میکدہ سے وہ دور مے کشی جاتی رہی

حبیب بدر

میکدہ سےوہ دور مے کشی جاتی رہی
کاروان دیں سے اب زور حیدری  جاتی رہی

سنتا آرہا تھا میں جن کی قوت بازو کی صدا
وہ توہیں  بے نام و نشاں  اور صدا جاتی رہی

رسم حیا کا کس قدر چھایاہوا  تھا چلن
با حیا اب ہوتا ہے کون اور حیا جاتی رہی

کوچہ زلف یار میں پھنسے ہوے ہیں ارباب ادب
عظمت یار گاتا کون وہ بانسری بھی جاتی رہی

ناز کرتا تھا  زمانہ جسکی جوانی پہ بدر
کہاں وہ نوجواں ہیں جوانی بھی جاتی رہی

تبصرے بند ہیں۔