بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

محمد سالم  قاسمی سریانوی

یہ دنیا ایک فانی وزوال پذیر دنیا ہے، یہاں کسی کے لیے بقا نہیں ہے، ہر آنے والے کو ایک نہ ایک دن یہاں سے رخت سفر باندھنا ہے۔ یہ وہ خدائی نظام ہے جس کو دنیائے آب وگل میں رہنے والے تمام افراد تسلیم کرتے ہیں ، چناں چہ افراد انسانی کا انتقال روزانہ نہ معلوم کتنے سو، ہزار یا لاکھ میں ہوتا ہے، اور جانے والا اپنے ورے ایک دنیا چھوڑ کر چلا جاتا ہے جس سے وہ طبقہ اور افراد غم زدہ اور متاثر ہوتے ہیں جن سے اس کے تعلقات تھے، لیکن بعض اشخاص کا اس دنیا سے منتقل ہونا پوری ایک دنیا کا منتقل ہونا سمجھا جاتا ہے، جو ”موت العالِم موت العالَم“ کے مصداق ہوتے ہیں (عالم کی موت دنیا کی موت کے برابر ہے) اوراس کی وجہ سے ایک بہت بڑا طبقہ اپنے آپ کو یتیم تصور کرنے لگتا ہے۔ انھیں اشخاص میں سے ایک نمایاں شخصیت امیر المؤمنین فی الحدیث حضرت مولانا یونس صاحب جون پوری رحمۃ اللہ علیہ کی ہے، جنہوں نے خدا کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے 16/شوال 1438ھ مطابق ۱۱/جولائی 2017ء بروز منگل صبح ساڑھے نو بجے کے قریب اس دار فانی کو الوداع کہہ کر دار باقی کو مسکن وٹھکانہ بنا لیا، إناللہ وإنا إلیہ راجعون۔

 حضرت شیخ عہد حاضر میں بلا شبہ امیر المؤمنین فی الحدیث تھے، جن پر پوری علمی دنیا بالخصوص دنیائے علم حدیث ناز وفخر کرتی تھی، جن کے علمی وحدیثی گوہر کو چننا ہر طالب علم وحدیث اپنے لیے مایہ افتخار سمجھتا تھا، آپ نے علمی دنیا میں ؛ بالخصوص فن حدیث میں جو خدمات انجام دیں وہ شاہکار کا درجہ رکھتی ہیں اور بلا کسی تردد کے ان پر اعتماد کیا جاسکتا ہے، آپ کی علمی وحدیثی خدمات کو دیکھ کر علامہ ابن حجر اور دیگر کبار محدثین کی یاد تازہ ہوجاتی ہے جن کے آبشار علم وفن سے آج بھی ایک بڑی مخلوق سیراب ہورہی ہے، آپ بلا شبہ ان محدثین میں سے تھے جن کو ڈھونڈھنا و تلاش کرنا مشکل ہی نہیں بل کہ قریب بہ محال ہے، در حقیقت آپ علامہ اقبال کے درج ذیل شعر کے مصداق تھے

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے

  بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

1429ھ مطابق2008ء میں جامعہ عربیہ احیاء العلوم مبارک پور اعظم گڑھ سے عربی پنجم کی تکمیل کرکے مادر علمی دار العلوم دیوبند میں داخلہ کے لیے دیوبند کا سفر کیا اور بحمد للہ داخلہ ہوگیا، وہیں حضرت شیخ کے بارے میں بہت کچھ سنا، لیکن ملاقات کی نوبت نہیں آئی، ایک سال کے بعد جب دورہ حدیث شریف میں زیر تعلیم تھاتو عید الاضحی کی تعطیل کے موقع پر سہارنپور جانے کا ارادہ ہو اور غالبا تین رفقاء کے ساتھ جن میں مولانا محمد صالح صاحب قاسمی، مولانا محمد ساریہ صاحب قاسمی اور مولانا محمد راشد صاحب قاسمی تھے سہارنپور گئے، جہاں حضرت مولانا ابو الجیش صاحب قاسمی شعبہ عربی ادب میں زیر تعلیم تھے، وہاں کئی علماء اوکابر دین سے ملاقاتوں کا شرف حاصل ہوا، جن میں بالخصوص محدث عصر حضرت مولانا زین العابدین صاحب اعظمی معروفیؒ(سابق صدر شعبہ تخصص فی الحدیث جامعہ مظاہر علوم سہارن پور) اور امیر المحدثین حضرت مولانا محمد یونس صاحب جون پوری سے بھی ملاقات رہی، جب حضرت شیخ سے ملاقات کے لیے ہم لوگ وارد ہوئے تو کسی کتاب کے مطالعہ میں غرق تھے، اس وقت آپ کی طبیعت ناساز تھی، ہم نے سلام کیا اور مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑاھایا، شیخ نے مصافحہ فرمایا، مصافحہ کے بعد ہم وہیں قریب میں بیٹھ گئے اور خیریت معلوم کی، شیخ نے پوچھا کہ کہاں سے آئے ہو؟ عرض کیا مبارک پور اعظم گڑھ سے، تو بہت خوش ہوئے اور اپنے بچپن کے زمانہ کی کچھ باتیں سنانے لگے، جن میں ساڑیوں کا تذکرہ بہت مزہ لے کر کیا، نہایت سادگی اور بشاشت کے ساتھ ساڑیوں کے کاروبار اور اس کے ساتھ اپنی وابستگی کو کچھ دیر بیان کیا جس کو ہم نے سنا، (مشرقی یوپی بالخصوص مبارک پور ومئو میں ساڑیوں کے بنانے کا کام ہوتا ہے جو عام طور سے بازار میں ”بنارسی ساڑیوں “ کے نام سے مشہور ہیں ، انھیں ساڑیوں کے بنانے اور فروخت کرنے کا کچھ تذکرہ حضرت شیخ نے فرمایا تھا) کچھ دیر کے بعد ہم نے اجازت لی اور واپس آگئے، یہ ہماری شیخ سے پہلی ملاقات تھی جو بہت پر لطف رہی، حضرت شیخ ایسے انداز میں محو گفتگو تھے کہ معلوم ہی نہیں رہا تھا کہ آپ علمی دنیا کے امام اور بہت بڑے پیشوا ہیں ۔

اس ملاقات کے بعد غالبا کسی اور موقع پر خصوصی ملاقات نہیں ہوسکی ہے، جب کبھی سہارن پور جاتا، ملاقات کا ارادہ ہوتا، لیکن حضرت کی بیماری یا اور کسی وجہ سے ملاقات نہیں ہو پاتی، اُسی دورہ کی سال مسلسلات میں شرکت کے لیے سہارن پور حاضر ہوا اور درس میں شریک ہوکر اجازت حدیث لی، مسلسلات میں جگہ جگہ حسب ضرورت آپ کلام کرتے تھے، جس سے آپ کی تبحر علمی بالکل دن کی طرح روشن معلوم ہوتی، شیخ سے باقاعدہ کسی کتاب کو سبقا پرھنے کی توفیق نہیں ہوئی، البتہ ایک مرتبہ بخاری کے درس میں کچھ دیر کے لیے شرکت کی تھی، بہر حال ایک سبق میں مختصر حاضری اور مسلسلات میں اجازت حدیث کا ملنا ہی میرے لیے کافی اور باعث فخر ہے۔

حضرت شیخ ؒ کا آبائی وطن جون پور ہے، جس کے ایک گاؤں ”کھیتا سرائے“ میں 25/رجب المرجب 1355ھ مطابق ۲/اکتوبر1937ء میں پیدا ہوئے، اسی گاؤں کے مکتب میں ابتدائی تعلیم حاصل کی، اس کے بعد عربی تعلیم حاصل کرنے کے لیے جونپور ہی کے ایک مدرسہ ”ضیاء العلوم“ مانی کلاں میں 13/ سال کی عمر میں داخلہ لیا اور وہیں فارسی سے لے کر نور الانوار تک کی کتابیں پڑھیں ، بعدہ اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لیے سہارنپور کا رخ کیا اور بافیض ومشہور زمانہ مدرسہ ”جامعہ مظاہر علوم“ میں 1377ھ میں داخلہ لیا اور وہیں رہ کر 1380ھ میں دورہ  حدیث شریف سے رسمی فراغت حاصل کی، جب آپ سہارن پور وارد ہوئے تو تو کچھ ہی دن کے بعد بیمار پڑ گئے، حضرت شیخ الحدیث ؒ اور دیگر حضرات نے گھر واپس جانے کا مشورہ دیا لیکن آپ واپسی کے لیے راضی نہیں ہوئے اور عرض کیاکہ مجھے پڑھناہے، چناں چہ وہیں ٹھہر گئے اور حضرت شیخ الحدیثؒ کی خصوصی توجہات حاصل کی، ان کی برکات وفیوض سے خوب خوب فائدہ اٹھایا اور ہمہ تن حصول علم میں مشغول رہتے ہوئے اس درجہ اور کمال کو پہنچے کہ خود استاذ محترم نے قابلیت وصلاحیت کی گواہی دی، اور خود اس استاذ نے بعد میں جابجا اپنے شاگرد کے قول کو نام کی صراحت کے ساتھ اپنی کتاب میں درج کیا، یہ حضرت کی کمالیت، لیاقت اور صلاحیت کی روشن اور بین دلیل ہے۔

جامعہ مظاہر علوم سے رسمی فراغت کے بعد وہیں پر 1381ھ میں معین مدرس ہوگئے اور تدریسی خدمات کا ایک زریں سلسلہ شروع کیا اور بہت سے علوم وفنون کی کتابیں پڑھائیں ، 1388ھ میں آپ کو ”شیخ الحدیث“ کا عہدہ جلیلہ سپرد کیاگیا جس پر تادم وفات فائز رہے، اور تقریبا 50/ سال فن حدیث کی اعلی وبالا خدمت انجام دی، ان ایام میں بلا شبہ بغیر واسطہ اور بالواسطہ لاکھوں افراد تیار کیے جو ملک اور بیرون ملک میں آپ کی علمی زندگی کے روشن مینارے بن کر چمک رہے ہیں ، ان سالوں میں آپ نے وہ انمٹ نقوش چھوڑے ہیں جو رہتی دنیا کے لیے نور کا کام دیں گے، فن حدیث میں آپ کو جو کمال وجمال حاصل تھااس کی نظیر ناممکن ہے، اس کے حقیقت دیکھنی ہو تو شیخ کا درس بخاری سن لیا جائے، یا پھر تحریری طور پر ”الیواقیت الغالیہ“ وغیرہ کا مطالعہ کرلیا جائے، میرے پاس وہ الفاظ نہیں ہیں جن کے ذریعہ شیخ کے علوم وفیوض اور خدمات کو قید تحریر میں لاسکوں ، بس اتنا کہنا کافی سمجھتا ہوں

ایک دفتر چاہیے اس بحر بے کراں کے لیے

 جیسا کہ عرض کیا جاچکا ہے کہ یہ دنیا فانی ہے، اسی فنا کے ضابطہ کے تحت آپ بھی رحلت فرماگئے اور اپنے ورے لاکھوں سوگواروں کو نمدیدہ کر کے چلے گئے، انتقال سے پہلے صبح میں بعد نماز فجر کچھ سستی معلوم ہوئی تو سہارن پور کے مشہور اسپتال میڈی گرام داخل کردیے گئے، جہاں آپ نے وقت موعود پر آخری سانسیں لیں ، ساڑھے نو بجے ڈاکٹروں نے انتقال کی تصدیق کی، جس سے علمی دنیا میں ہلچل مچ گئی اور لوگ جوق در جوق زیارت کے لیے پہنچنے لگے، بعد نماز عصر پیر طریقت حضرت مولانا محمد طلحہ صاحب کی امامت میں نماز جنازہ ادا کی گئی اور لاکھوں سوگواروں کی موجودگی میں قبرستان شاہ کمال میں تدفین عمل میں آئی۔

بہر حال اب جب آپ ہمارے درمیان نہیں رہے تو ایک خلا کا احساس لازمی ہے، یکے بعد دیگر بڑے اہل علم اس دنیا سے رخصت ہورہے ہیں اور ان کی جگہیں نااہلوں یا کم از کم ان جیسے اہل والوں کے علاوہ سے پر رہی ہیں ، جس سے قیامت کی علامات صغری میں سے ”رفع العلم“یعنی ”علم کا اٹھا لیا جانا“ حرف بحرف صادق آرہا ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ حضرت شیخ کی بال بال مغفرت فرمائے، ان کو غریق رحمت کرے، اپنے فضل سے اعلی علیین میں ٹھکانہ نصیب فرمائے، علمی دنیا کو آپ کانعم البدل عطا فرمائے  اوراہل خانہ، متعلقین، متوسلین اور شاگردوں کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین

آسماں ان کی لحد پر شبنم افشانی کرے

تبصرے بند ہیں۔