حبیب بدر
میکدہ سےوہ دور مے کشی جاتی رہی
کاروان دیں سے اب زور حیدری جاتی رہی
…
سنتا آرہا تھا میں جن کی قوت بازو کی صدا
وہ توہیں بے نام و نشاں اور صدا جاتی رہی
…
رسم حیا کا کس قدر چھایاہوا تھا چلن
با حیا اب ہوتا ہے کون اور حیا جاتی رہی
…
کوچہ زلف یار میں پھنسے ہوے ہیں ارباب ادب
عظمت یار گاتا کون وہ بانسری بھی جاتی رہی
…
ناز کرتا تھا زمانہ جسکی جوانی پہ بدر
کہاں وہ نوجواں ہیں جوانی بھی جاتی رہی
تبصرے بند ہیں۔