میڈیا کا تشویش نا ک رویہ

  منصور عالم قاسمی

میڈیا یعنی جس کے ذمہ جمہوریت کے چو تھے ستون کو سنبھالنا اور مضبوط کرنا ہے ؛ ارتقاء جمہوریت ،احترام انسانیت اور بقاء حرمت میں اہم کردار ادا کرناہے۔ جس کا تعمیری اور مثبت کردار خدمت خلق کہلاتا ہے اور کیوں نہ کہلائے کہ اس سے ایک صالح معاشرہ کی تشکیل ہوتی ہے،عوام میں سیاسی ،سماجی بیداری پیدا ہوتی ہے، مختلف مذاہب و ادیان کی درمیان ہمدردی،یکجہتی اور اخوت ومحبت پیدا ہوتی ہے۔ میڈیا برادران پر شرط ہے کہ عالمی اور ملکی حالات وواقعات کو پیش کرتے وقت صداقت اور حق گوئی سے کام لے ۔اس میں اپنی رائے شامل کرنا۔

یا خبر کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا ایک صحافی کو بدکردار اور صحافت جیسے معزز پیشے کو داغدار بنا دیتا ہے ۔ خبروں اور واقعات کا پس منظر دکھاتے یا تحریر کرتے ہوئے اپنی پسند اور ناپسند کو بالائے طاق رکھ کر پوری دیانت داری سے کام لینااور سماج کو صاف و سچا آئینہ دکھانا  ہی میڈیا کا بنیادی مقصد ہے۔لیکن افسوس صد افسوس آج الیکٹرونک میڈیا ہو یا پرنٹ میڈیا،سبھی اپنے حقوق و فرائض بھول گئے ہیں ۔ نہ خبروں کی ترسیل میں تحقیق و تدقیق،نہ صداقت و راست گوئی اورنہ مثبت رویہ ۔بس ان کا عظیم مقصد اپنی ٹی آر پی بڑھانا رہ گیا ہے ۔طمع و حرص اور شہرت کا دلدادہ میڈیا کبھی چیونٹی کو ہاتھی اور کبھی ہاتھی کو چیونٹی بنا کر پیش کردیتا ہے َََٓٓٓٓٓٓٓٓ۔

اس وقت ہندوستانی الیکٹرونک میڈیا جس کو اختلاف اور خلافت کا مفہوم بھی نہیں معلوم ،جو رائے اور فتویٰ میں فرق نہیں جانتا ،جو علی الصباح اور اہل صبح کامعنی ٰ تک نہیں جانتاوہ اپنی ٹی آر پی بڑھانے کے لئے حقائق سے بعیدایسی ایسی سنسنی خیز خبریں پروستا ہے ،ایسا ایسا ہیڈ لائن لگاتا ہے کہ بس سر پیٹتے رہئے۔پچھلے دنوں آسام کی ایک نو عمر گلوکارہ ناہید آفرین کا  میوزیکل شو ایک قبرستان کے قریب ہونے والا تھا، جس کی وجہ سے وہاں کے چند معتبر شخصیات نے مخالفت کرتے ہوئے لوگوں سے بائیکاٹ کی اپیل کی ،پھر کیا تھا  نیوز چینلوں نے اس رائے اور مشورہ کو فتوی بنا دیا اوربریننگ نیوز یوں بناڈالی ’’آفرین کے خلاف۴۶ مفتیوں کا فتویٰ، ’’آفرین کو فتویٰ سے بچائو‘‘ ایک بچی ۔۔۔۔۴۶ فتوے ‘‘یہ ہے جاہل اور سنگھی میڈیا ۔ زی نیوز نے طارق فتح جیسا بددین اور بدکرداکو اپنے چینل میں بٹھا کر خصوصی شو ’’فتح کا فتویٰ ،،شروع کردیا ۔مقصد ٹی آر پی بڑھانا،اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کر کے حکومت اور بھگوائیوں کی خوشنودی حاصل کرنااور سنسنی پھیلانا۔نامور صحافی سنتوش بھارتیہ نے بالکل سچ کہا ہے: ’’آج کا میڈیا بک گیا ،اس نے اپنی بولی لگا لی ہے ،نیوز ایجینسیاں ہوں یا سروے ایجینسیاں سب کے سب سیاست دانوں کے ہاتھوں بک چکی ہیں۔معروف اور بی باک صحافی رویش کمار نے ٹھیک ہی کہا ہے، یہ ’’گودی میڈیا،،ہے ۔چنانچہ آج گودی میڈیا وہی دکھاتا ہے جو حکومت چاہتی ہے ۔

کوئی بھی چینل کسی بھی وقت کھولو ،مودی یوگی ،مودی یوگی کا بھجن کیرتن ہی سننے کو ملتا ہے۔ گودی میڈیا کو نہ ملک کی ترقی و تنزلی سے سروکار ہے نہ معاشیات و اقتصادیات سے ؛نہ مجبور و مظلوم عوام کی آواز اٹھانے سے اور نہ حکومت کے جبر و استبداد کے خلاف بگل بجانے سے ؛نہ کسانوں کے لئے لڑنے سے اور نہ مارے جارہے بے گناہوں کے حق میں صدائے احتجاج بلند کرنے سے ۔آج گائے اوربیف کے نام پر ہر جگہ تشدد ہورہا ہے ،درجنوں جانیں چلی گئیں جس سے بچے یتیم ہو گئے ،جوان بیوی بیوہ ہوگئیں اس پر گودی میڈیا حکومت سے آنکھیں ملا کر سوال نہیں کررہا ہے، کوئی مثبت بحث و مباحثہ اور ڈیبٹ شو نہیں کر رہا ہے ۔اس کا درد’’ نیو یارک ٹائمز،، محسوس کرتا ہے مگر ہمارے ملک کے گودی میڈیا کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی ہے ۔سہارنپور میں منظم طریقے سے فساد برپا کیا گیا جس میں سیکڑوں گھر جلے ،کئی افراد لقمئہ اجل بنے ،دلتوں نے جنتر منتر پر جمع ہوکر صدائے احتجاج بلند کی اس کی بھی گونج ’’دی گارجین،،نے سنی مگر گودی میڈیا نے کوریج کرنا اور مناسب ہیڈنگ لگاناضروری نہیں سمجھا کیونکہ یہ مودی اور یوگی کے خلاف طاقتور آواز تھی ۔کہیں پر بھی دھماکہ ہو جائے، جائے وقوعہ پر تفتیشی ٹیم کے پہونچنے سے پہلے ہی کسی مسلمان کانام جوڑ کر خطرناک دہشت گرد قرار دینے اور چیخنے والے میڈیا جب سابرمتی ایکسپریس دھماکہ کے ملزم گلزار وانی 16 سال بعد جیل سے باعزت رہا ہوا تو کسی نے بریکننگ نیوز نہیں بنائی اور نہ حکومت سے کسی چینل نے سوال کیا کہ اس قیمتی عمر کے ضیاع کا ذمہ دار کون ہے اور اسے کیوں نہ سزا دی جائے ؟

 جس میڈیا کوملک و ملت کے لئے کام کرنا تھا ،سب کاساتھ سب کا وکاس پر حکومت کی گردن زنی کرنی تھی ،آج اس کام صرف اور صرف ناکارہ اور ظالم حکومت کو مضبوط کرنا اور اقلیتی طبقات کو الجھا کر رکھنا ہے ۔چین نے سکم میں کئی بنکر تباہ کر ڈالے ،کیلاش مان سروور کی یاتراسے روکا ،  فوجیوں کی بے عزتی کی ۔آزادی کے بعد کشمیر سب سے نازک دور سے گزر رہا ہے ،روز فوجی مارے جا رہے ہیں ۔دارجلنگ میں آگ کے شعلے بھڑک رہے ہیں ، لیکن گودی میڈیا  ان اہم  مدعوں پر مودی سے بازپرس نہیں کررہا ہے ۔نوٹ بندی کی وجہ سے سینکڑوں لوگ بن دوا کے اور درجنوں قطار میں مرگئے ،جی ڈی پی گروتھ 6۔1  فیصدآگیا ،کئی لاکھ لوگ بے روزگار ہوگئے ،ڈالر کے مقابلے روپئے کی قدر گھٹ کر 63 روپئے ہو گئے جبکہ 2013 میں 58 روپئے تھے ،مگر میڈیا نہیں پوچھ رہا ہے ۔جی ایس ٹی نافذ ہوا،میڈیا اس کے فائد ے بتا رہا ہے لیکن گیس ،پٹرول اور بجلی کو جی ایس ٹی سے کیوں مستثنٰی رکھا گیا ہے، اس پر کچھ نہیں بول رہا ہے کیونکہ جن کے روپیوں پر بی جے پی حکومت بنی ہے ،وہی ان کے مالک ہیں ۔

 مجھے پتہ ہے،اس دیش کا گودی میڈیا مودی اور ان کے کارندوں سے کوئی سوال کرنے کی جرأت نہیں کرے گا ،کیونکہ سب  ان کے ہاتھوں بکے ہوئے ہیں۔ آر ٹی آئی کے مطابق وزیر اعظم نریندر مودی نے میڈیا پر صرف ڈھائی سال کے درمیان  11؍سو ارب روپئے سے زیادہ خرچ کئے، آخر وہ پیسے  ان ہی دلال میڈیا کو تو ملے ہیں ؟سدھیر چودھری، ارنب گوسوامی ،انجنا اوم کیشیب اوررجت شرما  جیسے ضمیر فروش کوئی 10۔15 ہزار میں تھوڑی چیختے ہیں ۔پرنٹ میڈیا کا بھی وہی حال ہے جو الیکٹرونک میڈیا کا ہے، جتنے روپئے اسی حساب سے نیوز، یہ دیکھئے ایک ہی نیوز کو تین ہندی اخبار نے کس طرح شہ سرخی لگائی ’’یوپی کو 10؍ ہزار کروڑ‘‘راشٹریہ سہارا ۔’’یوپی کی سڑکوں کے لئے 50 ہزار کروڑ‘‘ ہندوستان ۔’’ایک لاکھ کروڑ سے بچھے گا یوپی میں سڑکوں کا جال‘‘امر اجالا ۔یعنی روپئے، رشوت اور چاپلوسی کے حساب سے خبریں بنتی ہیں – اور یہی وجہ ہے کہ آج انڈین میڈیا دنیا کے ٹاپ 100 میں نہیں ،ٹاپ 150 سے بھی خارج ہے ۔

ایک ہندی کے صحافی نے خود کہا ہے کہ ’’آج کے دور میں صحافت منحصر ہے ہونے والے اعلان کے نتائج پر ،اور اس کے لئے کچھ بھی دکھایا اور کیا جا سکتا ہے ،یہاں خبروں کی سچائی سے زیادہ ضروری ہوتا ہے جھوٹ دکھاکر ٹی آر پی میں پہلا مقام حاصل کرنا ‘‘۔چنانچہ میڈیا کایہ رویہ ملک کے لئے ،ملت کے لئے ،قوم کے لئے اور سماج کے لئے ا نتہائی تشویشناک اور خطرناک ہے ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔