میں زاہد تو نہیں ہوں رند ہوں مخمور رہتا ہوں 

جمال ؔ کاکوی

میں زاہد تو نہیں ہوں رند ہوں مخمور رہتا ہوں
مگر میخانے سے بنتِ عنب سے دور رہتا ہوں

کوئی اظہار کی قدرت نہیں مجھ میں مگر پھربھی
کبھی سرمد میں رہتا ہوں کبھی منصور رہتا ہوں

فقیری کا نشہ کچھ کم نہیں ہے تاج والوں سے
زمانہ مجھ سے نا الجھے نشے میں چور رہتا ہوں

میں ان کو کیا کہوں جو مجھ کو دیوانہ سمجھتے ہیں
مصیبت لاکھ ہو محفل میں مسرور رہتا ہوں

مجھے خود میرا جینا بھی وہاں اچھا نہیں لگتا
صدائے حق بلند کرنے سے جب معذور رہتا ہوں

ترے بن تو ہے میری سانس کا چلنا بھی ناممکن
غلط کہتی ہے یہ دنیا میں تجھ سے دور رہتا ہوں

میں اپنی نا توانی سے جو بڑھ بڑھ کر نہیں ملتا
یہ تہمت بھی لگی مجھ پر بہت مغرور رہتا ہوں

زبان میری سمجھتا ہی نہیں ہے میرا ہم سایہ
وطن میں رہ کہ بھی اہل وطن سے دور رہتا ہوں

جہاں رہتا ہوں رہتاہوں نظر میں اہل دنیا کے
بہت بدنام رہتا ہوں بہت مشہور رہتا ہوں

زمانے سے نہیں خود سے جمالؔ شاکی ہے آئینہ
میں کیوں خاموش رہتا ہوں میں کیوں رنجور رہتا ہوں

تبصرے بند ہیں۔