کا تصور رائے دہندگان نے نہیں کیاتھا۔ امریکن سائیکولاجیکل ایسوسی ایشن کے ایک سروے میں پتہ چلا کہ اس دیش کے 52فیصد رائے دہندگان سگنی فیکنٹیلی اسٹریس (سچ مچ کے تنائو سے گزررہے) ہیں۔ اس وجہ چنائو میں کیچڑ اچھالو پروگرام کا انتہا پر ہونا ہے۔ چنائو پرچار میں نکسل واد، مذہبی بھید بھائو، علاقائیت، عورتوں کے وقار کو مجروح کرنے اور الیکشن کے ضابطوں کی ان دیکھی جیسی برائیوں نے رائے دہندگان کابلڈ پریشر بڑھا دیا ہے۔
رائے دہندگان مشکل سے گزررہے ہیں کہ چنیں توکسے۔ ٹرمپ غیر مہذب انسان ہیں، جنسی استحصال کرنے والے، پینترے باز، ڈھیٹ،لگاتار جھوٹ بولنے والے اور ٹیکس کی چوری کرنے والے کاروباری، دوسری طرف ہلیری کلنٹن ہیں جو اقتدار کیلئے سیف گیم کھیلنا پسند کرتی ہیں۔ کسی سے بھی پیسے لے لیتی ہیں۔ ڈرپوک ہیں، جوکھم سے بھاگتی ہیں۔ اقتدار میں رہیں تو ای میل سرور کا غلط استعمال کرگئیں اور اس وقت امریکی سیاست میں پریوار واد کو آگے بڑھا رہی ہیں۔
ساری کمیوں کے باوجود ہلیری جیت گئیں تو ملک کی پہلی خاتون صدر بننے کا مقام حاصل ہوگا۔ ویسے کمال کا ملک ہے امریکہ۔ دنیا بھر میں برابری کی بات کرنے والے امریکہ میں ایک بھی خاتون کو اب تک راشٹرپتی بننے کا موقع نہیں ملا۔1872میں وکٹوریہ وڈھل صدر کے عہدے کے واسطے پہلی خاتون امیدوار بنیں جنہیں اکول رائٹس پارٹی نے میدان میں اتارا تھا۔ اس کے بعد سے چالیس خواتین سیاست دانوں نے امریکی راشٹرپتی بننے کی لگاتار کوششیں کی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اوبامہ کے چناوی دور میں ایسا کیاتھا کہ ماحول آلودہ نہیں ہوا؟ اوبامہ امریکہ کے پہلے راشٹرپتی رہے ہیں جنہیں دوانتخابات میں لگاتارجیت حاصل ہوئی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب امریکی مانس9/11کے سنڈروم سے آزاد نہیں ہوا تھا۔ اوبامہ کے چنائو کے دو نوں موقعوں پر امریکہ میں تہذیبی، نسلی اتحاد کی بہترین مثال پیش کی تھی۔ اس کے ٹھیک الٹ اس وقت یہ دیش چناوی اختلافات کی بدترین مثال پیش کرنے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ کیا یہ صحیح نہیں ہے کہ پاکستان مخالف سخت ہندووادی طاقتوں کو ٹرمپ میں اپنا عکس دکھ رہا ہے؟ 24ستمبر 2015کو ایک ریڈیو نشریات میں ٹرمپ نے کہاتھا ’’پاکستان‘‘اترکوریا سے بھی بڑا پاگل دیش ہے، اور اسے ٹھیک کرنا ہے۔ پاکستان کو کنٹرول کرنے کیلئے بھارت سے نزدیکیاں بڑھانا ضروری ہے۔ 13مارچ2016کو ٹرمپ نے نفرت کو اور بڑھانے والا بیان دیا کہ 27فیصد مسلمان ’دہشت گرد‘ ہیں۔ ڈونالڈ ٹرمپ امریکہ میں رہ رہے مسلمانوں کا ڈاٹا بیس چاہتے ہیں تاکہ ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھی جاسکے۔
ٹرمپ نے سیاسی بکیتی کرکے ریپبلکن پارٹی کا چہرہ اسلام مخالف بنادیا ہے بلکہ یوں کہیں کہ امریکہ میں نئے قسم کا الٹرا راشٹرواد پیدا ہورہا ہے، جس کی طرف سفید رائے دہندگان متوجہ ہورہے ہیں۔ ٹرمپ کی ریپبلکن پارٹی میں مارٹن لوتھر کنگ کی سوچ کو کتنی جگہ ملتی ہے یہ بھی اس وقت سوچنے کا موضوع ہے۔ 2006تک امریکن سول رائٹس کی حوصلہ افزائی کرنے والے مارٹن لوتھرکنگ کے پوسٹر کا استعمال ریپبلکن پارٹی کرتی رہی ہے۔ ریپبلکن پارٹی کے اس الٹرا راشٹرواد کے پیچھے کیا امریکہ کی یہودی لابی کام کررہی ہے؟
اس کا مطلب یہ نہیں کہ ٹرمپ کے مقابلے ڈیموکریٹ امیدوار ہلیری کلنٹن کمزور پڑرہی ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ، اے بی سی نیوز نے 29-26ستمبر کے تازہ سروے میں 49 فیصد رائے دہندگان ہلیری کلنٹن کی طرف، اور 47فیصد ووٹر ٹرمپ کی طرف جھکے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ یو ں امریکہ چنائو میں گیم چینجر افریقہ، میکسیکو، لاطینی امریکی دیشوں سے آئے ہپانک۔لٹینوووٹر رہے ہیں۔ 2008میں براک اوبامہ کی 67فیصد ہپانک۔لٹینورائے دہندگان نے حمایت کی تھی۔ چار سال بعد 2012میں لگ بھگ اتنے ہی ہپانک۔لٹینوووٹروں نے ڈیموکریٹ کی حمایت کی تھی۔ یعنی اوبامہ کی پکڑ ہپانکلٹینو ووٹروں پر رہی ہے۔ نویدا، نیو میکسیکو بہت حد تک کولاراڈو ان کا گڑھ ہے۔اس دیش میں ایک کروڑ83لاکھ ایشین۔امریکن آبادی ہے، جن میں ووٹ دینے والوں کی تعداد ساٹھ لاکھ سے کچھ زیادہ ہے۔ چینی نسل کے امریکی38لاکھ ہیں۔ 2010کی مردم شماری میں پاکستانی تین لاکھ63ہزار699تھے۔ امریکہ میں بھارتیوں کی تعداد32لاکھ ہے۔ ان میں سے لگ بھگ18لاکھ لوگوں کو شہریت ملی ہوئی ہے۔ چینی، بھارتیہ، کورئن، جاپانی، فلی پینو، تھائی اور ویتنامی نسل کے امریکی۔ ایشین ووٹر ریپبلکن اور ڈیموکریٹ دونوں پارٹیوں کی فوقیت لسٹ میں ہیں۔ مگر میڈسن اسکوائر میں مودی کے جلوے۔جمال کو جب سے امریکی لیڈران نے دیکھا ہے، انہیںلگتا ہے کہ یہ ایک بڑا ووٹ بینک ہے، اسے سادھ لو۔ اسلاموفوبیا جیسے جیسے آگے بڑھا، امریکہ میں مسلم ووٹ ایک جٹ ہوتے گئے۔ کونسل آف امریکن اسلامک ریلیسنز (سی اے آئی آر) کے تازہ سروے کے مطابق بہتر فیصد امریکن مسلم رائے دہندگان نے ڈیموکریٹ امیدوار ہلیری کلنٹن کو ووٹ دینا طے کیا ہے۔ چار فیصد ٹرمپ کو ووٹ کریںگے۔ تین فیصد نے گرین پارٹی کے امیدوار جل اسٹائن کو ووٹ دینا پکا کیا ہے اور دو فیصد امریکی مسلم لبرٹریئن پارٹی کے گیری جانسن کو ووٹ دیںگے۔
ایک اورادارے بی ای ڈبلیو ریسرچ کے مطابق، امریکہ میں مسلمانوںکی آبادی 33لاکھ ہے۔ امریکی راشٹرپتی کے چنائو میں زیادہ سے زیادہ مسلمان شرکت کریں۔ اس کیلئے دیش بھر میں پھیلے 2500مساجد اور 500اسکولوں میں ووٹر رجسٹریشن مہم چلائی گئی۔ امریکہ میں درجنوں مسلم پریشر گروپوں کی امبریلا تنظیم، یو ایس کونسل آف مسلم آرگنائزیشنز کے سکریٹری کو ساما جمال نے دعویٰ کیا کہ دس لاکھ سے زیادہ مسلمان ووٹ دینے کیلئے رجسٹرڈ کئے جاچکے ہیں۔
وقت یہ ہے کہ اس وقت براک حسین اوبامہ کی طرح غیر سفید، عیسائی۔ مسلمان تناظر والا امیدوار امریکی الیکشن میں نہیں کھڑا ہے۔ امریکہ میں اب تک جتنے بھی گورے صدر چنے گئے ان میں ڈیموکریٹ کی تعداد زیادہ رہی ہے۔ ٹرمپ کی وجہ سے اس چنائو میں قومی سلامتی، گن کنٹرول، صحت، بے روزگاری جیسا ایجنڈا پیچھے رہ گیا۔ متشدد راشٹرواد بحث کے آگے آگے چل رہا ہے۔ پولنگ میں اہم یہ بھی ہے کہ کون سی پارٹی ’بلووال‘ میں سیندھ لگاتی ہے۔امریکی سیاست میں’بلووال‘ کا تصور اٹلانٹک میڈیاکے صحافی رونالڈبراوشٹائن نے ڈولپ کیا تھا۔ جن سے مراد کولمبیاڈی سی کے ساتھ وہ 18 ریاستیں ہیں، جہاں پر1992سے ہوئے چھ انتخابات میں ڈیموکریٹ کو فتح حاصل ہوتی رہی ہے۔ ان 18ریاستوں میں مشی گن، پین سلوینیا، وسی کونسن، من سوٹا، اوہایو، فلوریڈا، ورجینیا، نیوہنپ شائر اور لاووا کا نام خاص طور سے لیا جاتاہے، جہاں کے ووٹر آخری وقت میں چنائو کا پانسہ پلٹ دیتے ہیں۔
امریکہ میں 2012کے چنائو کے بعد’’ نیشنل ایشین امریکن سروے سے پتہ چلا کہ 16فیصد انڈین امریکن نے ریپبلکن امیدوار مٹ رومنی کو ووٹ دیاتھا۔ اسی ادارے نے پچھلے ہفتے سروے شائع کیا ہے۔ جس میں 54فیصد انڈین امریکن ہندوئوں سے بات کی گئی تھی۔ اس کے مطابق54فیصد ہندوئوں میں سے صرف7فیصد ٹرمپ کی حمایت کرتے پائے گئے۔ تو کیا امریکہ میں مودی کا جادوٹوٹ رہا ہے؟
کلنٹن خاندان نے بھارت، امریکہ تعلقات کو ٹھیک کرنے میں جو رول ادا کیا اس کی فصل کاٹنے کا وقت آگیا ہے۔ سینٹ انڈیا کو کس کی کو چیئرمین رہ چکی ہلیری کلنٹن نے امریکہ۔بھارت سول نیوکلیئر سمجھوتے میں بڑی مدد کی تھی۔ 2009سے 2013تک وزیرخارجہ رہ چکی ہلیری کلنٹن نے 2011میں چنئی کی ایک میٹنگ میں بھارت کو یہ منتر دیاتھا کہ وہ’’لک ایسٹ‘‘ کے بدلے’’ایکٹ ایسٹ‘‘ پر دھیان دے۔ مودی نے ایکٹ ایسٹ کاآئیڈیا وہیں سے لیا ہے۔ ہوٹل کاروباری ڈونالڈ ٹرمپ پانچ مرتبہ پارٹی بدل چکے ہیں۔2008میں ڈیموکریٹ ممبر رہتے ہوئے ٹرمپ نے لکھا تھا کہ ہلیری کلنٹن ایک عظیم صدر یا نائب صدر بن سکتی ہیں۔ مگر اب ٹرمپ کبھی نہیں چاہیںگے کہ ان کی پیشین گوئی صحیح ثابت ہو۔
(نوٹ:ای یو ایشیانیوز کے دہلی بیس ایڈیٹر پشپ رنجن کی تحریر سے ماخوذہے)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔