میں خود سے بھی یہ کہتا ہوں سنبھالو اپنے دل کو تم

افتخار راغبؔ

میں خود سے بھی یہ کہتا ہوں سنبھالو اپنے دل کو تم

بہت بے کل ہو سنتا ہوں سنبھالو اپنے دل کو تم

۔۔

بہت ہی ناز تھا پر شوق دل کی بے قراری پر

سو اب مثلِ تماشا ہوں سنبھالو اپنے دل کو تم

۔۔

اگرچہ عقل اس سے متفق بالکل نہیں لیکن

میں اپنے دل کا مارا ہوں سنبھالو اپنے دل کو تم

۔۔

تمھیں جب دے دیا ہے دل تو حق باقی کہاں میرا

عبث میں فکر کرتا ہوں سنبھالو اپنے دل کو تم

۔۔

 وہی دل کش غزل ہوں میں جسے تم دل سے پڑھتے ہو

تمھارے دل کا چہرہ ہوں سنبھالو اپنے دل کو تم

۔۔

سنبھلتا ہی نہ تھا مجھ سے کسی صورت بھی دل راغبؔ

بہت اندر سے ٹوٹا ہوں سنبھالو اپنے دل کو تم

تبصرے بند ہیں۔